ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی کی خودنوشت ”رفت و بود” دسمبر 2011ء میں ادارہ یادگار غالب (کراچی) نے شائع کی۔ اسے ان کے نامور شاگرد، نقاد اور محقق جناب ڈاکٹر معین الدین عقیل نے مرتب کیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل ”مقدمے” میں اس خودنوشت کا پس منظر بیان کرتے ہیں۔
”ڈاکٹر صاحب (ڈاکٹر ابواللیث صدیقی) کی محبت و شفقت سے میری ذات ہمیشہ روحانی فیض پاتی رہی۔ ڈاکٹرصاحب کی شعبے سے علمی سبکدوشی کے وقت اور بعد کئی سال تک میں نے جزوقتی طور پر ”جسارت” (کراچی) کے ادبی صفحے کی ادارت کی ہے۔ یہ اس کے نامور مدیر و دانش ور محمد صلاح الدین کا دورِ ادارت تھا۔ اپنے مندرجات اور اپنے بعض سنجیدہ فکر انگیز مستقل سلسلوں کے باعث اور ساتھ ہی دلچسپ و معلوماتی ادبی خبروں ور مشفق خواجہ و ڈاکٹر وحید قریشی کے فکاہیہ کالموں اور ڈاکٹر طاہر مسعود کے ادبی مشاہیر سے انٹرویو کی وجہ سے ملک بھر میں توجہ کا سبب بنا ہوا تھا۔ میں نے اپنے صفحے کے لئے ڈاکٹر صاحب سے قسط وار اپنی خودنوشت لکھنے کی درخواست کی جو انہوں نے قدرے تامل کے بعد منظور کرلی اور نہ صرف لکھنا شروع کردیا بلکہ ہر ہفتے باقاعدگی سے انہوں نے تقریباً ڈیڑھ سال تک اپنی ساری مصروفیات میں سے وقت نکال کر ہفتہ وار اپنی خودنوشت ”رفت وبود” کے نام سے لکھی جو شائع ہونے لگی۔ ڈاکٹر صاحب کے ایک اور شاگرد حسن وقار گل (اردو یونیورسٹی) اس کام پر مامور ہوئے کہ وہ ہر ہفتے ڈاکٹر صاحب سے خودنوشت کی قسط حاصل کرکے پہنچایا کریں گے۔ چنانچہ انہوں نے باقاعدگی سے یہ کام کیا۔”
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی نے اس خودنوشت کا مختصر ابتدائیہ تحریرکیا۔
”اپنے بارے میں کچھ لکھنے کی فرمائش مجھ سے بار بار کی گئی لیکن میں نے اس سے دامن بچایا۔ میری زندگی میں میرے خیال میں کوئی بات غیر معمولی نہیں۔ نہ میں غیر معمولی حالات وواقعات سے دوچار ہوا۔ نہ غیر معمولی فتوحات میرے حصے میں آئیں نہ کسی جماعت یا گروہ سے ایسا وابستہ رہا کہ ان کا پیر بن گیا ہوں۔ اور پیراں نمی پرند مریداں می پرانند کے مصداق میں نے کوئی حلقہ بنالیا ہو۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ میں اسے خودنمائی سمجھتا ہوں اور میرے فقیرانہ یا قلندرانہ مشرب میں اس کی گنجائش نہیں۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ میں درس و تدریس اورتحقیق و تدریس میں اتنا مصروف رہتا ہوں کہ اپنی ذات کے بارے میں لکھنا مشکل نظر آتا ہے۔ حسن وقار گل میرے شاگرد ہیں انہوں نے غالباً طے کرلیا تھا کہ یہ اس ”انہونی” کو ”ہونی” بنا کر رہیں گے اور ان کے تقاضوں سے گھبرا کر میں نے راہِ فرار اسی میں دیکھی کہ ان کی فرمائش کی تعمیل کروں، تو یہ حاضر ہے۔”
یہ خودنوشت کتابی صورت میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی میں شائع کیوں نہیں ہوئی۔ اس کی وجہ ڈاکٹر معین الدین عقیل یوں بیان کرتے ہیں۔
”ڈاکٹر صاحب اپنی زندگی میں اس خودنوشت کو کتابی صورت میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔ وہ ایسا کرسکتے تھے اور اس عرصے میں ان کی کئی کتابیں منظرعام پر بھی آئیں اور آخروقت تک وہ لکھتے پڑھتے رہے لیکن انہوں نے کتابی صورت میں اس خودنوشت کی اشاعت کے لئے مستقل مزاجی سے کوئی اہتمام نہ کیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس خودنوشت پر نظرثانی کرنا چاہتے تھے یا غالباً وہ اس میں کچھ اضافے بھی کرنا چاہتے تھے جس کا انہیں موقع نہ ملا”
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی کا آبائی وطن بدایون تھا لیکن ان کی پیدائش 15جون 1916ء کو آگرہ میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم وکٹوریہ ہائی سکول، آگرہ مشن سکول اور اسلامیہ سکول بدایون میں حاصل کی۔ پھر وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ جہاں سے 1944ء میں انہوں نے پروفیسر رشید احمد صدیقی کی نگرانی میں پی ، ایچ، ڈی کا مقالہ مکمل کیا۔ ان کے پی، ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے کا موضوع ”لکھنؤ کا دبستان شاعری” تھا جوشعبۂ اردو مسلم یونیورسٹی کا پہلا تحقیقی کام تھا۔
زمانۂ طالب علمی میں ان کے مقالات ہندوستان کے معروف و مقبول ادبی رسائل میں شائع ہوئے۔ ان کی تصانیف میں ”مصحفی اور اس کاعہد” ۔ ”جرأت اس کا عہد اور شاعری”۔ ”نظیر اکبر آبادی اس عہد اور شاعری”۔ ”تاریخ زبان و ادب اردو”۔ ”بیسویں صدی کا اردو ادب”۔ اور مضامین کے مجموعے ”غزل اور متغزلیں”۔ ”روایت اور تجربے” اور ”ادب اور لسانیات” نمائندہ کتب شمار کی جاتی ہیں۔
ڈاکٹر ابواللیث صدیقی 1938ء سے 1948ء تک علی گڑھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچرررہے اور 1950ء سے 1956ء تک ڈاکٹر صدیقی پنجاب یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے وابستہ رہے۔ 1956ء سے 1972ء تک کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر وصدر شعبۂ اردو رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے مہمان پروفیسر کے طور پر کولمبیا یونیورسٹی (1960-1959ئ) اور سٹیو کے بنکاک آفس میں بحیثیت مشیر لسانی اور ریسرچ اسکالر کی خدمات انجام دیں۔
1972ء میں ملازمت سے سبکدوشی کے بعد کراچی یونیورسٹی نے انہیں پروفیسر ایمریطس کا اعزاز عطا کیا۔ 7 ستمبر 1994ء میں ڈاکٹر ابواللیث صدیقی انتقال فرماگئے۔
بابائے اردو مولوی عبدالحق کے حوالے سے ایک تلخ حقیقت بیان کی گئی۔ مولوی صاحب انجمن ترقی اردو کے مالک و مختار اور راہ نما تھے ان کے ادارے میں کارکنوں کااستحصال کیاجاتا تھا۔ جس کی داستانیں کتابوں میں بکھری ہوئی ہیں۔ شان الحق حقی کے والد، اختر حسین رائے پوری اور دوسرے کچھ ادیبوں کے واقعات کتابوں میں موجود ہیں۔ ایک اور واقعہ بھی دیکھ لیں۔ جسے ڈاکٹر صدیقی بیان کرتے ہیں۔
”انجمن ترقی اردو کا دفتر حیدر آباد سے منتقل ہوکر دہلی آگیا۔ اس زمانے میں جو عملہ بھرتی ہوا۔ اس میں معین الدین دردائی مرحوم بھی تھے۔ جو میرے ہم جماعت تھے۔ دردائی صاحب انجمن کے دریا گنج والے دفتر کے ایک کمرے میں کام کرتے اور اسی عمارت میں رہتے۔ کام کے اوقات اتنے تھے کہ پھر بیچارے کسی اور کام کیا۔ بات کرنے کے بھی قابل نہ رہے۔ کام کا حال یہ تھا کہ ایک مرتبہ میں علی گڑھ سے دہلی ان سے ملنے گیا۔ حسب دستور دفتر میں کام کررہے تھے۔ میں بہ مشکل چند منٹ ان کے پاس دعا سلام کیلئے گیا۔ لیکن اسی شام ایسی سخت جواب طلبی ہوئی کہ دردائی مرحوم روپڑے۔ کام کرتے کرتے ان کے گھٹنوں میں تکلیف شروع ہوگئی یہاں تک کہ وہ بالکل معذور ہوگئے۔ چند مہینے کی چھٹی دے کر رخصت کردیا گیا اور زندگی کے باقی چالیس سال اس طرح گزرے کہ نہ کھڑے ہوسکتے تھے، نہ چل سکتے تھے، نہ لیٹتے یا سوتے وقت ٹانگیں سیدھی کرسکتے تھے۔ چند سال ہوئے میں نے کوشش کرکے انہیں کراچی بلالیا تھا۔ جن لوگوں نے ان کی یہ حالت دیکھی ہوگی وہ میرے اس بیان کی تصدیق کریں گے۔ یہ بات ایسی ہے کہ کوئی یقین نہیں کرے گا۔ لیکن یہ حقیقت اور المناک حقیقت ہے۔”
ڈاکٹر صدیقی ، دردائی صاحب کے انتقال کا ذکر یوں کرتے ہیں۔
”دردائی صاحب کا انتقال اس دن ہوا جس دن بھٹو کو پھانسی دی گئی۔ شام کو چار بجے مجھے اطلاع ملی۔ مردوں میں صرف ایک چھوٹا بیٹا ان کے پاس تھا۔ سخی حسن دربار کے قربستان میں دفن کرنے کا پروگرام تھا لیکن چونکہ مرتے وقت بھی ٹانگیں سیدھی نہ ہوسکی تھیں۔ اس لئے قبر اور مردہ گاڑی دونوں کا خاص انتظام کرنا پڑا۔ جب رات کے دس بجے کے قریب چند احباب اور محلے والے انہیں دفن کرکے لوٹ رہے تھے تو مجھے معین الدین دردائی کا وہ دور یاد آرہا تھا۔ جب ان کا خاندان بہار میں زمینداروں کا گھرانہ تھا۔ اور میں اسٹیشن سے ان کے ساتھ ان کے گھر تک پالکی میں واپسی میں ہاتھی پر آیا تھا یہ استحصال کی ایسی مثال ہے جو آج تک میرے دل پر ایک داغ ہے۔ کن لوگوں نے، کس کا، کس طرح استحصال کیا۔ اس تاریخ پر بڑی شخصیتوں کے دبیز پردے پڑے ہوئے ہیں۔ ان کے بارے میں کچھ کہنے کے لئے آج بھی بڑی ہمت کی ضرورت ہے۔”
یہ بڑی شخصیت مولوی عبدالحق ہیں۔ جن کے بارے میں لوگ آج بھی لب کشائی نہیں کرتے۔ لیکن ان کے بارے میں بہت کچھ دریافت کرنے اور بیان کرنے کی ضرورت ہے۔
448صفحات کی یہ خودنوشت 71ابواب پر مشتمل ہے۔ ڈاکٹر صاحب اپنا خاندانی پس منظر باب اول ”قبیلۂ کشتگان” میں یوں بیان کرتے ہیں۔
”تو آیئے میں پہچان شروع کروں۔ میں اپنے نام کے ساتھ صدیقی لکھتا ہوں۔ یعنی حضرت ابوبکر صدیق کی آل میں ہوں۔ حضرت ابوبکر سے گیارہویں سیڑھی میں ایک بزرگ فخرالعلماء انشا عمدة المالک، ملک حمیدالدین سبزواری تھے۔ سلطان غیاث الدین بلبن کے عہد میں ان کے صاحبزادے صدرالدین ہندوستان آئے اور بدایون پہنچے۔ اس وقت بدایون کے قاضی محلے میں آج بھی وہ مسجد موجود ہے جو دادے حمید کی مسجد کہلاتی ہے۔ اسی میں قاضی حمید الدین کا مزار ہے۔ خاندانی قبرستان حوضِ قاضی کے نام سے مشہور ہے۔ چنانچہ میرے والد، والدہ اور بھائی کا مدفن بھی وہی قبرستان ہے۔
فروری 1979ء میں قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ بدایون جانے کا اتفاق ہوا۔ قاضی محلہ اب پنجابی ٹولہ کہلاتی ہے اور محلے میں مسلمانوں کا ایک گھر بھی باقی نہیں۔ اپنی ننھیال کے مکانات دیکھے، جو دیوان خانہ تھا اور جس کے دروازے پرکبھی سچ مچ ہاتھی جو جھومتا اور اب کھنڈر تھا۔ جس میں چندہندو خاندان آباد تھے۔ خود اپنا وہ مکان جو 1911ء میں میری والدہ نے بڑے شوق سے تعمیر کرایا تھا اور جس کی بارہ دری کے شیشوں سے مزین روکار، جس کا ترکی طرز کا شیش محل نما دیوان ایسے معلوم ہوتے تھے کہ جیسے روتے روتے آنکھیں خشک اور بے نور ہوگئی ہیں۔ اور جن میں روشن اور چمکدار آنکھوں کی جگہ خالی گڑھے رہ گئے ہوں۔ جو تاریخ، ماضی حال اور مستقبل پر مرثیہ خواں ہو۔ یہ عمارتیں جو کبھی امارت، دولت اور فارغ البالی کی نشانیاں تھیں آج اپنے مکینوں کو ڈھونڈتی ہیں جو ان کے وارث تھے اور آج ہزاروں میل دور ہیں۔ جن کے قدم اب ان میں کبھی نہیں آئیں گے۔”
ڈاکٹر صاحب نے اپنا ماضی خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے۔ ان کے کرب کو محسوس کیا جاسکتا ہے لیکن 1947ء ایک درد بھراانقلاب ہے جسے شاید کبھی پورے طور پر بیان نہ کیا جائے یہ بھی معمولی سا منظر ہے۔ ایک چھوٹا سا دریچہ ہے۔ جس میں ماضی کو دیکھا گیا ہے ورنہ ہر شخص ایک داستان ہے۔
ڈاکٹر صاحب پی، ایچ، ڈی کے حوالے سے ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں۔
”جب میں نے اپنا پی، ایچ، ڈی کا مقالہ ”لکھنؤ کے دبستان شاعری” مکمل کرکے پیش کیا تو اس کے جو ممتحن مقرر ہوئے ان میں نگران کی حیثیت سے پروفیسر رشید احمد صدیقی کے علاوہ مولانا حسرت موہانی، نواب صدر یار جنگ بہادر، حبیب الرحمن شیروانی اور ڈاکٹر محی الدین قادری زور شامل تھے۔ ڈاکٹر زور کا تعلق شاعری کی تنقید یا لکھنؤ سے بالکل نہ تھا لیکن انہوں نے یورپ سے پی، ایچ، ڈی کیا تھا اور یونیورسٹی والے چاہتے تھے کہ ان کے اردو کے پہلے پی، ایچ، ڈی کا ممتحن ایک ایسا شخص ہو جو یورپ میں لکھے جانے والے مقالات کی Methodology پر نظر رکھتا ہو۔ زور صاحب یہ شرط پوری کرتے تھے بہرحال زبانی امتحان کے لئے حسرت موہانی اور ڈاکٹر زور صاحب علی گڑھ تشریف لائے۔ دونوں کے لینے کے لئے ریلوے اسٹیشن پر گیا اور دونوں کو رشید صاحب کے ہاں پہنچادیا۔ اپنا تعارف قصداً نہ کرایا۔ دوسرے دن شعبے میں زبانی امتحان شروع ہوا تو میں حاضر تھا۔ زور صاحب نے رشید صاحب سے کہا۔ ”تو صاحب امیدوار کو بلایئے”۔ رشید صاحب نے میری طرف اشارہ کرکے کہا۔ ”یہ حاضر ہیں” زور صاحب نے بڑی حسرت سے مجھے دیکھ کرکہا ”آپ ہیں! میں تو مقالہ پڑھ کر سمجھا تھا کہ لکھنے والا شیروانی پہنے داڑھی رکھے، پان کھائے، لکھنوی ٹوپی پہنے ہوگا۔ آپ ”اردو” سے زیادہ ”انگریزی” نظر آئے۔”
خدا جانے ہم نے ڈاکٹر ابواللیث صدیقی اور ان کی خودنوشت کو کیوں نظرانداز کردیا۔ اس کی وجہ تلاش نہیں کی جاتی۔ ڈاکٹر صاحب نامورنقاد اور محقق تھے انہوں نے شاگرد نہیں، اردو ادب کے استاد تیار کئے۔ لیکن فراموش کرنے کی عادت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ہمیں یاد نہیں رہتا کہ اردو کا کون محسن خدمت کرکے چلا گیا اور ہمیں ان کا نام تک یاد نہیں رہتا۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ