نومبر 16, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

جشن آزادی 14 اگست کو یا 15 اگست کو ؟|| ارشاد رائے

آنے والے چودہ اگست 2021 کو میرے جنت نظیر وطن پاکستان کی 74ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے کیا اس موقع پر خوشی کے ترانے گاۓ جائیں ،

ارشادرائے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آنے والے چودہ اگست 2021 کو میرے جنت نظیر وطن پاکستان کی 74ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے کیا اس موقع پر خوشی کے ترانے گاۓ جائیں ، دھمالیں ڈالی جائیں شادیانے بجاۓ جائیں چراغاں کیا جاۓ کہ ہمیں غلامی سےرست گاری پاۓ ہوۓ چوہتر برس پورے ہو رہے ہیں
کیوں ؟ کیا ہمیں آزادی کے شادیانے نہیں بجانے چاہیں خوشی کے ترانے نہیں گانے چاہیں آزادی افراد اور قوم کی آبرو مندی روحوں کی خرسندی بستیوں اور شہروں کی آئینہ بندی ہے مگر کیا ہم اس تقریب سعید پر خوشی منانے کاادنی سا حق بھی رکھتے ہیں آزادی ہمارے لیے پانچ حروف کے مجموعے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی حرفوں کا یہ مجموعہ کیا ہمارے اندر کسی خوش آئند اور خوشگوار احساس کو بیدار کرتا ہے؟
اس سوال کا دل شکن جواب یہ ہے کہ “ نہیں” افسوس کہ ہم حرفوں سے کسی کیف آگیں حالت میں نہیں آسکتے لفظوں سے جی نہیں بہلا سکتے ہم لاکھ چراغاں کرلیں اس سے کچھ نہیں ہوتا آزادی کا لفظ نہ ہمارے اندر کوئی کیفیت پیدا کرتا ہے اور نہ باہر ۔ بات یہ ہے کہ دل کیا محسوس کرتے ہیں گلیاں کیا کہتی ہیں حالات کیسے ہیں شاہراہیں کیا جتاتی ہیں اور چوراہے کیا دہراتے ہیں ہم نے ان چوہتر برس میں اس کے سوا کیا ہی کیا ہے کہ ایک لفط “ آزادی” کو مہمل کر دیا ہے
میں ان چوہتر برس کی تاریخ کی مشعل پکڑ کر ماضی کی سیاحت کو نکلتا ہوں تو راستے میں نفرت کی بارودی سرنگیں بچھی ہوئی ملتی ہیں تاریخ کے جن صفحوں پر وفا اور محبت کا ذکر تھا بچوں کی سچی مسکراہٹ جیسے لطیف احساس کا تذکرہ تھا مامتا کی تڑپ اور قربانی کے حسن کا بیان تھا پھولوں پرندوں تتلیوں اور دھنک کی تصویر کشی تھی جگنوؤں کی روشنی اور کوئل کی کوک تھی دکھ سکھ میں ساتھ جینے ساتھ مرنے کے عہدوپیمان تھے ، رومانوی شاعری کا طلسم اور غزل کا حسین بیان تھا امن کی فاختاؤں کے گیت تھے ان سب کے سب صفحات کو پھاڑ کر جلا دیا گیا اور صرف اور صرف بغض و عناد جنگ وجدل زمین بوس ہوتی عمارتوں کے گردوغبار ملبوں میں دبی آخری سانس لیتی لاشوں کی چیخیں ، بم دھماکوں اور بارود کی بو سے گھٹن زدہ فضا ، اے پی ایس جیسے رونما ہوتے واقعات قبرستانوں میں حوا کی بیٹی کی لاشوں سے جنسی حوس اور بے حرمتی ، نسلوں کے مردہ ضمیر ، حسد اور خون ، خامشی کا زہر پئیے آہٹوں کی آس لیے اونگھتی گلیاں ،رزق کا قحط ، عقیدوں اور جنتریوں کے آہنی سلاخوں والے زندانوں میں اسیرومقید انسانیت ، غربت و افلاس سے بدحال چہرے ،قابیل جیسے بھائی اور دوست ، انسانی اعضا اور اور لہو سے بھری مسجدیں اور کم سن بچوں سے درندگی والے صفحات رہنے دیے گۓ
سب سے بڑی بدبختی اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ آزادی کی تاریخ کو بھی مسخ کر دیا گیا ان چوہتر سالوں میں قوم کو آزادی کی اصل تاریخ سے بھی آگاہ نہیں کیا گیا ہم اپنی یوم آزادی چودہ اگست جبکہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا ہمسائیہ ملک انڈیا اپنا یوم آزادی پندرہ اگست کو مناتا ہے تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب دو ملک ایک ساتھ ایک ہی دن آزاد ہوۓ تو پھر ان کے یوم آزادی میں ایک دن کا فرق کیسے ممکن ہے پاکستانی تاریخ اور بزرگ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان رمضان کی ستائیس کو آزاد ہوا اور اس دن جمعتہ المبارک کا دن تھا پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس دن چودہ اگست 1947 ء کی تاریخ تھی اور ہم اپنے ساتھ آزاد ہونے والے ملک سے ایک دن بڑے ہیں
لیکن جب ہم چودہ اگست 1947 کی تقویم دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس دن تو جمعرات تھی اور ہجری تاریخ کے لحاظ سے بھی ستائیس نہیں چھبیس رمضان بنتی ہےاور پھر جب ہم پاکستان کے پہلے ڈاک ٹکٹ دیکھتے ہیں جو پاکستان کی آزادی کے گیارہ ماہ بعد نو جولائی 1948 کو جاری ہوۓ ان ڈاک ٹکٹوں پر بھی واضح طور پر پاکستان کا یوم آزادی پندرہ اگست 1947 طبع ہے اس سلسلے میں سب سے اہم دستاویز 1947 Indian independents act جسے برطانوی پارلیمان نے منظور کیا اور جس کی توثیق شہنشاہ برطانیہ جارج ششم نے اٹھارہ جولائی 1947 کو کی اس قانون کی ایک نقل پاکستان کے سیکریٹری جنرل چوہدری محمد علی جو بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بھی رہے ہیں نے 24جولائی 1947 کو قائد اعظم کو ارسال کی یہ قانون 1983 کو حکومت برطانیہ کی شائع کردہ دستا ویز The transfer of power کی جلد 12کے صفحہ 234 پر اور اس کا ترجمہ قائد اعظم پیپرز پروجیکٹ کیبنٹ ڈویژن حکومت پاکستان اسلام آباد کے شائع کردہ جناح پیپرز کے اردو ترجمے کی جلد سوم کے صفحہ 45 سے صفحہ 72 تک ملاحظہ کیا جا سکتا ہے اس قانون میں واضح طور پر درج ہے “15 اگست 1947 سے برطانوی انڈیا میں دو آزاد فرماں روا مملکتیں قائم کی جائیں گی جو بالترتیب انڈیا اور پاکستان کے نام سے موسوم ہوں گی تو پھر سمجھ سے بالا تر ہے کہ 14 اگست کو ہم پاکستان کی یوم آزادی کی سالگرہ کیسے اور کیونکر مناتے ہیں اور مجھے کوئی اس مخمصے سے نجات دلاۓ کہ ہم جشن آزادی کے ترانے گائیں دھمالیں ڈالیں چراغاں کریں اور کریں توچودہ اگست کو کریں یا پندرہ اگست کو

یہ بھی پڑھیے:

منجھلے بھائی جان کی صحافت۔۔۔ وجاہت مسعود

ایک اور برس بڑھ گیا زیاں کے دفتر میں۔۔۔وجاہت مسعود

وبا کے دنوں میں بحران کی پیش گفتہ افواہ۔۔۔وجاہت مسعود

اِس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔۔۔وجاہت مسعود

ارشاد رائے کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author