دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ہمارے تکبر کی پُھوک ||گلزار احمد

ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮯ ﮔﺎ ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮬﮯ ۔ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺩ ﭘﻠﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ۔ معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں دنیا کی تمام اعلی قدروں کو فروغ دینا ہوگا۔

گلزاراحمد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے دوست اور طلباء اکثر مجھ سے سوال کرتے ہیں کہ دنیا میں ترقی کرنے یا آگے بڑھنے کا آسان فارمولا کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ہم نے بچپن میں اللہ دین کے چراغ کی کہانیاں سن رکھی ہوتی ہیں یا یہ کہ ایک سلطنت کا بادشاہ مر گیا تو لوگوں نے کہا صبح سویرے جو پہلا شخص ان کی سلطنت میں داخل ہو گا اسے بادشاہ بنا دیا جاۓ گا۔اور تصور میں ہم خود کو وہی پہلا شخص بنا لیتے ہیں۔ تو میرے دوستو یہ سب کہانیاں بچوں کو خوش کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔ زندگی کا راستہ ایک جلیبی کی طرح ٹیڑھا میڑھا ہے جس کو طے کرنے کے لیے جذبے passion ..محنت اور صبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب میں گاوں میں رہتا تھا تو تربیت کی کمی کی وجہ سے ہم لڑکوں میں ایک خاص قسم کی نخوت تھی جسے آپ سرائیکی میں ۔سکھڑیں غیرت اور بے وقوفی۔ کہ سکتے ہیں۔اگر کوئی لڑکا پانچ چھ کلاسیں پڑھ لیتا تو ماں کو کہتا میں کل گاے کا گھاس کاٹنے نہیں جاونگا مجھے شرم آتی ہے۔ایک لڑکے نے چھٹی پاس کی تو گھر آکے اعلان کیا میری پڑھائی مکمل ہو گئی جب پوچھا تو کہا ابا نے پانچ پڑھی ہیں میں چھ سے آگے کیوں جاوں۔ایک دفعہ جب میں رپورٹر تھا تو ائیر فورس میں پائلٹ بھرتی کی ایک ٹیم ایک دور دراز کے گاوں گئی تو میں بھی ساتھ چلا گیا۔ یہ ٹسٹ وہاں کے سکول میں ہوا۔ اب فوج میں افسر بھرتی کرنے کے لیے شروع میں کچھ intellegence اور میڈیکل کے ٹسٹ ہوتے ہیں جن میں لڑکے یا اگلے مرحلے جاتے ہیں یا ڈراپ ہو جاتے ہیں۔جب یہ تمام ٹسٹ مکمل ہو جائیں تو پھر مزید آگے کے کچھ مراحل طے کرنے پڑتے ہیں ۔اس روز جس لڑکے کو منتخب کیا گیا اس نے اگلے مرحلے جانے سے صاف انکار کر دیا۔ میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا چونکہ ہم دو دوست یہاں ٹسٹ دینے آے تھے اور دوسرا ڈراپ ہو گیا اس لیے میں بھی نہیں جاتا یا ہم دونوں کو بھرتی کریں!!! یہ تھی ہماری سوچ کی پرواز۔
میری خوش قسمتی تھی کہ میں اس ماحول سے لاھور چلا گیا اتفاق سے جن لوگوں میں وہاں رہا ان درویشوں نے میرے سارے کس بل نکال دیے۔ اور مجھے بندے دا پتر بنا دیا۔ ایک درویش کسی کھلی جگہ سے گزر رہا تھا جہاں لڑکے فٹ بال کھیل رہے تھے۔ ایک مجذوب ساتھ تھا درویش سے پوچھا اس فٹبال نے کیا قصور کیا ہے جو سب اسے پیروں سے پیٹ رہے ہیں۔ درویش نے لڑکوں سے فٹ بال منگوائی اور اس کی ہوا نکال دی۔سب لڑکے فٹبال لے کر گھروں کو چلے گیے۔درویش نے مجذوب کو بتایا یہ فٹبال کے اندر کی پھوک تھی جو اس فٹبال کو ٹھوکریں کھانے پر مجبور کر رہی تھی۔ اسی طرح انسان کے اندر ایک پھوک تکبر اور غرور کی شکل میں ہوتی ہے اگر وہ نکل جاۓ تو آدمی کندن بن جاتا ہے۔ہمارے جوان دس بارہ کلاس نقل کر کے پاس کر لیں تو ان میں فٹ بال کی طرح پھوک بھر جاتی ہے اور اپنے آپ کو فلاسفر سمجھنے لگتے ہیں۔ڈیرہ شھر پارٹیشن سے پہلے تعلیم و تجارت کا مرکز تھا۔ یہاں بڑے سیاستدان۔جج۔بیوروکریٹ۔جنرل۔وکلاء۔پروفیسر پیدا ہوۓ جنہوں نے پوری دنیا میں نام کمایا۔ایک انگریز ڈپٹی کمشنر نے لکھا۔
D I Khan is intellectual capital of NWFP.
پارٹیشن کے بعد ڈیرہ کی اقتصادی حالت بری طرح متاثر ہوئی اور تعلیمی معیار بھی گر گیا۔تربیت کے لیے تعلیم اور اچھے ماحول کا ہونا ضروری ہے ۔گاوں میں میری تربیت جسمانی طور پر ایک ٹف ماحول میں ہوئی جو بعد میں شھروں میں بہت کام آئی لیکن تعلیم۔صحت۔ اور ایٹیکیٹس کی تربیت لاھور میں بہتر ہوئی کیونکہ میں formative age یعنی چھوٹی عمر جب سیکھنے کا عمل عروج پر ہوتا ہے وہاں چلا گیا۔ لاہور اس وقت کالجوں سکولوں اور تہزیب کا گہوارہ تھا۔ اگر آج آپ باہر کے ملکوں کی تعلیم کا مطالعہ کریں تو وہاں بچوں کی تربیت کو اولیت دی جا رہی ہے جبکہ ہم پاکستان میں بچے کو رٹو طوطا بناتے چلے جا رہے ہیں۔ ایک ہفتہ پہلے ہماری بکرید اور حج گزری۔ سارے پاکستان کے ٹی وی چینلز اور گھروں میں بکروں اور بیلوں کا تذکرہ ہوتا رہا لڑکیاں بیلوں کے ساتھ ناچ ناچ کے بیل فروخت کرتیں رہی۔بیلوں کی قیمت کروڑوں تک بتائی گئ۔ حالانکہ مکہ میں قربانی کے لیلے کی سرکاری قیمت دس دس سال ایک رہتی ہے ۔ ہم اصل میسیج جس کی طرف علامہ اقبال نے بھی توجہ دلائی نہیں سنتے۔؎ یہ فیضان نظر تھا یا مکتب کی کرامت تھی۔۔سکھاے کس نے اسمعیلؑ کو آداب فرزندی۔۔آئیے آپ کو جاپان کے بچوں کی تعلیم کی کچھ جھلکیاں دکھاتا ہوں شاید آپ کے کام آئیں۔ﺟﺎﭘﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﮐﻼﺱ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭘﻨﺠﻢ ﮐﻼﺱ ﺗﮏ ﺍﯾﮏ ﻣﻀﻤﻮﻥ "ﺍﯾﭩﯿﮑﯿﭩﺲ” ﮐﮯﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﮍﮬﺎﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﺱ ﭘﯿﺮﯾﮉ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮧ ﺍﺧﻼﻕ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﺳﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﯿﺶ ﺁﻧﺎ ﮬﮯ؟ ﯾﮧ ﺳﯿﮑﮭﺘﺎ ﮬﮯ ۔ﭘﮩﻠﯽ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﮉﻝ ﯾﻌﻨﯽ ﺁﭨﮭﻮﯾﮟ ﺗﮏ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﮐﮩﯿﮟ ﻓﯿﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎﺟﺎﺗﺎ ۔ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﺎ ﻣﻘﺼﺪ ﺗﺮﺑﯿﺖ ،ﻣﻌﻨﯽ ﻭ ﻣﻔﮩﻮﻡ ﺳﮑﮭﺎﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺷﺨﺼﯿﺖ ﮨﻮﺗﺎ ﮬﮯ۔ ﺻﺮﻑ ﺭﭨﻨﺎ ﺭﭨﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ۔ﺟﺎﭘﺎﻧﯽ ﺍﮔﺮﭼﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺮ ﺗﺮﯾﻦ ﻗﻮﻣﻮﮞ ﻤﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻥ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﺩﻡ ﺍﻭﺭ ﺁﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ۔ ﺑﺎﭖ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﮞ ﮨﯽ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺩﯾﮑﮫ ﺑﮭﺎﻝ ﺍﻭﺭ ﺍﻭﻻﺩ ﮐﯽ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﻭ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﮐﮯ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺟﺎﭘﺎﻧﯽ ﺑﭽﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺍﺳﺎﺗﺬﮦ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﻣﻞ ﮐﺮ ﺭﻭﺯﺍﻧﮧ ۱۵ ﻣﻨﭧ ﺗﮏ ﺍﭘﻨﺎ ﻣﺪﺭﺳﮧ ﺻﺎﻑ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﻧﺘﯿﺠﮧ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﭘﻮﺭﯼ ﻗﻮﻡ ﻋﺠﺰ ﻭ ﺍﻧﮑﺴﺎﺭ ﮐﺎ ﭘﯿﮑﺮ ﺍﻭﺭ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﺳﺘﮭﺮﺍﺋﯽ ﮐﯽ ﺷﯿﺪﺍﺋﯽ ﮨﮯ ۔ﺟﺎﭘﺎﻧﯽ ﺍﺳﮑﻮﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﭽﮯ ﺍﭘﻨﺎ ﭨﻮﺗﮫ ﺑﺮﺵ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﻣﺪﺭﺳﮧ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ۔ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﻋﻤﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺣﻔﻈﺎﻥ ﺻﺤﺖ ﮐﯽ ﺗﻌﻠﯿﻢ ﺍﻭﺭ ﺗﺮﺑﯿﺖ ﻣﻠﺘﯽ ﭼﻠﯽ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ ۔ﺭﯾﺴﭩﻮﺭﻧﭧ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺩﯾﮑﮭﯿﮟ ﮨﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻟﮯ ﮔﺎ ﺟﺲ ﻗﺪﺭ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮬﮯ ۔ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺩ ﭘﻠﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﭼﮭﻮﮌﺗﺎ۔ معاشرے کو بہتر بنانے کے لیے ہمیں دنیا کی تمام اعلی قدروں کو فروغ دینا ہوگا۔

About The Author