مجاہد حسین خٹک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
دکھوں کے سانپ جب اپنی بانبیوں سے نکل کر وقت کی پگڈنڈیوں پر چلنے والے مسافر پر حملہ کرتے ہیں تو ان کا زہر دل کی خشک جھاڑیوں کو اپنی تپش سے سلگا دیتا ہے۔۔۔ خوشی کے سطحی اور مختصر العمر جذبے مڑ تڑ کر خاک کا رزق بن جاتے ہیں۔ ایسے پر اذیت لمحوں میں انسان چاہتا ہے کہ کوئی ایسا شانہ ملے جس پر سر رکھ کر اپنا کرب بیان کرے اور بہتے آنسوؤں کی دھار سے اس تپش کو کم کرے۔ لیکن ایسا کوئی انسان دنیا میں نہیں ہے۔ ہم سب ادھورے انسان اپنے اپنے دکھوں کی آگ میں اندر ہی اندر جھلستے رہتے ہیں اور ایک دن بھسم ہو جاتے ہیں۔
کوانٹم فزکس میں بتایا جاتا ہے کہ اگر دو انتہائی چھوٹے ذروں کو آپس میں جوڑ دیا جائے تو وہ ایک سے ہو جاتے ہیں۔ انہیں آپس میں جدا بھی کر دیا جائے تب بھی ایک ذرے میں ہونے والی حرکت دوسرے ذرے کو بھی متحرک کر دیتی ہے۔ چاہے ایک ذرے کو کائنات کے دوسرے حصے میں بھیج دیا جائے تب بھی جونہی ایک حرکت کرے گا تو دوسرا بھی لازمی متحرک ہو جائے گا۔ دونوں کے درمیان ایک ایسا پراسرار بندھن جنم لیتا ہے جو زمان و مکان کے فاصلوں کو روند کر اپنا وجود برقرار رکھتا ہے۔
کبھی کبھی میں سوچتا ہوں کہ تمام انسان اندر سے اس لیے ادھورے ہیں کہ ان سے جڑ کر الگ ہونے والا ہمزاد کائنات کی وسعتوں میں کہیں کھو گیا ہے۔ ان دونوں کا رشتہ زمان و مکان کے فاصلوں سے بالاتر ہے اور جب ایک کو دکھ ملتا ہے تو ٹیسیں دوسرا بھی محسوس کرتا ہے۔ اگر ایک بلکتا ہے تو دوسرا بھی تڑپنے لگتا ہے۔ آپس میں بچھڑی فقط یہ ذاتیں ہی اس قابل ہیں کہ ایک دوسرے کے دکھ اور محرومیاں سمجھ سکیں۔
یہ تمام عمر ایک دوسرے کی تلاش میں قدم قدم پر اپنے جیسے ادھورے انسانوں سے دھوکے کھاتے اور اپنے درد میں مزید اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ سعی لاحاصل کبھی عشق کی شکل میں نمودار ہوتی ہے تو کبھی دوستی کے پردے سے جھانک کر بلاتی اور پیاس کے وسیع صحرا میں تنہا چھوڑ دیتی ہے۔
سب انسان اپنی ادھوری ذات کا بوجھ اٹھائے پھرتے ہیں مگر من کا خلا ہے کہ کبھی ختم ہونے میں نہیں آتا۔ لیکن یہ سب بے وجہ تو نہیں ہے۔ وجود میں بکھری تنہائی، ذات میں پھیلا اداسی کا سمندر اور من میں موجود لاحاصلی کا احساس ایسے تو نہیں پیدا ہو گیا۔ کوئی تو ضرور ہے جو بچھڑ گیا ہے اور کسی متوازی کائنات میں وہ بھی اسی کرب، تنہائی اور لاحاصلی کے احساس میں جکڑا رہتا ہے۔
زمان و مکان کے گنبد میں مقید یہ متوازی کائناتیں ایک دوسرے سے ٹکراتی اور الجھتی رہتی ہیں مگر آفاقی زنجیریں ہیں کہ ٹوٹنے میں ہی نہیں آتیں۔ دونوں ایک غیر مرئی اور بسیط صحرا میں آوارہ بگولے کی طرح ابھرتی اور گرتی پڑتی رہتی ہیں مگر گنبد کے سخت خول کو توڑ نہیں پاتیں۔
دونوں ہمزاد جدائی کے جنگلوں میں سر پر مرجھائی کلیاں اوڑھے روتے پھرتے ہیں، دکھوں کے سانپ انہیں ڈستے رہتے ہیں، محرومیوں کے بچھو انہیں کاٹتے رہتے ہیں مگر لاحاصلی کا یہ سفر تمام نہیں ہوتا۔
زندگی سے مشروط اس سفر کی حقیقت کی جھلکیاں شاید انہیں دکھائی دینے لگتی ہیں جنہیں دنیا شیزوفرینیا کے مریض سمجھ کر ٹھٹھا اڑاتی ہے، کیا پتا کہ انہوں نے آفاق کی سرحدوں سے دور کسی اور سرزمین پر چاک گریباں ہمزاد کو دیکھ لیا ہو؟ یہ لوگ ایسے ہی تو موت کی طرف نہیں لپکتے؟ چھت پر لٹکی الگنی کو اپنے گلے کا ہار بنا کر جھول جاتے ہیں تو ان کی بے نور ہوتی آنکھیں شاید کہیں دور پرے اپنے ہمزاد کو دیکھ رہی ہوتی ہیں۔
جب ذات کے اندر بھی خلا ہو اور کائنات کی وسعتوں میں بھی بے کراں خلا بکھرا ہوا تو پھر اسقدر گھپ اندھیرے میں زندگی کے معنی کہاں سے تلاش کیے جائیں؟ کیا یہ بہتر نہیں کہ مر جائیں؟
(گزشتہ برس کی تحریر)
یہ بھی پڑھیے:
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر