ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ روز پورے ملک میں یوم آزادی جوش و خروش سے منایا گیا ۔ قوم کو یوم آزادی مبارک ہو۔ زندہ قومیں اپنے قومی تہوار جوش و خروش کے ساتھ مناتی ہیں ۔ اچھی بات ہے کہ یومِ آزادی کے حوالے سے ذرائع ابلاغ کے ساتھ ساتھ لوگوں میں بھی جوش و خروش دیکھنے میں آ رہا ہے۔ پاکستان کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ وسیب میں بھی یومِ آزادی کے حوالے سے جوش و خروش پایا جاتا ہے ۔
یوم آزادی صرف گانے بجانے یا نوجوانوں کی طرف سے موٹر سائیکل کے سائلنسرز نکال کر سڑکوں پر ہڑبونگ کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ تجدید عہد کا دن ہے اور تحریک کے مقاصد پر غور کے ساتھ اس بات پر غور کی ضرورت ہوتی ہے کہ ریاست کے تمام معاملات کیسے چل رہے ہیں ؟ اور یہ کہ کوئی محروم تو نہیں رہ گیا ،کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں ہوئی ؟
اس کے ساتھ خدمات کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے ؟ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ تحریک آزادی سے لیکر قیامِ پاکستان اور بعد ازاں استحکام پاکستان کیلئے وسیب کی خدمات اہمیت کی حامل ہیں ۔ وسیب کے دوسرے علاقوں کے ساتھ ساتھ سابق ریاست بہاولپور نے پاکستان کیلئے دامے ، درمے ، قدمے، سخنے ساتھ دیکر قربانی و ایثار کی نئی تاریخ رقم کی۔
یہ بھی عرض کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کیلئے ریاست بہاولپور کی خدمات یہاں کی عوام کی طرف سے تھیں کہ کسی بھی ملک کا فرمانروا محض امین ہوتا ہے، اصل مالک عوام ہوتے ہیں۔ مہاجر بھائیوں کی اولادیں جو یہاں پیدا ہوئیں وہ اس دھرتی کے بیٹے ہیں ، ان کو تشکرانہ طرز و فکر اختیار کرکے وسیب کا حصہ بننا چاہئے۔
حکمرانوں کی بے توجہی کے باعث آج پاکستان کے عوام کی حالت دیکھئے، وہ صرف وسائل سے محروم ہیں۔ ان کی زبان ، تہذیب و ثقافت بھی خطرات کا شکار ہے۔ جب یوم آزادی کے موقع پر ریڈیو ، ٹی وی پر ملی نغمے ’’ تو بھی پاکستان ہے ، میں بھی پاکستان ہوں۔ یہ تیرا پاکستان ہے، یہ میرا پاکستان ہے ‘‘ سنتا ہے تو منہ میں انگلی ڈال کر سوچوں میں گم ہو جاتا ہے کہ کیا واقعی ایسا ہے؟
یوم آزادی کا پیغام یہ ہے کہ وسائل اور مسائل کی برابر تقسیم اور تمام علاقوں کے ساتھ مساویانہ سلوک ہو۔ تاکہ وہ بھی ملی نغمے ’’ تو بھی پاکستان ہے ، میں بھی پاکستان ہوں ‘‘ کی گنگناہٹ میں شریک ہوں ۔ تاریخی حوالے سے بات کروں گا کہ 29 مارچ 1929ء کو قائد اعظم کی صدارت میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس دہلی میں ہوا ، اس موقع پر قائد اعظم نے چودہ نکات پیش کیے ، جس میں کہا گیا کہ آئین وفاقی ہو ، صوبوں کو مکمل خودمختاری حاصل ہو ، اقلیتوں کو موثر نمائندگی دی جائے ۔ سندھ کو بمبئی سے علیحدہ کر کے جداگانہ صوبے کی حیثیت دی جائے ۔
دستور میں اس وقت تک کوئی تبدیلی یا ترمیم نہ کی جائے جبکہ وفاق میں شامل تمام صوبے اور ریاستیں اس ترمیم یا تبدیلی کی منظوری نہ دیں ۔ چودہ نکات میں مسلمانوں کو بشرط قابلیت سرکاری اور خود مختار اداروں میں ملازمتیں دینے کا مطالبہ شامل تھا ۔ چودہ نکات کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں کہا گیا کہ ہندوستان کی تمام قوموں کو مکمل آزادی ، آزدی ضمیر ، آزادی ثقافت اور آزادی اجتماع کی ضمانت دینے کی بات کی گئی ۔
اس وقت مسلم لیگ اور کانگریس مشترکہ طور پر آزادی کے لئے جدوجہد کر رہی تھیں ، بعد میں حالات تبدیل ہوئے ، کانگریس اور مسلم لیگ کے راستے الگ ہو گئے اور پاکستان وجود میں آ گیا ۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر