فضیل اشرف قیصرانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کوئٹہ سے ملحق پشتون ضلع پشین ہے۔پشین جو “معائدہ گنڈمک،ڈیورنڈ لائن “اور بلوچستان میں تعلیم کی اولین یادگاروں میں سے ایک ہے۔پشتون دوست کی شادی کی تقریب ہے اور ہم بمع اپنے دیگر احباب کے شادی کی تقریب کے لیے “کربلا “میں موجود ہیں۔مجھے نہیں معلوم کہ پاکستان میں کہیں کربلا کے نام سے کوئ اور جگہ بھی موجود ہے یا نہیں،مگر پشین کی کربلا بلوچستان کے اعتبار سے ایک بڑی آبادی پہ مشتمل علاقہ ہے۔
پشین میں جا بجا عثمان خان کاکڑ،قبائیلی اتحادوں،ملکان،مشران اور دیگر سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے آویزاں ہیں اور عثمان خان کاکڑ کے علاوہ تقریباً سب “رانگ نمبرز “ ہیں کہ رانگ نمبرز عوام کی ٹیلی فون ایکسچینج سے جاری نہیں ہوۓ بلکہ یہ رانگ نمبرز کابلی گاڑیوں کے چیسز کی طرح پشین میں کسی ماہر استاد نے اپنی ورکشاپ میں تیار کیے ہیں جسکا پچھلا دروازہ پشین سے بہت دور “پنڈ دادنخان “میں جا کھلتا ہے۔
ہم مگر “جوڑ روغ” میں مصروف ہیں۔جوڑ روغ بلوچی میں “جوڑ بھڑ”رسمی سلام دعا کے بعد لازمی کی جانے والی سلام دعا ہے جس میں تمام شرکاِ محفل دوبارہ سے محفل کو بے تکلف بنانے کی غرض سے سلام دعا کے عمل سے گزرتے ہیں اور یہ خلافِ آداب ہے کہ اس عمل سے نہ گزرا جاۓ۔
پشین جائیں اور پشین کی “غُنڈیاں” نہ دیکھیں تو سمجھیں پشین کا سفر اکارت گیا اور ہمارے ساتھ یہی ہوا کہ بارات سے نکلتے نکلتے شام پڑ گی اور شام کے بعد کیا غنڈے اور کیا غنڈیاں ،سب برابر ہو جاتے ہیں۔سو ہم نے وہ رات اپنے “غنڈوں” کے ساتھ جنگ عظیم میں بناۓ گۓ برطانوی سامراج کے ہیلی پیڈ پہ ہنستے مسکراتےگزاری،اور پیڈ جو کہ اپنی مکمل اصل حالت میں موجود ہے اسکی مضبوطی کی تعریف کیے بنا نہ رہ سکے۔
مہمان بن کے جائیں تو بطور مہمان آپ وہاں کسی صورت بھگوان سے کم تصور نہ ہوں گے مگر یاد رہے کسی بھی طرح کے مقامی سٹیک میں اگر آپ نے حصہ دار بننا چاہا تو بلوچستان بھگوان سے کب مہمان کو آسمان سے زمین پر پٹخ دے،کوئ نہیں جانتا کہ غیر مقامیوں کے ہاتھوں دہائیوں کے استحصال کے بعد مقامی لوگ اب استحصال کے نام سے کوفت میں مبتلا ہو جاتے ہیں مگر مہمان کی تکریم سب سے مقدم۔
سو پشین میں بتائ رات نہ صرف خوبصورت تھی بلکہ یادگار بھی کہ وہاں کی گفتگو کا خلاصہ یہی رہا کہ پشین کا بائ پاس مقامی لوگوں کو بائ پاس کر کے بنایا گیا ہے اور سواۓ بائ پاس کی سہولت کے تمام سہولیات کا رخ کہیں اور ہے ۔سو استحصال جاری ہے اور استحصال کا ہر رنگ مردہ آباد۔
مانا جاتا ہے کہ عوامی لیڈرز پہ ہی نغمات لکھے اور گاۓ جاتے ہیں۔بلوچستان میں باقی پاکستان کے بر عکس شادی کی تقریب میں بھی سیاسی ترانے ضرور گاۓ جاتے ہیں،جنہیں عرف عام میں انقلابی گیت کہا جاتا ہے۔کھبی پشتون علاقوں میں یہ گانے محمود خان اور اسفند یار ولی کے لیے مختص تھے۔ایک شادی کی تقریب میں جانا ہوا تو افغان گائیک مرحوم استاد حسن شیدائ کے فرزند کو موسیقی کے لیے مدعو کیا تھا جہاں ان سے پشتونوں کے نۓ لیڈرز “منظورپشتون اور عثمان خان کاکڑ”پہ نغمات گانے کو کہا گیا جبکہ گزشتہ لیڈران کے لیے کوئ فرمائش نہیں کی گئ۔یہ وہ سیاسی شفٹ ہے جس سے بلوچستان کا پشتون سماج گزر رہا ہے۔سوچنے والوں کو ضرور سوچنا چاہئے ہے کہ یہ شفٹ کیوں آیا ؟
نوٹ:پشتو میں غُنڈی پہاڑی کو کہتے ہیں۔
پسِ تحریر:آبائ وطن سے خوشحالی کی خبر ہے کہ لہاڑ خوب رواں ہیں اور وطن کی تمام خوشحالی کا انحصار انہیں لہاڑوں پہ ہے۔وطن ہمیشہ سلامت
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی