گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔
اُلو ایک ذھین پرندہ ۔
دس سال پرانی بات ہے میں نے اپنے باغ کی باونڈری وال اور درختوں پر پرندوں کی رہائش اور بریڈنگ کے لیے لکڑی کے بکس بنوا کر نصب کر دیے۔ان بکسوں میں ہمارے روائتی پرندے گیرے ۔لالیاں۔بلبلیں۔چڑیاں۔ کالکرچھیاں وغیرہ بریڈنگ کرتیں جس کو میں مانیٹر کرتا۔ ایک دفعہ ایک درمیانی سائز کا ہلکا سفید اُلووں کا جوڑا ایک بکس میں آ دھمکا اور انڈے دے دیے۔ میں دن رات اس کی نگرانی کرنے لگا کیونکہ اُلووں کی بریڈنگ کا یہ میرا پہلا انوکھا تجربہ تھا۔ پھر مجھےیہ خیال کرنا ہوتا کہ ان پرندوں کے بچے نیچے گر پڑتے تو میں بچوں کو واپس بکس میں پہنچا دیتا۔ یہ اُلو کے بچوں کے ساتھ بھی ہوا۔پھر اُلو کے
بچے بڑے ہو کے اڑ گیے۔ اُلووں کا جوڑا دن کو سویا رہتا اور ساری رات میرے گھر کے ساتھ سڑک پر بجلی کی تاروں پر بیٹھتا۔ مجھے اس بات پر حیرت ہوتی کہ جب رات کو کوئی شخص میرے گیٹ کے سامنے آنے کی کوشش کرتا تو یہ جوڑا اس پرحملہ کر دیتا اور اس شخص کو بھگا دیتا گویا یہ میرا واچ مین بھی تھا۔ بعد میں جب دیوار دوبارہ تعمیر کی تو وہ اُلو چلے گیے مگر میں نے ان کے بچوں کی تصاویر محفوظ کر لیں۔
مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی کہ ہم اپنے بے عقل لوگوں کو اُلو یا اُلو کا پٹھا کہ کر کیوں گالی دیتے ہیں؟
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر