محمد عامر خاکوانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افغانستان میں طالبان نے پچھلے دس دنوں میں جو غیر معمولی کامیابیاں حاصل کی ہیں، اس سے تجزیہ نگار دنگ رہ گئے ہیں۔ تازہ ترین امریکی انٹیلی جنس اندازوں کے مطابق صرف تیس دن یعنی ایک ماہ میں طالبان کابل کو ملک بھر سے کاٹ کر محصور کر لیں گے اور تین ماہ میں وہ کابل فتح کر سکتے ہیں۔ افغان فوج نے عمومی طو رپر بڑی بزدلی، کم ہمتی، پست حوصلگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
طالبان سے تعداد میں کئی گنازیادہ ہونے اور جدیدترین بھاری ہتھیاروں سے لیس ہونے کے باوجود انہوں نے لڑنے اور جاں کی بازی لگانے سے گریز کیا۔ کئی جگہوں پر فوجی دستوں نے لڑے بغیر ہی ہتھیار ڈال دئیے۔ ایک معروف عسکری اصول ہے کہ جیتنے کے لئے حملہ آور فوج کو دفاع کرنے والی فوج سے تین گنازیادہ ہونا چاہیے ۔
تب وہ انہیں بلڈوز کر کے پیچھے دھکیلنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔ افغان فوج کی تعداد ڈھائی سے تین لاکھ بتائی جاتی ہے۔ افغان طالبان بمشکل ایک لاکھ ہوں گے۔اپنی کم تعداد کے باوجود وہ جیت رہے ہیں اور رفتار بھی بہت تیز ہے۔ طالبان کو کامیابیاں کیسے ملیں؟ اصل وجہ یہ ہے کہ افغان فوج کا مورال بہت پست ہے، فوجی لڑنا ہی نہیں چاہتے ۔
اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اشرف غنی کی افغان حکومت اپنی نااہلی، کرپشن اور بدترین گورننس کی وجہ سے عوام اور افغان فوج میں مقبولیت نہیں رکھتی۔ طالبان مخالف افغان لیڈروں، سفارت کاروں اور سابق جرنیلوں کا کہنا ہے کہ افغان فوج اشرف غنی کے لئے مرنے کو تیار نہیں۔ وہ ایک کمزور، نااہل، خوابوں خیالوں کی دنیا میں رہنے والے شخص کے لئے کیوں اپنی زندگی لٹائیں؟
دوسرا فیکٹر یہ ہے کہ طالبان نے امریکہ کو شکست دی ، انہیں افغانستان سے واپس جانے پر مجبور کیا۔ اس اعتبار سے عوام اور حکومتی عہدے داران بھی طالبان کو ایک فاتح کے طور پر دیکھتے ہیں۔انہیں اندازہ ہے کہ آخر کار طالبان ہی نے افغانستان کا اقتدار سنبھالنا ہے۔ جیتے ہوئے فریق سے کوئی بھی دل سے نہیں لڑتا۔ ایک اور فیکٹر یہ ہے کہ پچھلی بار طالبان کے ساتھ لڑنے والے ازبک، تاجک کمانڈروں کو حکومت کرنے کا موقعہ نہیں ملا تھا، ان کے حامیوں کو ان سے حسن ظن تھا۔ اب صورتحال بالکل مختلف ہے۔ تاجک، ازبک، ہزار اور طالبان مخالف پشتون لیڈر بیس سال اقتدار کے مزے لوٹتے رہے اور اربوں پتی بنے جبکہ عوام کی حالت تباہ حال ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ طالبان مخالف جنگجو سرداروں کو اس بار پہلے جیسی حمایت نہیں مل رہی۔طالبان نے شمال میں خاموشی سے بہت کام کیا ہے۔
ازبک، تاجک اور کچھ ہزارہ بھی طالبان جنگجوئوں کے ساتھ پچھلے چند برسوں میں شامل ہوئے بلکہ طالبان نے انہیں اپنے تنظیمی سٹرکچر میں اہم ذمہ داریاں دیں۔ افغان حکومت سمجھ ہی نہیں پائی کہ طالبان نے شمال میں نقب لگا لی ہے اور وقت آنے پر وہ یہاں سرپرائز دیں گے۔ طالبان کا بڑا کارنامہ افغانستان میںاثر رکھنے والے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات قائم کرنا ہے۔طالبان دور حکومت میں ایران ان کا شدید مخالف رہا۔ اب طالبان اور ایران میں کئی برسوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔
ایران کے علاوہ روس، چین، ازبکستان، تاجکستان، ترکمانستان وغیرہ کے ساتھ طالبان کے تعلقات بہتر ہیں، ان میں سے کسی ملک نے طالبان کی مخالفت نہیں کی ۔ امریکی انٹیلی جنس اور افغان انٹیلی جنس لگتا ہے ان فیکٹرز پر غور نہیں کر سکی۔ ان کی تمام تر توجہ پاکستان پر دبائو ڈالنے پر مرکوز رہی، جس کا بھاری نقصان اب اٹھانا پڑ رہا ہے۔ بہترین جنگی حکمت عملی طالبان کی بہت عمدہ ، جامع اور جارحانہ جنگی حکمت عملی نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔
انہوں نے بیک وقت کئی محاذ کھولے اور ملک کے شمال ، جنوب، مشرق اور مغرب میں حملے کر کے افغان فوج کے فوکس کو منتشر کیا ۔ انہوں نے تیزی کے ساتھ اہم سڑکوں پر قبضہ کیا، سپلائی لائن کاٹ دی اور غیر معمولی سرعت کے ساتھ افغانستان کے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ تجارتی روٹس پر کنٹرول سنبھالا اور سرحدوں پر اپنے دستے تعینات کر دئیے تاکہ باہر سے افغان حکومت کو فوجی مدد نہ مل سکے۔ یہ بہت ہی اعلیٰ حکمت عملی تھی، اس نے افغان حکومت کی آپشنز محدود کر دیں اور بھارت جیسے ملک کو بے بسی سے تلملانے پر مجبور کر دیا۔امریکی ماہرین نے افغان فوج کی ٹریننگ پر بہت پیسہ اور وقت خرچ کیا، مگر چونکہ بھرتی کا عمل شفاف نہیں تھا، فوج میں پروفیشنل ازم پیدا نہیں کیا جا سکتا، لوگ صرف تنخواہ کی خاطر نوکر ہوئے، اس لئے مشکل وقت میں وہ بھاگ نکلے ۔
البتہ افغان سپیشل ملٹری دستے اچھے ٹرینڈ ہیں، وہ مزاحمت کر رہے ہیں، مگر ان کی تعداد بہت زیادہ نہیں۔ پھر انہیں مختلف جگہوں پر لڑنا پڑ رہا ہے۔ ہلمند کے شہرلشکرگاہ، قندھار، ہرات اور کسی حد تک مزار شریف میں یہ سپیشل دستے الجھے ہوئے ہیں۔ طالبان نے انہیں ہوشیاری سے پھیلا کر منتشر اور کمزور کر دیا ہے۔ تخار اوردیگر شمالی صوبوں میں فتح شمالی افغانستان میں نو صوبے ہیں۔ شمال مشرق میں بدخشاں، بغلان، قندوز اور تخار ہیں۔ ان چاروں صوبوں کے دارالحکومت پر قبضہ ہوچکا ہے۔
بدخشان کا دارالحکومت فیض آباد دو دن پہلے فتح ہوا، بغلان کا دارالحکومت پل خمری ، قندوز کا دارالحکومت قندوز اور تخار کے دارالحکومت تعلقان پر بھی طالبان کا کنٹرول مکمل ہوچکا ہے۔ ان صوبوں کے بیشتر اضلاع بھی طالبان کے کنٹرول میں ہیں۔ تخار پر طالبان کا قبضہ اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ ماضی میں احمد شاہ مسعود کے تاجک جنگجوئوںاور شمالی اتحاد کے اہم کمانڈروں کا مرکز رہا۔ ۔ تخار صوبے کا ضلع فرخان احمد شاہ مسعود کا بیک کیمپ تھا، یہ ننانوے فیصد تاجک آبادی والا شہر ہے۔
تخار کے دارالحکومت تعلقان کے ہوائی اڈے پر مسعود اور شمالی اتحاد کے جنگجوئوں کے لئے تاجکستان سے بھارتی فراہم کردہ اسلحہ اور دیگر سامان آتا تھا۔ تعلقان میںآج کل بعض اہم طالبان مخالف کمانڈر موجود تھے، جن میں مطلب بیگ کا بیٹا عبداللہ بیگ سرفہرست ہے، اسے پسپا ہو کر بھاگنا پڑا۔ عبداللہ بیگ کا بھائی عبدالمتین بیگ دوحہ میں طالبان کے ساتھ مذاکرات میں شامل رہا ہے۔
تخار صوبہ کی ایک اور خاص بات ہے کہ یہاں سے ہزاروں لوگ افغان فوج میں گئے ہیں۔ تخار پر طالبان کے کنٹرول سے ان تمام فوجیوں اور افسروں کے اہل خانہ طالبان کے زیراثر آ جائیں گے۔ قوی امکانات ہیں کہ ان فوجیوں کا بیشتر حصہ اب مختلف بہانوں سے فوج چھوڑ کر نکل آئے گا۔ تخار کی ایک اور اہمیت یہ ہے کہ اس پر قبضے سے احمد شاہ مسعود کا آبائی علاقہ پنجشیر محصور ہوجائے گا۔ پنجشیر سے نکلنے کا دوسرا راستہ طالبان نے پہلے ہی بدخشاں پر قبضہ کر کے بند کر دیا ہے۔ یوں اب پنجشیری تاجکوں عملی طور پر محصور ہوچکے ہیں۔ یہ وہ کام ہے جوطالبان اپنے پچھلے دور حکومت میں بھی نہیں کر پائے تھے۔
شمال مغربی افغانستان میں پانچ صوبے ہیں ، بلخ ، فاریاب، جوزجان، سمنگان اور سرے پل۔ طالبان نے ان میں سے تین صوبوں پر مع صوبائی دارلحکومت قبضہ کر لیا ہے۔ جوزجان کا دارالحکومت شبرغان (یہ رشید دوستم کا آبائی شہر ہے)، سمنگان کا دارالحکومت ایبک شہر، سرے پل کا اسی نام کامرکزی شہرقبضے میں آگیا۔ بلخ صوبے کے بیشتر اضلاع پر طالبان کا کنٹرول ہے اور مرکزی شہر مزار شریف کا محاصرہ کر رکھا ہے۔
فاریاب جو ترکمانستان کی سرحد سے ملتا ہے، اس کے بھی کئی اضلاع پر کنٹرول کر لیاگیا ہے۔ یوں شمالی افغانستان پر طالبان کا نوے سے پچانوے فیصد قبضہ مکمل ہوچکا ہے۔ یہ بہت اہم بات ہے کیونکہ طالبان مخالف افغان لیڈر اور کمانڈروں کے لئے ماضی میں بھاگنے اور چھپنے کا ٹھکانہ صرف شمال میں تھا۔
طالبان نے جنوب مغربی صوبہ نمروز پر بھی قبضہ کر لیا ہے، ہلمند اور قندھار میں ان کی گرفت مضبوط ہوگئی ہے اور اگلے چند دنوں میں ان کے مرکزی شہر لشکر گاہ اور قندھار سرنڈر کر سکتے ہیں۔ مغری افغانستان کے شہر فارح پر قبضہ کر لیا گیا جبکہ بدغیس پر بھی تقریباً کنٹرول ہے۔ ہرات میں شدید جنگ جاری ہے۔جنوبی افغانستان کے اہم صوبہ غزنی پر کنٹرول ہوچکا جبکہ خوست، پکتیکا اور پکتیا پر ابھی دانستہ زیادہ دبائو نہیں ڈالا جا رہا۔ مغربی افغانستان اور جنوب مغربی افغانستان کے ہزار ہ آبادی والے صوبوں دایاکندی،غور ، اورزگان اور سنٹرل افغانستان کے بامیان صوبے پر بھی طالبان شدید دبائو نہیں ڈال رہے۔
ایسا دانستہ کیا جا رہا ہے۔ طالبان ہزارہ آبادی کے ساتھ ماضی کی طرح ٹکرانے کے بجائے مفاہمت کے ساتھ آگے بڑھنا چاہتے ہیں۔ مشرقی افغانستان کے صوبوں کنڑ، لغمان، نورستان اور ننگر ہار میں دانستہ محاذ نہیں کھولا گیا۔ شائد اس لئے کہ یہ پاکستان سے ملحقہ صوبے ہیں اور مہاجرین کا دبائو پاکستان پر آ سکتا ہے۔ قندھار، لشکر گاہ اور ہرات میں کامیابی کے بعد کابل پر دبائو بڑھے گا۔ تب کابل کے ملحقہ صوبوں پروان، وردک، لوگر ، کیپسیا وغیرہ کا نمبر آئے گا۔ پنجشیر کی طرف شائد طالبان آخر میں جائیں گے۔ اس وقت امریکی ماہرین کے اعتراف کے مطابق طالبان ملک کے پینسٹھ فی صد حصے پر قابض ہیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ دائرہ وسیع ہو رہا ہے۔ آخری جنگ کابل میں ہوگی۔ اب طالبان کو دھکیل دینے اور پسپا کرنے کی آپشن ختم ہوچکی۔ اس وقت تو افغان حکومت زیادہ سے زیادہ وقت نکالنے کی فکر کرے۔ ان کی سودے بازی کی قوت بہت کمزور ہوگئی۔ اقتدار میں شراکت کی تجاویز اب بے معنی ہیں۔ بظاہر طالبان کو اس وقت روکنا ممکن نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
عمر سعید شیخ ۔ پراسرار کردار کی ڈرامائی کہانی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
سیاسی اجتماعات کا اب کوئی جواز نہیں ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
چندر اوراق ان لکھی ڈائری کے ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
آسٹریلیا بمقابلہ چین ۔۔۔محمد عامر خاکوانی
بیانئے کی غلطی۔۔۔محمد عامر خاکوانی
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ