نومبر 3, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

علی عباس حسینی … حیات اور فن ||جاوید اختر بھٹی

مگر تمہارے ہم نام گوتم نے تو کہا تھاکہ اگر آواز ابدی ہے تو زبان سے پہلے ہی لفظ سنائی دیے جانا چاہیے کیونکہ آکاش اور ہمارے کانوں کے درمیان کو روک نہیں ہے۔ ہری شنکر نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
جاوید اختر بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر اسلم عزیز درانی معروف نقاد اور محقق ہیں۔ ان کی دس کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں سات اردو اور تین سرائیکی کی ہیں۔

اردو کتب: 1۔ ناول اور ناول نگار۔ 2۔مقدمات باغ و بہار۔ 3۔اقبال اور طالوت۔ 4۔علامہ اقبال کا خطبہ الہ آباد۔ 5۔اردو افسانے کے معمار۔ 6۔کلیات کیفی جامپوری۔ 7۔جہانگیر اور علم الحیوانات۔ سرائیکی کتب:۔ 1۔سجھ دا سینہا۔ 2۔عالمی افسانے۔ 3۔سرائیکی ناول نگاری۔ اور اب ڈاکٹر اسلم عزیز درانی کی نئی کتب ”علی عباس حسینی۔ حیات اور فن” شائع ہوئی تو بہت کچھ یاد آیا۔

ان سے انہی دنوں ملاقات ہوئی جب وہ ”علی عباس حسینی” پر پی ایچ ڈی کی تیاری کررہے تھے۔ ان دنوں درانی صاحب جامپور میں رہتے تھے۔ ان کی ملتان میں اکثر آمدورفت رہتی تھی۔ یہ وہ دن تھے جب طاہر تونسوی سے میری ملاقات رہتی تھی۔ ان کے ساتھ ہی درانی صاحب سے تعارف ہوا پھر درمیان میں برسوں کا وقفہ آیا لیکن تعلق کی گرم خوشی میں کمی نہ آئی۔ اب وہ بہت عرصے سے ملتان میں قیام پذیر ہیں۔ وہ ایک علم دوست اور مخلص انسان ہیں۔ انہوں نے کبھی کسی کے لئے کوئی برا لفظ نہیں کہا۔ ہمیشہ ہر شخص کی عزت کرتے ہیں۔ مجھے ان سے مل کر خوشی ہوتی ہے۔ ان کی گفتگو کا محور کتاب ہوتی ہے۔ وہ اردو ادب کے ہر دل عزیز استاد کے طور پر شہرت رکھتے ہیں۔

علی عباس حسینی پر ان کے مقالے کے نگران ڈاکٹر سلیم اختر تھے۔ اور یہ مقالہ بہاء الدین زکریا یونیورسٹی کے اچھے دنوں کی یادگار ہے جب ڈاکٹر اے بی اشرف شعبۂ اردو کے صدر ہوا کرتے تھے۔

اس مقالے کے پیش لفظ میں جن ادیبوں اور شاعروں کا شکریہ ادا کیا گیا ہے ان میں سے اکثر اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ جن میں احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر آغا سہیل، ڈاکٹر سید معین الرحمان، ڈاکٹر فرمان فتح پوری، ڈاکٹر عبادت بریلوی، پروفیسر نظیر صدیقی، مرزا ادیب، ڈاکٹر عبدالرئوف شیخ، عرش صدیقی، اور جون ایلیا شامل ہیں۔ اس سے مقالے کی قدامت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

صوفی غلام مصطفیٰ تبسم کے دوشعر پیش کرتا ہوں۔

اس عالم ویراں میں کیا انجمن آرائی

دو روز کی محفل ہے اک عمر کی تنہائی

پھیلی ہیں فضائوں میں اس طرح تری یادیں

جس سمت نظر اُٹھی  آواز     تری   آئی

461 صفحات کی یہ کتاب دس ابواب پر مشتمل ہے۔

١۔ حیات اور شخصیت۔ مزاج، مشاغل۔ 2۔علی عباس حسینی کے عہد کا ہندوستان۔ 3۔علی عباس حسینی سے پہلے اردو افسانہ۔ 4۔علی عباس حسینی بطور افسانہ نگار۔ 5۔علی عباس حسینی کے افسانوں میں دیہاتی زندگی۔ حسینی کے افسانوں میں ہندوستانی مسلمانوں کی معاشرت کے نقوش۔ 6۔علی عباس حسینی بطور ناول نگار۔ 7۔اردو تنقید اور علی عباس حسینی۔ 8۔ادبی شخصیت کا تنوع (طنز و مزاح۔ ڈرامہ نگاری۔ خاکہ نگاری۔ ترجمہ نگاری) 9۔علی عباس حسینی کی حقیقت پسندی اور رومانیت۔ 10علی عباس حسینی کا فن۔اردو ادب میں علی عباس حسینی کا مقام۔

علی عباس حسینی 3فروری 1897ء میں ضلع غازی پور (یوپی) میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد سید محمد صالح عربی فارسی کے جید عالم اور وسیع المطالعہ بزرگ تھے۔ اس دور کے مشہور اخبارات و رسائل ان کے ہاں باقاعدگی سے آتے تھے۔ عربی اور فارسی کی کتب کے علاوہ ان کے ذاتی کتب خانے میں سینکڑوں نادر و نایاب کتابیں موجود تھیں۔ حسینی نے بچپن ہی سے اس لائبریری سے استفادہ کیا۔ ان کے والد کی طبیعت میں نرمی تھی وہ تعلیم کے معاملے میں سختی کے قائل نہیں تھے۔

Ali-Abbas-Hussaini

حسینی کے دادا پٹنہ میں رہتے تھے۔ وہیں ان کے دادا کا انتقال ہوا۔ والد زنگی پور آگئے، یہاں ان کا زمیندارہ تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی عربی اور دینیات کی کتابیں پڑھیں۔ دس بسر کی عمر میں چچا اسحاق الحسینی کے ہمراہ پٹنہ آگئے اور یہاں مدرسہ سلیمانیہ میں داخل ہوئے۔ ان کے چچا کی خواہش تھی کہ وہ انگریزی تعلیم حاصل کریں۔ اس لئے ان کا نام مدرسہ سلیمانیہ سے کٹوا کر محمڈن سکول میں لکھوادیا گیا۔ محمڈن اسکول میں انہیں چھٹے درجے میں داخل کیا گیا۔ 1915ء میں انہوں نے الہ آباد سے میٹرک کیا۔ اس سے پہلے ان کے نام کے ساتھ حسینی نہیں لکھا گیا تھا۔ وہ صرف علی عباس تھے۔ کیونکہ وہ اپنے چچا سید اسحاق الحسینی سے متاثر تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ حسینی کا اضافہ کردیا میٹرک کے بعد انہوں نے کرسچین کالج لکھنؤ میں داخلہ لیا۔ 1917ء میں ایف اے کیا۔ بی اے کینگ کالج لکھنؤ سے کیا اور بی اے کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے اور محمڈن اینگلو تحریک کالج میں ایم اے اور ایل ایل بی کی کلاس میں داخلہ لے لیا۔

لکھنؤ میں ان کے اساتذہ میں مرزا محمد ہادی رسوا اور مولانا عبدالماجد دریابادی شامل تھے۔ علی گڑھ میں پروفیسر رشید احمد صدیقی اور ڈاکٹر ذاکرحسین ان کے استاد تھے۔ علی گڑھ میں وہ بیمار ہوگئے اور تعلیم کو ادھورا چھوڑ کر الٰہ آباد آگئے۔ اور 1920ء میں ٹریننگ کالج الٰہ آباد میں داخلہ لے لیا۔

1921ء میں ایل ٹی کا امتحان پاس کیا اور 18جولائی کو گورنمنٹ ہائی سکول رائے بریلی میں انگریزی اور تاریخ کے استاد مقرر ہوئے۔ انہوں نے پرائیویٹ طور پر 1924ء میں ایم اے تاریخ کا امتحان پاس کرلیا تھا وہ لکھنؤ کے علاوہ رائے بریلی، بارہ بنکی، غازی پور میں رہے۔ آخری چھ برس حسین آباد انٹرکالج لکھنؤ کے پرنسپل رہے۔ 1954ء میں وہ ملازمت سے ریٹائر ہوگئے۔

ان کے نامور شاگردوں میں ڈاکٹر عبادت بریلوی، پروفیسر وقار عظیم، ڈاکٹر نورالحسن سابق مرکزی وزیر تعلیم (ہند) اور حیات اﷲ انصاری شامل ہیں۔

علی عباس حسینی نے دوشادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس کا نام مہدی عباس حسینی رکھا۔ پہلی بیوی کی وفات کے بعد عقد ثانی کیا۔ دوسری بیوی کے ہاں دو بیٹے باقرعلی حسینی اور اصغر عباس حسینی اور تین بیٹیاں کشور زیدی، گیتی آراء اور نازش حسینی پیدا ہوئیں۔ ان کی تمام اولادیں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوئیں اور مختلف تعلیم اداروں سے وابستہ رہیں۔

27ستمبر 1969ء کو صبح آٹھ بج کر 25منٹ پر علی عباس حسینی انتقال کر گئے۔

حسینی نے بطور افسانہ نگار شہرت حاصل کی۔ ان کے مجموعوں کی ترتیب یوں ہے۔

1۔رفیق تنہائی۔ 2۔آئی سی ایس۔ 3۔باسی پھول۔ 4۔کچھ ہنسی نہیں ہے۔ 5۔میلہ گھومتی۔ 6۔ہمارا گائوں۔ 7۔کانٹوں کے پھل۔ 8۔ایک عورت ہزار جلوے۔ 9۔سیلاب کی راتیں۔ 10۔ندی کنارے۔ 11۔ایک حمام میں۔ 12الجھے دھاگے۔ 13۔طلسم اسرار۔

ہندی تصانیف:۔ 1۔پھولوں کی جھڑی۔ 2۔گائے امان۔ 3۔کومل نگری۔

ناول:۔ 1سرسید پاشا عرف قاف کی پری۔ 2۔شاید کہ بہار آئی۔

ڈرامہ:۔ 1۔نورتن۔ 2۔امیرخسرو

تنقید:۔ 1ناول کی تاریخ و تنقید۔ 2تذکرہ اور اردو مرثیہ۔

غیر مطبوعہ افسانوی مجموعے:۔ 1دوسری مس۔ 2۔درد بھری ہنسی۔ 3۔پیٹ کی گرمی۔

ترجمہ:۔ والڈن۔

احمد ندیم قاسمی نے ”فنون” کے شمارہ (2-1) نومبر۔ دسمبر 1969ء کے اداریہ میں علی عباس حسینی کو یوں خراج تحسین پیش کیا۔

”علی عباس حسینی اردو کے ان افسانہ نگاروں کی صف میں شامل تھے۔ جنہوں نے منشی پریم چند کے سے استادِ فن کے دور میں بھی اپنے فن کا لوہا منوالیا۔ ساتھ ہی ایک وسیع النظر نقاد بھی تھے اور اردو ناول کے موضوع پر انہوں نے جو کچھ لکھا وہ اردو کے تنقیدی ادب کا سرمایہ ہے۔”

جاوید اختر بھٹی کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author