نومبر 5, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملیے شمائلہ نورین المعروف شمائلہ حسین سے(4)|| شمائلہ حسین

رزلٹ آیا تو تب تک میں اپنی محنت سے صرف ایک ہزار روپے کمانے کے قابل ہو پائی تھی جبکہ یونیورسٹی کی پراسپیکٹس ہی چھ سو روپے کی تھی ۔

شمائلہ حسین 

مس شائستہ کو جب معلوم ہوا کہ میں تھرڈ ائیر میں داخلہ نہیں لے رہی توانہوں نے مجھے پیغام بھیجا کہ میں ان سے ملوں ۔ اب ان کا حکم ہوتا اور میں نہ جاتی یہ تو ممکن ہی نہیں تھا لہذا ان کے سامنے پیش ہوگئی ۔ انہوں نے مجھ سے داخلہ فارم پر کر کے جمع کروانے کو کہا اور یہ بھی کہا کہ فیس کا بندوبست ہوجائے گا لیکن ایک بار پرنسپل مسز شاہینہ نوید صاحبہ سے ملتی جاؤ ۔ میں پرنسپل کے پاس چلی گئی انہوں نے مجھے دیکھتے ہی کہا مس شائستہ نے مجھے بتایا ہے کہ آپ داخلہ نہیں لے رہیں ۔ آپ ہماری اچھی اور ذہین سٹوڈنٹ ہیں آپ کی صلاحیتیں ایسے ضائع نہیں ہونے دیں گے ہم ، جتنی فیس کا بندوبست آپ کرسکتی ہیں آپ کر لیں باقی ہم مل ملا کے کچھ کر لیں گے ۔
اب یہاں خود سے کچھ انتظام کہاں سے ہوتا ۔ اب کی بار سیدھا امی کے آخری زیور کو ہاتھ ڈالا گیا جو کان کی بالیاں تھیں۔ میرے منع کرنے کے باوجود امی نے وہ بالیاں سنار کے پاس رہن رکھ کے کچھ روپے ادھار اٹھائے اور مجھے داخلے کے لیے دے دئیے ۔
اب کی بار خاندان سے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ۔ دادا ابو نے میرے والد صاحب کو خوب الٹی سیدھی سنائیں ۔ میری امی کو برا بھلا کہا ، ان کے خیال میں لڑکیوں کو زیادہ پڑھانے کی کیا ضرورت ہے ۔جب گھر داری ہی کرنی ہے تو اس کے لیے پرائمری کی تعلیم سے زیادہ کی کوئی وجہ نہیں رہتی ۔
یوں تو وہ اس حق میں بھی نہیں تھے کہ لڑکیوں کو لکھنا پڑھنا آئے کیونکہ جب وہ لکھنے کے فن سے آگاہ ہوجاتی ہیں تو عشق معشوقی میں پڑنے کے چانس زیادہ ہو جاتے ہیں کہ انہیں خط لکھنا اور پڑھنا آجاتا ہے ۔ پھر بی اے پاس لڑکی کی تو عمر بھی زیادہ ہو جائے گی اس کے لیے رشتہ نہیں ملے گا تو ساری عمر سر پہ بیٹھی رہے گی ۔
ابو جی نے اپنے ان خدشات کا اظہارمیرے سامنے کیا تو میں نے ان سے کہا کہ اگر میں نے عشق معشوقی ہی کرنی ہوتی تو اب تک آپ کو پتہ چل گیا ہوتا
اور رہی بات شادی کی تو مجھے تعلیم مکمل کرنے دیں پھر کسی اول جلول کے ساتھ بھی رشتے میں باندھیں گے تو چپ کر کے چلی جاؤں گی ۔
اور تعلیم کے اخراجات کے لیے میں نے پہلے بھی آپ کو کبھی تنگ نہیں کیا آئندہ بھی آپ بھول جائیں کہ ایسا کچھ ہوگا۔
رہی سہی سفارش مس شائستہ نے کردی تو دوستو! میرا داخلہ بی اے میں ہوگیا۔ میں تو خوش تھی جو تھی مس شائستہ ، میری پرنسپل اور میری سہیلیاں بھی بہت خوش تھیں ۔
اب میرے پاس خود کو منوانے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں تھا۔ فرسٹ ائیر سے ہی پراکٹر بھی تھی ۔ہر تقریب میں پیش پیش بھی رہتی تھی تعلیمی کارکردگی بھی بہتر تھی ۔
اب مجھے پہلی بار اپنے مستقبل کو باقاعدہ پلان کر نا تھا اور اس کے لیے میں نے بی اے میں اختیاری مضامین کا انتخاب کرتے وقت اردو ایڈوانس کو اولیت دی ۔
مس شائستہ نے اتنی محنت سے پڑھایا کہ میں آج تک کہتی ہوں میرا ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی اسی وجہ سے ممکن ہوئے ہیں کیونکہ میری ابتدائی تربیت انہوں نے کی ۔ وہ میرے لیے کتابیں خرید کر لاتیں ، اپنے ہاتھ سے لکھ لکھ کر ہمیں نوٹس پہنچاتیں ، انہیں گائیڈ بکس سے شدید چڑ تھی اسی وجہ سے وہ ایک ایک ٹاپک پر اتنی محنت کر کے ہمیں پڑھاتیں کہ ان کا ایک بار کا پڑھایا ہوا کبھی نہ بھولتا ۔
دوسری طرف سر طارق جاوید نے ہمیں انگریزی میں ایسا طاق کر دیا تھا کہ مجھے کبھی رٹا نہ لگانا پڑتا میرے ساتھ کی سٹوڈنٹس یاد کر کر کے ہلکان ہوتیں اور میں ایک بار کتاب کھول کے دیکھتی پھر پڑھنے کی ضرورت محسو س نہ ہوتی اور پور ے پورے مضمون ، خلاصے ، شاعری کی شرح لکھ کے آگے رکھ دیتی ۔ سر کا سوال ہر بار یہ ہی ہوتا کہ تم کہاں سے یاد کرتی ہو یہ تو کسی گائیڈ بک میں نہیں ہے ۔
مس شائستہ کی سنگت نے مجھے اتنا با اعتماد کرد یا تھا کہ میں علامہ اقبال کی شاعری کی انگریزی ٹرانسلیشن نہ صرف پڑھتی بلکہ انگلش شاعری کی تشریح کے وقت اس ٹرانسلیشن کو حوالے کے اشعار کے طور پر لکھ آیا کرتی ۔
ایک دن ہم اکیڈمی میں بیٹھے ٹیسٹ لکھ رہے تھے کہ ایم اے انگلش کی کچھ سٹودنٹس آئیں اور پوچھنے لگیں کہ شمائلہ کون ہے ؟
میں نےبتایا کہ میں ہوں ۔۔
May be an image of 1 person
وہ بڑے اشتیاق سے آگے بڑھیں ،ہاتھ ملایا اور پوچھنے لگیں کہ آپ کہاں سے تیاری کرتی ہیں کیونکہ سر طارق جاوید آپ کے ٹیسٹ ہمیں دکھا دکھا کر کہتے ہیں کہ اس بچی کی طرح کا ایک بھی ٹیسٹ کسی اور کا نہیں ہوتا ۔
اس دن مجھے احساس ہوا کہ اس قدر سخت لب و لہجے کے استاد جو کبھی مسکرا کر ہم سے بات بھی نہ کرتے تھے میری پیٹھ پیچھے تعریف کرتے ہیں تو میں خوشی سے پھولے نہ سمائی ۔
اب ہوا یہ کہ سر کی خواہش تھی میں انگلش میں ایم اے کروں جبکہ مس شائستہ کی خواہش تھی اردو میں ماسٹر کروں اور ان سے تعلق کی نسبت سے مجھے بھی اردو میں زیادہ دلچسپی تھی ۔ بہر حال بی اے بھی اچھے نمبروں میں ہوگیا۔
کالج کا دور معاشی پریشانیوں کے علاوہ باقی ہر طرح سے یاد گار رہا مجھے میرے اساتذہ کی شفقت ، کلاس فیلوز کی محبت اور اس درجہ محبت کہ میرے ایک بار کہہ دینے پر ضدی سے ضدی لڑکی بھی بات مان لیتی کہ اب شمائلہ کو کیسے انکار کریں ۔
تقاریب کی تیاری کا وقت ، امتحانوں کی پریشانی ، مس شائستہ کی ہنسی اور کبھی کبھار شدید والی ڈانٹ ، کینٹین کے سموسے اور میری ایک فین کا روز مجھے کوکاکولا کی بوتل بھیجنا اور اس بوتل پر ہم سہیلیوں کی جھینا جھپٹی ، ہنسی کے طویل دورے اور کسی نا کسی ٹیچر سے اس خوامخواہ کی کھی کھی پر ڈانٹ پڑنا۔۔
کالج کا وقت میری زندگی میں سنہری یاد کے طور پر ہمیشہ کے لیے نقش ہے ۔
اب مجھے اردو میں ایم اے کرنا تھا لیکن پرائیویٹ نہیں اور یونیورسٹی میں داخلہ ظاہری سی بات ہے ناممکن تھا ۔کالج تک آنے میں کتنے پاپڑ بیلنا پڑے تھے اب تو بھائی پاپڑوں کی دکان بھی کھول لیتی تو یہ ٹاسک ممکن نہ ہوتا ۔
روپوں کے انتظام کے لیے بی اے کے امتحانات کے بعد فری وقت میں کوشش کی کہ محلے کے بچوں کو ٹیوشن پڑھاؤں لیکن جیسی روح ویسے فرشتے کے مصداق محلے میں کون تھا جو بچوں کی ایجوکیشن کے لیے سنجیدہ ہوتا ۔
الٹا ماؤں نے اپنے بچوں کو اس لیے بھیجنا شروع کردیا کہ گھر میں تھوڑ ی دیر سکون ہو سکے اور ٹیوشن فیس محلے والوں سے بھی کوئی لیتا ہے لہٰذا کچھ دن پڑھانے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ یہاں سے مالی مدد تو کچھ نہیں ہونے والی ۔۔
پھر ایک پرائیویٹ سکول میں رابطہ کیا وہاں ماہانہ تنخواہ چار سو روپے تھی لہٰذا وہاں جانے لگی ۔ وہاں کا ماحول کسی دیہات کے سکول سے کم نہ تھا بچے صرف مار کی زبان سمجھتے تھے۔
چھوٹا سا گھر تھا جسے سکول کی شکل دے کر بھیڑ بکریوں کے باڑے جیسا کچھ بنا کر اسے درس گاہ کا نام دیا گیا تھا۔ سکول کے پرنسپل شدید غصیلے اور ہتھ چھٹ آدمی تھے ۔
بہرحال چار سو روپے ان سب مسائل کے سامنے زیادہ اہمیت رکھتے تھے رزلٹ آنے تک دو تین ماہ اس سکول میں پڑھاتی رہی لیکن اس کے بعد میرا ٹیچنگ سے دل اٹھ گیا ۔
آج بھی میری آنکھوں کے سامنے کف اڑاتا ہو اگالیاں بکتا ایک نفسیاتی مریض آن کھڑا ہوتا ہے جو بچوں کو ڈنڈے سے ایسے پیٹتا تھا جیسے وہ لکڑی کے باوے ہوں ۔
رزلٹ آیا تو تب تک میں اپنی محنت سے صرف ایک ہزار روپے کمانے کے قابل ہو پائی تھی جبکہ یونیورسٹی کی پراسپیکٹس ہی چھ سو روپے کی تھی ۔
میں نے اپنے تمام جاننے والوں سے ادھار مانگا لیکن اس بنیاد پر کو ن ادھار دیتا کہ آج سے چار پانچ سال بعد جب میں کسی جاب پر لگوں گی تو واپس کردوں گی ۔
کسی نے میری بات کو سنجیدہ نہیں لیا لیکن سر طارق جاوید نے پیغام بھیج کر بلا لیا اور کہا کہ تم میری اکیڈمی سے ایم اے انگلش کی تیاری شروع کردو میں چاہتا ہوں کہ تم میرے ساتھ اکیڈمی سنبھالو۔
مس شائستہ سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ نہیں آپ اردو میں آگے جائیں گی ۔ اب دونوں طرف میرے محسن تھے آسان راستہ تو سر طارق جاوید والا تھا لیکن اس مشکل پسند طبیعت کا بھی کیا کرتی کہ خود سے ضد لگا نا بچپن کی عادت ٹھہری اور سوچ لیا ” جس حال میں جینا مشکل ہو اس حال میں جینا لازم ہے ۔” اور ٹھان لی کہ اردو میں ماسٹر کرنا ہے اور کرنا بھی یونیورسٹی جا کر ہے ۔ یہاں مس شائستہ نے غیرمعمولی طور پر میرا ساتھ دیا ۔
ابو جی کسی طور راضی نہیں ہو رہے تھے کہ میں یونیورسٹی جاؤں ۔ وجہ کوئی ایک نہیں تھی وجوہات تھیں ، بہت سے تحفظات تھے ۔
ایک تو یہ کہ جوان لڑکی شہر سے باہر جا کر پڑھے گی ۔ ہاسٹل میں رہنا پڑے گا جبکہ ہاسٹل کی شہرت کچھ اچھی نہیں سن رکھی تھی انہوں نے ، دوسری وجہ یہ کہ لڑکا ہوتی تو فٹ پاتھ پر سو کر بھی گزارا کر لیتی ، لڑکی ذات ہے ، پیسہ اتنا ہے نہیں کہ ہاسٹل کے اخراجات پورے ہوں ، کیسے کرے گی ، کیا ہوگا۔
کسی غلط راستے پر چل پڑی تو، دادا ابو کی پیش گوئیاں درست ثابت ہوگئیں تو ، خاندان والے باتیں کریں گے ، جگ ہنسائی ہو گی وغیرہ وغیرہ ۔
یہاں مس شائستہ جمال نے ابو سے میری استاد ہونے کے ناطے باقاعدہ لڑائی کی ، ہمارے گھروں میں آج بھی بچوں کے ٹیچرز کی کسی بات کو منع نہیں کیا جاتا، ابو چپ رہے اور مجھے صرف اتنا کہا جو دل چاہتا ہے کرو۔
یہاں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے کہ میں جب تھرڈ ائیر میں تھی مجھ سے بڑی بہن کی شادی کر د ی گئی لیکن ایک سال کے اندر اسے طلاق لینی پڑ گئی اوروہ واپس ہمارے پاس آچکی تھی ۔ تب تک وہ صرف میٹرک پاس تھی اس کے بعد ہم تین بہنیں اور تھیں ۔ میرے والدین کے لیے اس کا واپس آجانا جذباتی ، معاشرتی اور معاشی طو رپر کسی دھچکے سے کم نہ تھا۔
اب گھر کا ماحول اور بھی کشیدہ رہنے لگا ۔ پہلی بار ابو جی کو اندازہ ہوا کہ اگر وہ بی اے یا ایم اے کر چکی ہوتی اور معاشی طور پر خود مختار ہوتی تو مسائل کی شدت میں کچھ کمی واقع ہو سکتی تھی ۔
اس صدمے نے ابو کی روایتی تنگ نظری کو بہت حد تک بدل دیا تھا لہٰذا مس شائستہ کی باتوں اور ہم سب گھر والوں کی ضد کے آگے انہیں ہار ماننی پڑی ۔
اپنے کمائے ہوئے ایک ہزار روپے مٹھی میں دبائے میں نے امی کو ساتھ لیا ملتان کی بس پر بیٹھے اور بہاءالدین زکریا یونیورسٹی ملتان جا پہنچے ۔ وہاں سے پراسپیکٹس خریدی شعبہ اردو میں اپلائی کیا ۔ پہلے سمیسٹر کی فیس اور ہاسٹل کے اخراجات کا تخمینہ لگوایا اور گھر واپس آگئے ۔
فوری طور پر دس ہزار روپوں کی ضرورت تھی ۔اور گھر میں ایسا کچھ نہیں تھا جسے بیچ کر اس کا انتظام ہوسکتا۔ خدا مس شائستہ کو سلامت رکھے انہوں نے چھ ہزار روپے میرے ہاتھ پر رکھ دیے اور کہا باقی روپوں کا انتظام خود کرو اگر نہیں ہوتا تو پھر مجھے بتاؤ۔
تب بہت سوچنے کے بعد میرے اپنے بھائی کے ایک دوست مصطفیٰ بھائی کا نام ذہن میں آیا جو ان دنوں سعودیہ میں مقیم تھے ۔ میں نے پڑوسیوں کے گھر سے پی ٹی سی ایل پر ان سے بات کی کہ مجھے چار ہزار روپے چاہئیں جب کبھی میں کمانے کے قابل ہوئی آپ کا ادھار لوٹا دوں گی ۔
انہیں میرے شوق اور ضد کا انداز تھا لہٰذا چار ہزار روپے بھیج دیے ۔ اب میرے پاس پہلے سیمیسٹر کی فیس کا انتظام ہوگیا تھا۔
شعبے کی پہلی داخلہ لسٹ جاری ہوئی میرا نام پہلی ہی لسٹ میں تیسرے نمبر پر موجود تھا ۔ میرے ساتھ یونیورسٹی کے اس سفر میں میری ایک اور دوست بھی شامل تھی اس نے شعبہ اسلامیات میں اپلائی کیا تھا ۔ اس کا نام بھی پہلی ہی لسٹ میں آگیا ۔ اب کی بار ہم دونوں اور میری امی ہمارے ساتھ تھیں ۔
ہم یونیورسٹی پہنچے ایڈمیشن کروایا لیکن ہاسٹل کےاخراجات کا انتظام کیسے ہوتا ۔یہاں ایک بار پھر مس شائستہ میری مدد کو آئیں ۔ انہوں نے ڈاکٹر انوار احمد سے میرے لیے بات کی اور سر نے مجھے کہا کہ ہاسٹل کے فیس واؤچر بنوا کر انہیں لادوں ۔
میں نے ایسا ہی کیا اور میں نہیں جانتی کہاں کیسے اور کس نے وہ فیس ادا کی البتہ ادائیگی کی مہر کے ساتھ وہ واؤچر مجھے واپس دینے والی تھیں ڈاکٹر روبینہ ترین ۔۔۔۔

About The Author