نومبر 14, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میں نے پاکستان بنتے دیکھا ||ظہور دھریجہ

بسوں کے اندر اور چھتوں پر بھی مسلمان سوار تھے۔ انہی بسوں میں ہم بھی سوار ہو گئے ۔ راستے میں جگہ جگہ سڑک کنارے مسلمانوں کے گوروکفن لاشیں تھیں۔ کھانے کوچنے اور گڑ اور تھوڑا سا پانی تھا جو گھونٹ گھونٹ پیتے رہے۔

ظہور دھریجہ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں نے پاکستان بنتے دیکھا کہ عنوان سے محترمہ رضیہ بیگ کی کتاب ہم نے جھوک پبلشرز کی طرف سے شائع کی ہے ۔ رضیہ بیگ صحافی خاتون ہیں انہوںنے بڑا کام کیا ہے ، سالہا سال اُن بزرگوں کو ملتی رہیں جو انڈیا سے آئے تھے ۔آنے والے مہاجرین کے انٹرویو قلمبند کئے اور اُسے ایک کتاب کی شکل دی ۔میں نے کتاب کے بارے میں لکھا کہ محترمہ رضیہ بیگ میرے بہت ہی مہربان اور اچھے دوست کی بیوی ہونے کے ساتھ اس لئے بھی قابل احترام ہیں کہ ان کا خواتین کے مسائل کے حوالے سے بہت کام ہے۔
وہ بیٹی، بہن ، بیوی اور ماں کے روپ میں عظیم ہونے کے ساتھ ساتھ محب وطن سینئر صحافی ہیں۔ صحافت کا لفظ صحیفے سے ماخوذ ہے اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ صحافت شیوہ پیغمبری ہے۔ کچھ ہمارے نادان حضرات عورت کو مرد کے مقابلے میں کمتر بنانے کے لیے کہتے ہیں کہ کوئی عورت پیغمبر نہیں ہوتی اس لئے وہ کمتر ہیں ، لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ عورت پیغمبر کی ماں تو ہوتی ہے ۔محترمہ رضیہ بیگ کا یہ کام قابل قدر بھی ہے اور قابل تقلید بھی ۔
میری خواہش ہے کہ محترمہ رضیہ بیگ ،بزرگ مہاجروں سے اس بات کا بھی انٹرویو کریں کہ ہجرت کے بعد وہ کہاں کہاں گئے اور وہاں مقامی لوگوں کا ان سے سلوک کیسا تھا؟ اگر مقامی لوگوں کی مہاجر بھائیوں کو گلے لگانے کے حوالے سے ایثار وقربانی ،ہمدردی یا غمگساری کے واقعات ہیں تو ان کو بھی تحریر میں آنا چاہئے تاکہ دوسرا پہلو بھی تشنہ نہ رہے۔ ملتان میں اُردو ادب کا ایک بہت بڑا حوالہ عاصی کرنالی تھے وہ شاعری کے حوالے سے پورے ملک میں جانے پہچانے جاتے تھے اُن کا نام شریف احمد تھا مگر اُن کی پہچان پروفیسر عاصی کرنالی کے حوالے سے تھی۔
محترمہ رضیہ بیگ نے اُن کی وفات سے قبل انٹرویو کیا ،کرنالی صاحب کی یادیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں وہ لکھتے ہیں کہ نواب لیاقت علی خان نے کرنال میں تحریک پاکستان کے دنوں میں ایک جلسہ کیا۔ جس کے لیے مسلمانوں نے کئی روز سے تیاریاں شروع کر رکھی تھیں۔ جلسہ کے روز ہزاروں کا مجمع تھا ۔ لوگ اپنے محبوب قائد کی ایک جھلک دیکھنے کو بے تاب تھے۔ کرنال شہر میں ’’پڑائو‘‘ نامی ا یک کھلا میدان تھا جہاں یہ جلسہ ہوا۔ نواب لیاقت علی کی تقریر کے الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں انہوں نے کہا :’’ ہم نے بہت چاہا کہ ہم ہندوستان میں رہیں۔ انگریز جاتے ہوئے حکومت اس شکل میں دے جائے جس میں مسلمانوں کے حقوق پامال نہ ہوں مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ انگریزوں نے کانگریس کی عمل داری میں حکومت دے دی اور ہمیں آزادی کے لیے مجبوراً تحریک چلانا پڑی۔‘‘
کرنالی صاحب بتاتے ہیں کہ جلسے میں مسلمانوں کے ذوق شوق کا یہ عالم تھا کہ نواب لیاقت علی خان کی تقریر کے دوران جلسے کے شرکاء پر مکمل سناٹا تھا جو مسلمانوں کے باہمی اتحاد اور یگانگت کی گواہی دے رہا تھا۔ یہ آزادی کے حصول کے دن تھے۔ تحریک پاکستان زوروں پر تھی۔ ان دنوں میں نے گورنمنٹ ہائی سکول کرنال سے میٹرک کا امتحان پاس کرلیا تھا۔ ہمارے سکول میں ہندو سکھ عیسائی سبھی لڑکے پڑھتے تھے۔
تحریک کے دنوں میں ہندو اگر ’’جے ہند‘‘ کے نعرے لگاتے تھے تو مسلمان لڑکے چاہے جائے اپنی جان لے کے رہیں گے پاکستان ‘‘ کے نعرے لگاتے تھے۔ جس سے کسی بھی وقت تصادم کا خطرہ تھا۔ کسی بھی سنگین صورتحال سے بچنے کے لئے ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر لال دین نے سکول کی حدود میں کسی قسم کے جلسے یا نعرے لگانے پر سختی سے پابندی عائد کر دی۔ جس سے کافی دنوں تک فضا میں امن رہا تاہم کرنال شہر میں خاص کچھائو پیدا ہو چکا تھا۔
ہم کرنال شہر کے محلہ آتش بازاں میں رہتے تھے۔ یہ مسلمانوں کا محلہ تھا ۔ ہندو بہت کم تھے ، کرنال ویسے بھی کوئی زیادہ بڑا شہر نہ تھا۔ جلسے جلوس ہوتے تھے چونکہ مسلمانوں اور ہندو سکھوں کے محلے الگ الگ تھے اس لئے کوئی بڑا تصادم نہ ہوا البتہ ہندو سکھوں نے مسلمانوں سے ازلی دشمنی خوب نبھائی ۔ کوئی مسلمان ہندوئوں کے محلے میں چلا جاتا تو اس کی لاش ہی پھر کسی گلی میں پڑی ملتی تھی۔ جب اس قسم کے کئی واقعات پیش آ گئے تو مسلمان محتاط ہو گئے اور اپنے ہی محلے تک محدود ہو کر رہ گئے۔ جس سے ماحول خاصا کشیدہ ہوگیا ۔ کرنال دلی سے قریب اور انبالہ ڈویژن میں تھا۔ دوسرے شہروں کی نسبت کرنال شہر میں قتل و غارت بہت کم ہوئی۔ جونہی قیام پاکستان کا اعلان ہوا تو ہندو سکھ کھل کر سامنے آ گئے ۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم امن سے پاکستان جائیں گے ۔ یہ خیال غلط ثابت ہوا ۔
مسلمان امن پسند تھے ان کے پاس ہتھیار بھی نہ تھے جس کا فائدہ ہندوئوں نے خوب اٹھایا۔ وہ مسلمان عورتوںکو اٹھا کر لے گئے۔ ان حالات میں کئی مسلمان عورتوں نے کنوئوں میں چھلانگیں لگا دیں۔ کئی ہزار گمشدہ خواتین کی ایف آئی آر درج ہوئیں ۔ ان کے لواحقین ابھی تک انہیں ڈھونڈ نہ سکے۔ انہی دنوں ہندوئوں نے شدی تحریک چلائی جس کے تحت مسلمانوں سے کہا گیا کہ ہندو ہو جائو یا پھر قتل۔ شہر میں اِکا دُکا قتل اور ارد گرد کے علاقوں سے جب خونریزی کے واقعات ہم تک پہنچنے لگے تو ہم نے بھی پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا ۔ چھ سات بسوں کا قافلہ کرنال سے گزررہا تھا جن کی نگرانی صرف تین مسلمان سپاہی کررہے تھے۔
بسوں کے اندر اور چھتوں پر بھی مسلمان سوار تھے۔ انہی بسوں میں ہم بھی سوار ہو گئے ۔ راستے میں جگہ جگہ سڑک کنارے مسلمانوں کے گوروکفن لاشیں تھیں۔ کھانے کوچنے اور گڑ اور تھوڑا سا پانی تھا جو گھونٹ گھونٹ پیتے رہے۔
18,17گھنٹے کے صبر آزما سفر کے بعد لاہور آئے تو ہم سے تھوڑی دیر قبل ہی ایک گاڑی وہاں آئی تھی جس میں لاشیں تھیں اور پانی کی طرح شہداء کا خون بہہ رہا تھا ۔یہ منظر دل دہلا دینے والا تھا۔ عاصی کرنالی مزید بتاتے ہیں کہ ہمارے لوگوں نے آزادی کے لیے قربانیاں دیں ، الگ ملک کا فیصلہ درست تھا کہ جو حالات ہو چکے تھے اُن کی بناء پر پاکستان ہی مسلمانوں کے پناہ گاہ تھی کہ سکھوں کے مظالم اتنے اذیت ناک تھے کہ ہم بیان نہیں کر سکتے ۔رضیہ بیگ کہتی ہیں کہ اس موقع پر عاصی کرنالی صاحب کی ہچکی بندھ گئی انہوں نے پھر بات کو دہرایا کہ سکھوں کے مظالم اتنے زیادہ ہیں کہ بتاتے ہوئے زبانیں لرز جاتی ہیں ، تلخ یادوں کے بہت اثرا ت ہیں شاید کئی نسلوں تک باقی رہیں گے ۔ پاکستان آئے تو مقامی لوگوں کے حسن سلوک نے ہمیں جینے اور زندہ رہنے کی اُمنگ دی۔

 

 

یہ بھی پڑھیں:

ذوالفقار علی بھٹو کا بیٹی کے نام خط ۔۔۔ظہور دھریجہ

سندھ پولیس کے ہاتھوں 5 افراد کی ہلاکت۔۔۔ظہور دھریجہ

ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ۔۔۔ظہور دھریجہ

میرشیرباز خان مزاری اور رئیس عدیم کی وفات ۔۔۔ظہور دھریجہ

ظہور دھریجہ کے مزید کالم پڑھیں

About The Author