دسمبر 23, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

’ دوسرا قائداعظم‘||عفت حسن رضوی

شفافیت نہ ہوتی تو آج آپ کو پاکستان میں جناح سیمنٹ لمیٹڈ، جناح ہاؤسنگ، جناح واٹر منجمنٹ، جے ائیر ویز، محمد علی اینڈ کو، فاطمہ جناح شپنگ کمپنی، ایم اے جناح سٹیل اربوں کماتی نظر آتی، خنجراب سے گوادر تک ایم اے جناح ورکس کے ٹھیکے دکھائی دیکھتے۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسا کیسے ممکن ہے کہ ایک زمانہ گزر رہا ہو اور کوئی زمانہ شناس نہ آئے، چہار جانب بالکل ساکت اندھیرا ہو مگر جگنو نہ ٹمٹمائے۔ کسی اندھیری گپھا میں آسن باندھے بیٹھا گوتم بدھ اپنے شاگردوں کو روشنی کا اصل مطلب نہ بتا رہا ہو۔ وہی بدھا جس نے راج چھوڑ کر سچ کی تلاش شروع کی، وہ تلاش آج بھی جاری ہے۔

قدرت اتنی بھی نامہرباں نہیں کہ وقت کا پہیہ اپنا چکر چل رہا ہو، حاکموں، بادشاہوں کے گھرانوں کی آپسی کشمکش میں قدیم چین کے عوام پس رہے ہوں ایسے میں وہ متوسط گھر میں کنفیوشس پیدا نہ کر دے۔

کنفیوشس جس نے معمولی سرکاری نوکری سے مشیر مملکت تک ہر عہدے پہ اپنی قوم کا بھلا چاہا، یہاں تک کہ وہ تنگ آکر خود ہی جلاوطن ہو گیا کہ یہ لوگ نہیں سدھرنے والے۔

بادشاہ بدلے نئے حاکم آئے تب تک کنفیوشس بوڑھا ہوچکا تھا۔ وہ حاکم بن کہ ملک نہیں چلا سکتا تھا مگر اس نے زندگی گزارنے، حکومت چلانے، سیاست کرنے کے سنہری اصول دے دیئے۔ صدیاں گزر گئیں کنفیوشس کے وہ اصول آج بھی دہرائے جاتے ہیں۔

دنیا کا یہ گولا ہر گزرتی صدی کے ساتھ نئی لکیروں کو جھیل رہا ہے، سلطنتیں اب ٹوٹ کہ مملکت بن گئی ہیں، مملکتیں بھی اپنے اندر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں کہیں علیحدہ صوبہ کہیں علیحدہ ریاست کا مطالبہ ہے۔ اب سکندر کی فتوحات نہیں ملکوں کی پالیسیاں چلتی ہیں، لیڈرز بدلتے رہتے ہیں۔

لوگ رنگ، نسل، قوم، زبان، مذہب، عقیدہ، فرقہ، معاشرتی نظریات یہاں تک کہ جنسی رجحان تک کے نام پہ بٹ چکے ہیں۔ آسمانی کتب اور پیغام بروں کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے۔

مگر کیا قدرت کے کارخانے میں رہنما، راہبر یعنی عام زبان میں لیڈر بننا بھی بند ہوگئے ہیں؟ آیا کہ قحط الرجال یعنی معقول لوگوں کی قلت کوئی مشیت خداوندی ہے یا محض ہماری کوتاہ نظری۔ نہ جنوبی افریقہ کو اب کوئی دوسرا نیلسن منڈیلا نصیب ہے نہ پاکستان میں حد نگاہ تک کسی قائد اعظم کے دوبارہ آنے کا کوئی چانس!

پہلے تو یہ سمجھ لیں کہ شعلہ بیانی، سینہ حاضر لہو حاضر کی ڈراما بازی، اچانک سر راہ کیمروں کی موجودگی میں بوقت نماز مصلی بچھا کر سربسجود ہونا یا حکومتی محلات کے دروازے غریبوں پہ کھولنے جیسی ڈھکوسلے بازی اگر واقعی لیڈری ہوتی تو محمد علی جناح کبھی قائد اعظم نہ کہلاتے۔

جناح نے پاکستان بننے کے بعد کسی ادارے پہ چھاپہ مارا، نہ کبھی مسلم لیگ کی صدارت کے دوران جھولی پھیلا پھیلا کر ہندوستان کی مسلمان عورتوں سے زیورات عطیہ دینے کی اپیل کی۔ جیسے جناح کی ذاتی زندگی میں ایک ایک پائی کا حساب موجود تھا ایسا ہی پارٹی فنڈز کا بھی معاملہ تھا۔

یہ شفافیت نہ ہوتی تو آج آپ کو پاکستان میں جناح سیمنٹ لمیٹڈ، جناح آرمز اینڈ ہیوی مشنری، جناح ٹاون ہاؤسنگ، جناح واٹر منجمنٹ، جے ائیر ویز، محمد علی اینڈ کو، فاطمہ جناح شپنگ کمپنی، ایم اے جناح سٹیل اربوں کماتی نظر آتی، خنجراب سے گوادر تک ایم اے جناح ورکس کے ٹھیکے دکھائی دیکھتے۔

اگر اپنی دو نمبریوں کی وجہ سے جیل جانا اور اسے عوام کی خاطر قرار دینا، اپنے خاندان یار دوستوں کو نوازنا، فوجی قوت پہ بھروسہ کرنا، طاقت کو آخری حل سمجھنا، عالمی طاقتوں کا آشیرباد لینا یا پھر اپنی سیاست چمکانے کی خاطر اپنی ہی قوم کو استعمال کرنا لیڈری ہوتی تو محمد علی جناح ضرور کرتے۔

قوم کی اجتماعی یاداشت میں اگر موروثیت سے ہی اپنا نام زندہ رکھنا ہوتا تو آج محمد علی جناح کا کوئی نواسہ پارٹی کا سربراہ ہوتا، ماموں زاد بھائی کا پوتا کہیں گورنر لگا ہوتا، مہتا پیلس میں ان کی پڑ نواسی شاندار سیاسی عشائیے دے رہی ہوتی۔

وزیر مینشن میٹھادر جانے والی سڑک بند ہوتی کہ آگے وی آئی پی موومنٹ ہے۔ زیارت ریزیڈنسی پہ خاندانی وارثت کے جھگڑے چل رہے ہوتے، کوئی جناح زادہ یا جناح زادی لندن میں لابنگ کرتے، آئے دن فلاں جناح، فلاں جناح نام کے لیڈر پریس بریفنگ، ٹوئٹر ہینڈل پہ تڑپتی بھڑکتی سرخیاں پھینک رہے ہوتے۔

لیکن محمد علی جناح کو تاریخ کے کسی کونے میں ایک کامیاب سیاست دان، آل انڈیا مسلم لیگ کا صدر یا صرف پاکستان کا پہلا گورنر جنرل بننا مقصود نہیں تھا۔ وہ قائد اعظم بنے۔ انہیں جناح فیملی کی سیاست نہیں پاکستان پنپنے کی فکر تھی۔

اور یہ بھی دھیان رہے کہ صرف سات عشرے پہلے کی بات ہے کہ اسی قوم میں جناح تھے، وہ کوئی سُپر ہیومن نہیں تھے، نہ انہیں پرہیز گاری متقی ہونے کا کوئی دعویٰ تھا، اپنی ذاتی زندگی میں وہ عمدہ لباس، سگار، مہنگے جوتوں اور امپورٹڈ گاڑیوں کے شوقین تھے، اپنے سے کم عمر لڑکی سے محبت کی شادی کی تھی وغیرہ وغیرہ یہ ان کی ذاتی زندگی تھی۔ وہ ملٹری کمانڈر نہیں تھے نہ ہی طاقت کے کسی بھی ادارے سے منسلک تھے۔ وہ ایک بزنس مین کے قابل بیٹے تھے جس کے پاس قانون کے ڈگری تھی۔

محمد علی جناح والی یہ پروفائل تو کسی کی بھی ہوسکتی ہے، لیکن محمد علی کے قائد اعظم بننے کی وجہ ان کا دو ٹوک لہجہ تھا، ذہانت اور عالمی طاقتوں کی پرکھنے کی دانش تھی، راستہ دکھانے والی دور اندیشی تھی۔ دیانت ایسی تھی کہ ہندوستان کی چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے بڑے بڑے نوابوں نے اپنی دولت قائد اعظم کے مشن میں دے دی تھی، ایک روپیہ بھی اس لیڈر نے اپنے آپ پر نہیں لگایا۔

ٹیم تو جناح کو بھی آپ ہم جیسے انسانوں کی ہی ملی تھی، کوئی مطلب سے ساتھ تھا کوئی خلوص سے، کوئی جناح کی شخصیت سے تھوڑی چمک لے کر خود بھی چمکنا چاہتا تھا اور کوئی آخری حد تک جناح کا ساتھ دینا چاہتا تھا۔ مگر اہم یہ ہے کہ جناح نے انہی لوگوں کے ساتھ ٹیم بنائی، مشن مکمل کیا، نہ خود ایک ڈھیلے کی کرپشن کی نہ کرنے دی، نہ خود راہ چھوڑی نہ دوسروں کو بھٹکنے دیا۔

مشہور قول ہے کہ ایک عظیم لیڈر اپنے عوام کے اجتماعی خیالات اور مزاج کا آئینہ ہوتا ہے۔ عوام جس راہ چلنا چاہتے ہیں قدرت بھی ان پہ، ان ہی میں سے، ان جیسا لیڈرپیدا کر دیتی ہے۔ اب اسے جمہوریت کا نام دیں یا ہائبرڈ جمہوریت کا۔

امید کے قافلے میں چلنے والے ہم جیسے مانتے ہیں کہ اس قوم میں قائد اعظم نہ سہی تھوڑا بہت ان جیسا لیڈر دوبارہ پیدا ہوسکتا ہے۔ بس ذرا کنفیوژن یہ ہے کہ آیا یہ قوم لیڈرشپ کے نام نہاد بُت توڑے گی، خود سدھرے گی، دیانت دار بہادر دانشور پیدا کرےگی اور انہیں اپنا لیڈر مانے گی تب کہیں جاکر کوئی قائداعظم ثانی بنے گا یا پھرکوئی معجزہ ہوگا اور ہمیں خود بخود نجات دہندہ مل جائے گا۔

یہ بلاگ  انڈیپینڈنٹ اردو پر شائع ہوچکاہے

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author