نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لاطینی امریکہ کا ایک بہت بڑا لکھاری تھا۔نام تھا اس کا گبرائیل گارسیا مارکوئز۔ اس کے دوست اور مداح اسے محبت سے ’’گابو‘‘ پکارتے تھے۔گابو نے دور حاضر کے حقائق کو ایسے انداز میں بیان کرنے کا ہنر دریافت کیا جو زمانہ قدیم میں طلسماتی داستانیں بیان کرنے کو اپنایا جاتا تھا۔اس کی دریافت کو Magical Realismپکارا گیا۔اردو میں غالباََ طلسماتی حقیقت پسندی کہا جاسکتا ہے۔
گابو کا ہنر مگر آج کے کالم کا موضوع نہیں۔اس کے ذکر کی وجہ حال ہی میں شائع ہونے والی ایک کتاب ہے جو اس کے بیٹے نے لکھی ہے۔اس کتاب میں تفصیل سے بیان ہوا ہے کہ اپنی موت سے کئی برس قبل گابو اپنی یادداشت سے بتدریج محروم ہونا شروع ہوگیا تھا۔ڈاکٹر نے جب اس کے مرض کی پہلی بار نشاندہی کی تو گابو گھبرا گیا۔نہایت بے بسی سے اپنے بیٹے کے سامنے دہراتا رہا کہ اس کی یادداشت ہی تووہ خام مال فراہم کرتی ہے جو اس کے شہرئہ آفاق ناولوں کی تخلیق کا سبب ہوا۔یادداشت کی قوت سے محروم ہوکر وہ بقیہ زندگی کیسے بسرکرسکتا ہے۔یادداشت کھودینے کے باوجود تاہم وہ کئی برس تک زندہ رہا اور اس کی بیوی اور بچے قصے کہانیوں سے مالا مال ذہن کے اجاڑ ہوجانے کے بعد گابو کی خاموشی اور تنہائی کو اذیت ناک صدمے کی صورت طویل عرصے تک بردداشت کرتے رہے۔
شہروں اور قصبوں کو طالبان سے ’’آزاد‘‘ کروانے کے لئے امریکہ اور افغانستان کے طیاروں کے ذریعے ہوئی بمباری فقط جنگجوئوں ہی کو نشانہ نہیں بناتی۔ہسپتال،بازار اور گلیوںمیں بہت چائو سے بنائے کئی گھر بھی فضائی بمباری کی وجہ سے آناََ فاناََ کھنڈروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔طالبان کی پیش قدمی اور ان کے مخالفین کی جانب سے ہوئی فضائی بمباری شہروں اور قصبوں کو جس تیزی سے ویران اور کھنڈروں میں بدل رہی ہے اس کا سرسری تذکرہ ریگولر میڈیا پر یقینا ہوتا ہے۔انسانی اذیتوں کی تفصیلات بیان کرنا مگر برسرزمین جائے بغیر ممکن ہی نہیں۔
یمن اور شام میں افغانستان جیسی خانہ جنگی کئی برسوں سے جاری ہے۔حتمی ’’فاتح‘‘ کا مگر فیصلہ نہیں ہوپایا ہے۔اپنی ’’فتح‘‘ کو یقینی بنانے کے لئے خانہ جنگی میں مصروف فریقین نے مگر لاکھوں شہریوں کو دربدر کردیا ہے۔کم عمر بچے اور بچیاں فاقہ کشی کی وجہ سے محض ہڈیوں کے ڈھانچے بن چکے ہیں۔دربدر ہوئے شہریوں اور فاقہ کشی کی وجہ سے زندگی کی خوشیوں اور امکانات سے محروم ہوئے بچوں کا مگر کوئی والی وارث نہیں۔ سوشل میڈیا پر حاوی ہوئے تماش بینوں کو ان کے مصائب کی بنیادی آگاہی بھی میسر نہیں۔ سنا ہے کہ دونوں عالمی جنگوں کے دوران یورپ کے بیشتر شہر بھی آج کے افغانستان،شام یا یمن کی طرح نظر آتے تھے۔ اپنی جبلت میں موجود سفاکی کا اشرف المخلوقات کہلاتے انسان اجتماعی طورپر مگر کوئی علاج ابھی تک ڈھونڈنہیں پائے ہیں۔
۔
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر