ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگست جہاں آزادی اور خوشی کا مہینہ ہے وہاں اس سے تلخ یادیں بھی وابستہ ہیں ۔یہی دن تھے جب 1947ء کو خون آشام قافلے انڈیا سے آ رہے تھے ، تاریخ انسانیت کا بدترین ظلم مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا تھا مگر دنیا خاموش تھی ، ظالموں نے ظلم کی انتہا کر دی مگر مقامی افراد نے بھی ایثار و قربانی کی نئی تاریخ رقم کی ۔تمام حالات و واقعات کی نئے سرے سے تاریخ رقم کرنے کی ضرورت ہے حکمرانوں کی توجہ ایک اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانا چاہتا ہوں ،
وہ مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والے مقامی لوگوں کو شکایت ہے کہ ان کی خدمات کا کہیں بھی تذکرہ نہیں کیا جاتا۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ 1947ء میں سب سے بڑا مسئلہ انتقال آبادی تھا۔ آزادی کے بعد دونوں حکومتوں نے تبادلہء آبادی کی سکیم تیار کی لیکن غیر دانشمندی کا ثبوت یہ دیا گیا کہ انتقال آبادی کا محفوظ پلان تیار نہ ہو سکا ،
پھر دونوں ملکوں میں اس طرح کے حالات پیدا کر دیئے گئے کہ دونوں طرف سے لاشیں گرنے لگیں ۔ ہندوستان خصوصاً مشرقی پنجاب سے سب سے زیادہ مہاجرین آئے ،ایک اندازے کے مطابق 70 لاکھ آبادی کا ہندوستان سے انخلاء ہوا ۔ پناہ گزینوں کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ سپین سے تین لاکھ مسلمانوں کو وطن چھوڑنا پڑا۔
روس اور جرمنی سے 70 ہزار یہودی نکالے گئے اور فلسطین سے ڈیڑھ لاکھ مسلمان ملک بدر ہوئے ۔ پاکستان سے جانیوالے ہندوؤں کی تعداد ہندوستان سے آنے والے مسلمانوں کے مقابلے میں کم تھی ۔ جب انتقال آبادی ہوا تو ایک بوڑھی عورت نے بڑی بات کی کہ ’’ بادشاہ بدلتے سب نے دیکھے ، رعیت بدلتے ہم نے پہلی مرتبہ دیکھی ۔ ‘‘ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ یوم آزادی کے موقع پر ضروری ہے کہ آزادی کے حالات و واقعات کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے اور مقامی افراد کی قربانیوں کا تذکرہ بھی نصاب اور تاریخ کی کتب میں شامل کیا جائے ، آج نئے مکالمے اور نئے بیانیے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے ۔
یوم آزادی کے موقع پر بھارت سے مہاجرین کی ہجرت کے واقعات اور ہجرت کے نتیجے میں پیش آنے والے مصائب و آلام کا تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے ، جو کہ اچھی بات ہے ۔ لیکن بات مصائب کے بند پر ختم کرنے کی بجائے اس سے اگلی بات بھی بتائی جائے کہ جب مسلم مہاجرین ہندوستان سے خون کے دریاعبور کر کے پاکستان پہنچے تو مقامی لوگوں نے ان سے کیسا برتاؤ کیا، ان کے ساتھ حسن و سلوک سے پیش آئے یا اغیار والا معاملہ تھا ؟
اگر مقامی لوگوں کا رویہ ایثار و قربانی والا تھا تو پھر اس کا اعتراف مقامی آبادی کی تہذیب ،ثقافت اور زبان سے مانوسیت اور جذب پذیری کی صورت میں آنا چاہئے اور یوم آزادی کے تذکروں میں مہاجرین کی مشکلات کے ساتھ انصار کے ایثار کا تذکرہ عنقا نہیں ہونا چاہئے۔ پاکستان کی تاریخ پر غور کریں تو قیام پاکستان کیلئے عام آدمی کی خدمات سب سے زیادہ ہیں ،
جاگیردار آخر وقت تک انگریز کے ساتھ رہے اور بیورو کریسی نے بھی 13 اگست 1947ء کی تنخواہ انگریز سے وصول کی ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ 1906ء میں مسلم لیگ بنگال میں قائم ہوئی اور سندھ اسمبلی نے قیام پاکستان کی قرارداد منظور کی ، سب کی خدمات کا ذکر ہونا چاہئے ۔ گزشتہ دو دنوں میں شائع ہونے والے میرے کالموں پرمیرے مہربان بزرگ صحافی چوہدری خالدمحمود صاحب آف فورٹ عباس ضلع بہاولنگر نے حوصلہ افزائی کے ساتھ خوبصورت بات کی کہ پاکستان غریبوں نے بنوایا مگر آج سب سے زیادہ ظلم بھی غریبوں پر ہو رہا ہے ۔
ان کا کہنا ہے کہ کہ قائد اعظم نے فرمایا تھا ’’ ایمان ، اتحاد، تنظیم‘‘ اور ریڈیو کا ماٹو ’’ قولو اللناس حسنا‘‘ تھا، محکمہ ڈاک نے ’’خدمت، دیانت، امانت ‘‘ کا مونو گرام پیش کیا تھا مگر یہ سب باتیں اب نعروں کی حد تک رہ گئی ہیں ۔ انڈیا سے خون کے دریا غریبوں نے عبور کئے مگر منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے۔
فیض احمد فیض ہماری قومی تاریخ کا بہت بڑا حوالہ ہیں ، ان کی شاعری غریب کی پکار ہے ، تجدید عہد کے موقع پر ان کی نظم اس درخواست کے ساتھ پیش کر رہاہوں کہ ریاست مدینہ کے دعویدار اس پر ضرور غور کریں ۔ جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں جس دیس سے قاتل غنڈوں کواشراف چھڑا کر لے جائیں جس دیس کی کورٹ کچہری میں انصاف ٹکوں پر بکتا ہو
جس دیس کا منشی قاضی بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو جس دیس کے چپے چپے پر پولیس کے ناکے ہوتے ہوں جس دیس کے مندر مسجد میں ہر روز دھماکے ہوتے ہوں جس دیس میں جاں کے رکھوالے خود جانیں لیں معصوموں کی جس دیس میں حاکم ظالم ہوں سسکی نہ سنیں مجبوروں کی جس دیس کے عادل بہرے ہوں آہیں نہ سنیں معصوموں کی جس دیس کی گلیوں کوچوں میں ہر سمت فحاشی پھیلی ہو جس دیس میں بنت حوا کی چادر بھی داغ سے میلی ہو جس دیس میں آٹے چینی کا بحران فلک تک جا پہنچے جس دیس میں بجلی پانی کافقدان حلق تک جا پہنچے جس دیس کے ہر چوراہے پردو چار بھکاری پھرتے ہوں جس دیس میں روز جہازوں سے امدادی تھیلے گرتے ہوں جس دیس میں غربت ماؤں سے بچے نیلام کراتی ہو جس دیس میں دولت شرفاء سے نا جائز کام کراتی ہو
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر