ملک سراج احمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر شب گویا شب ہجراں ہوئی اور ہر دن گویا قیامت خیز گزر رہا ہے۔ یوں سمجھیں کہ چین ایک پل نہیں اور اس بے چینی کا کوئی حل بھی نہیں ہے۔ جی ایسا اچاٹ ہوا ہے اس دیار سے کہ کچھ مت پوچھیے دل تو یہی چاہ رہا ہے کہ کہیں سے بغداد کے حسن کوزہ گر کو تلاش کر کے لے آوں اور اس کو لے کر کسی اجاڑ ویرانے میں لگے بوڑھے برگد کے نیچے بیٹھ جاؤں اور دو زانوں ہو کر دست بستہ حسن کوزہ گر سے کہوں کہ حسن اپنی جہاں زاد کے قصے سناو اور اس وقت تک سناو جب تک یہ شب ہجراں ہے۔ حسن سے کہوں کہ قصہ جاری رکھو پر آشوب دن میں بھی اپنی جہاں زاد کا قصہ جاری رکھو اور وہ واقعہ بھی سناو کہ جب دن کے اجالے میں بھی تم کو آئینے میں جہاں زاد تو کیا اپنا چہرہ بھی نظر آنا بند ہو گیا۔ حسن کوزہ گر سے کہوں کہ کیوں پریشان ہو گر جہاں زاد تمہارے تذبذب اور تمہاری دو رنگی پر ہسن دی
حسن کوزہ گر سے کہوں کہ دیکھو ہماری دو رنگی پر تو دنیا ہنس رہی ہے۔ ہمارے تذبذب پر اپنے اور پرائے حیران و پریشان ہیں۔ ہم جو کرنے آئے تھے وہ ہم سے ہو نہیں رہا۔ نا تو ہم سے 90 دن میں صوبہ بن سکا نا ہی تین سال میں 50 لاکھ گھر بن سکے۔ اور نا ہی پانچ سال مکمل ہونے پر ہم ایک کروڑ بے روزگاروں کو روزگار دینے کے قابل ہوں گے۔ قابل تو ہم اتنے بھی نہیں ہو سکے کہ ہمارے ہمسائے سے متعلق دنیا کی اقوام جمع ہوئیں اور ان مسائل کے حل کرنے پر غور و فکر کیا۔
ہم اپنے دیوار شریک ہمسائے کے مسائل کو حل کرنے کے قابل بھی نہیں سمجھے گئے۔ نا ہی اس سے متعلق کسی نے ہمیں کوئی خط پتر لکھا اور نا ہی فون کرنا گوارا نہیں کیا۔ حسن کوزہ گر سنو ہم ایک ہی راہ کے مسافر ہیں ہمارے دکھ درد سانجھے ہیں تم جہاں زاد کے ہنسنے پر پریشان نا ہو ہمیں دیکھو ہم پر پورا جہان ہنس رہا ہے مگر ہمیں کوئی پروا نہیں ہے تو تم کیوں فکر کرتے ہو۔
حسن کوزہ گر ہماری کم مائیگی اور بے بسی پر اب تم ہنسو زیادہ نہیں تو زیرلب ہی مسکرا دو کہ نا تو برسر اقتدار طبقے کو ہماری فکر ہے اور نا ہی اپوزیشن کو ہماری کوئی پرواہ ہے۔ حسن کوزہ گر اپنی جہاں زاد کے قصے کے بعد میری درد بھری داستان بھی سن لو کہ سات دہائیاں قبل ہم غیروں کی غلامی سے اپنوں کے عقوبت خانوں میں پہنچے۔ تم نے وہ مثل تو سنی ہوئی ہے نا کہ اپنا مارے گا تو چھاوں میں پھینکے گا بس یہی ہمارے مقدر میں بہتری ہوئی کہ ہمیں چھاوں میسر آ گئی ہم زندہ لاشوں کو دھوپ میں پھینک کر بے حرمتی نہیں کی گئی۔ حسن یہ بھی سنو کہ ان سات دہائیوں میں سے آدھا وقت ہمارے محافظ ہم پر مسلط رہے اور باقی کا آدھا وقت وہ ہمیں ہدایات دیتے رہے۔ اپنی مرضی سے تو ہم نا کوئی گناہ کرسکے اور نا ہی کوئی ثواب کمایا۔ خدا جانے روز محشر حساب کس عمل کا دیں گے۔
حسن کوزہ گر تم افلاس کے روندے ہوئے اپنے اجداد کو یاد کر کے رنجیدہ ہو مجھے دیکھو میں آنے والے وقت میں اپنی نسلوں کو اسی کرب میں زندگی گزارتے دیکھ رہا ہوں۔ اس سے بڑا ستم اور المیہ میرے لیے اور کیا ہوگا کہ میرا مستقبل میرے حال سے الگ نہیں ہے۔ جو آج ہے وہ کل بھی ہوگا کچھ نہیں بدلے گا کچھ نیا نہیں ہوگا۔ وہی بے چارگی ہوگی وہی بے بسی ہوگی وہی بولنے پر تعزیریں اور ہر عمل پر سزائیں۔ آج کی طرح کل بھی لوگ قابل علاج بیماریوں کے باوجود سسک سسک کر مر رہے ہوں گے۔
غربت کا عالم یہی ہوگا بے روز گاری میرے نوجوانوں کے چہروں سے خوشی چھین لے گی۔ کوئی ستاروں پر کمند نہیں ڈالے گا بلکہ ہر کوئی اپنی جہاں زاد کو اپنی مجبوریوں کی داستان سنا رہا ہوگا۔ بس حسن یوں سمجھو کہ ہم محض اس لیے زندہ ہیں کہ ایک دن مر جانا ہے۔ اس جہاں کی ایک رسم ہے جس کو پورا کرنے کے لیے ہم جیسے لوگ دنیا میں آتے ہیں۔ پس اسی طرح روایتوں کو نبھائیں گے جیسے میرے اسلاف، جیسے تمہارے اجداد نے نبھائیں۔ ہر رسم کو خندہ پیشانی سے منائیں گے
ویسے بھی ان دنوں رسم چلی ہے کہ کوئی نا سر اٹھا کے چلے سو سر جھکائے ہوئے چل رہے ہیں اس راہ پر جو ہمارا انتخاب نہیں ہے اس منزل کی جانب جہاں پڑاو کی خواہش کسی اور کی ہے۔ حسن کوزہ گر تمہارا تو بغداد ایک بار اجڑا ہے ہماری بدنصیبی دیکھو کہ ہمارے ارمانوں کا بغداد آئے روز تاراج ہوتا ہے۔ ہماری فصیلیں روز گرائی جاتی ہیں۔ ہمارے خوابوں کے محلات کو روز نذر آتش کیا جاتا ہے۔ ہماری خواہشوں کے سر کاٹ کر ان کے مینار بنائے جاتے ہیں۔ حالات کے نیزے کی انی ہمہ وقت ہمارے سینے میں گڑی ہوئی ہے
حسن کوزہ گر سنا تم نے کہ اس سب کے باوجود مجھے کہا جاتا ہے کہ میں آزاد ہوں مجھے بولنے کی آزادی ہے۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں اپنے مندر اپنی مسجد میں مرضی سے جاسکتا ہوں اور اپنے من پسند خدا کے سامنے ہاتھ باندھ کر یا سجدہ ریز ہو کر اپنے دل کی حاجتیں بیان کر سکتا ہوں۔ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں ایک آزاد انسان ہوں لہذا مجھے اپنی آزادی پر خوشی منانی چاہیے۔ حکم حاکم کے مطابق میں ہر سال اپنی آزادی کی خوشی مناتا ہوں کہ اس کے سوا چارہ نہیں۔
مگر مجھے مستقبل کے اندیشے ناگ بن کر ڈسے جا رہے ہیں۔ اپنی آنے والی نسلوں کی فکر کھائے جا رہی ہے۔ وسوسوں اور ان دیکھے اندیشوں نے مجھے گھیر رکھا ہے میں ان وسوسوں سے کیسے نجات پاؤں میں ان اندیشوں کی گرفت سے کیسے نکلوں۔ حسن کوزہ گر تم نے تو دنیا دیکھی ہے اب تم ہی بتاو کیا میں آزاد ہوں؟ مجھے لگتا ہے کہ میں ان الجھنوں اسیر ہوں اب ان الجھنوں سے رہائی پاؤں تو اپنی آزادی کا دن مناؤں۔
براے رابطہ 03334429707
وٹس ایپ 03352644777
یہ بھی پڑھیے:
ڈانسنگ ایلیفینٹ ۔۔۔ ملک سراج احمد
وہ لڑکی لال قلندر تھی ۔۔۔ملک سراج احمد
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو ۔۔۔ ملک سراج احمد
بے نظیر بھٹو کی پکار: الوداع پاپا ۔۔۔ملک سراج احمد
عوام کے حق حاکمیت کی فیصلہ کن جنگ۔۔۔ ملک سراج احمد
حضرت خواجہ غلام فرید ؒ – پیلوں پکیاں نی وے، آ چنوں رل یار ۔۔۔ ملک سراج احمد
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ