دسمبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

وہ شان سلامت رہتی ہے|| آفتاب احمد گورائیہ

لیفٹ کی سیاست اور لیفٹ کا راستہ آسان نہیں ہوتا یہ بات پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنان بڑی اچھی طرح جانتے ہیں لیکن درست راستہ یہی ہے، یہ بات بھی قیادت اور کارکنان بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں

آفتاب احمد گورائیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخ جہاں ملک و قوم کے لئے سرانجام دئیے گئے کارناموں سے بھرپور ہے وہاں جمہوریت کے لئے پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنان کی جانب سے دی جانے والی عظیم الشان قربانیاں بھی اپنی مثال آپ ہیں۰ پاکستان کی کوئی اور سیاسی جماعت نہ تو ایسا تابناک ماضی رکھتی ہے اور نہ کسی کے پاس پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالوں جیسے بہادر اور نڈر کارکن موجود ہیں۰

اسی طرح پاکستان پیپلزپارٹی کی تاریخ جہاں قیادت کی جانب سے دی جانے والی بے مثال قربانیوں سے بھری پڑی ہے وہاں پیپلزپارٹی کےکارکنوں نے بھی پھانسیاں، کوڑے، تشدد اور قید و بند کو ہنس کر جھیلا ہے۰ کسی دوسری سیاسی جماعت کی قیادت اور کارکنوں کی جانب سے ایسی قربانیوں کی نظیر نہیں ملتی۰ پاکستان پیپلزپارٹی کے جیالے کارکنوں نے جرات و بہادری کی جو تاریخ رقم کی ہے اس چھوٹی سی تحریر میں اس کا احاطہ کرنا ناممکن ہے۰ سیاسی تحریکوں میں کارکنوں کی جانب سے قید و بند کا سامنا کرنا تو ایک معمول کی بات سمجھی جاتی ہے لیکن پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جس کے کارکن نعرے لگاتے اور بھنگڑے ڈالتے ہوئے پھانسی کے پھندوں پر جھول گئے، پیپلزپارٹی ہی وہ واحد جماعت ہے جس کے کارکنوں نے خودسوزیاں کیں اور پروانوں کی طرح جل کر جماعت اور نظریے کے ساتھ اپنی محبت کا لازوال ثبوت دیا۰ شاہی قلعے میں بدترین تشدد اور کوڑے کھانے کی مثال بھی سوائے پیپلزپارٹی کےجیالوں کے کسی اور جماعت کے پاس نہیں ملے گی۰ وطن کی محبت، جمہوریت کی سربلندی اور اپنی جماعت سے وفاداری کے نتیجے میں قربانیاں پیش کرنے والے کارکنوں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۰

آج چھ اگست کا دن ہمیں پیپلزپارٹی کے دو عظیم جیالوں عثمان غنی اور ادریس طوطی کی اس عظیم الشان قربانی کی یاد دلاتا ہےجب چھ اگست 1984 کو اُس وقت کے بدترین آمر جنرل ضیا نے ان دو بہادر جیالوں کو بحالی جمہوریت کی جدوجہد کی پاداش میں پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا تھا۰ پھانسی کے وقت عثمان غنی کی عمر صرف اکیس سال تھی۰ جنرل کے ایم عارف جو اس وقت شائد وائس چیف آف آرمی سٹاف تھے انہوں نے جنرل ضیا سے سفارش کی کہ کم عمری کی وجہ سے عثمان غنی کی سزائے موت کوعمر قید میں بدل دیا جائے لیکن آمر ضیا نے یہ کہہ کر اپنا فیصلہ بدلنے سے انکار کردیا کہ میں عثمان غنی کو نہیں بلکہ پیپلزپارٹی کو پھانسی پر چڑھا رہا ہوں۰ اس واقعہ کے تقریباً چار سال بعد اگست ہی کے مہینے میں آمر ضیا طیارے کے حادثے میں لقمہ اجل بن کر اپنے انجام کو پہنچ گیا، آج اس کا کوئی نام لیوا ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۰ آمر ضیا کے سیاسی وارث بھی آج اس کا نام لینا پسند نہیں کرتے لیکن پیپلزپارٹی آج بھی موجود ہے اسے نہ آمر ضیا پھانسی پر چڑھا سکا اور نہ اس کے بعد آنے والے اس کے سیاسی وارث یا آمر پھانسی چڑھا سکے۰

یہاں ان جیالوں کی پارٹی قیادت کے ساتھ بے لوث محبت کا ایک واقعہ بیان کئے بغیر ان شہدا کا ذکر مکمل نہیں ہو سکتا۰ عثمان غنی نے لواحقین سے اپنی آخری ملاقات میں سگریٹ کے پیکٹ کے اندر موجود چمکیلے کاغذوں سے بنا ہوا ایک تاج ان کے حوالےکیا اور وصیت کی کہ جب محترمہ بینظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد وطن واپس آئیں اور پھر میری تعزیت کے لئے میرے گھر تشریف لائیں تو یہ تاج اُن کو پہنایا جائے۰ محترمہ بینظیر بھٹو جلاوطنی سے واپسی کے بعد جب عثمان غنی کے گھر تشریف لے گئیں تو عثمان غنی کی وصیت کے مطابق یہ تاج محترمہ بینظیر بھٹو کو پہنایا گیا۰

عثمان غنی پیپلزپارٹی لاہور کی بہادر جیالی شاہدہ جبیں کے بھائی جبکہ خواجہ معین الدین سید صدر ہیومن رائٹس ونگ یوکے جو کہ خودبھی آمر ضیا کے دور میں پاکستان بھر کی جیلوں میں پابند سلاسل رہے اور ہر طرح کی ظلم و بربریت کا سامنا کرتے رہے عثمان غنی اور شاہدہ جبیں کے برادر نسبتی ہیں۰ جمہوریت اور پارٹی کے لئے اس پورے خاندان کی قربانیاں پیپلزپارٹی کی تاریخ کا حصہ ہیں۰

چھ اگست کا دن جہاں ہمیں عثمان غنی اور ادریس طوطی کی عظیم قربانی کی یاد دلاتا ہے وہیں چھ اگست کا دن ہمیں ان شہدا کی قربانیوں کے نتیجے میں برسر اقتدار آنے والی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کی آمر ضیا کی باقیات کے ہاتھوں جبری برطرفی کی یاد بھی دلاتا ہے جب چھ اگست 1990 کو صدر غلام اسحاق خان نے بیک جنبش قلم محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی حکومت کو گھر بھیج کر ایک بارپھر آمر ضیا کی باقیات کے اقتدار کی راہ ہموار کر دی تھی۰

پاکستان پیپلزپارٹی کو قائم ہوئے پچاس سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس دوران پیپلزپارٹی کو صرف چودہ پندرہ سال کا اقتدار حاصل ہو سکا جبکہ باقی تمام عرصہ پیپلزپارٹی یا تو آمروں کے خلاف جدوجہد کرتی رہی یا ان آمروں کی باقیات کے خلاف۰ پاکستان میں آج بری بھلی جیسی بھی جمہوریت موجود ہے وہ پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنوں کی عظیم الشان قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے۰ ہر آمر نے پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی لیکن پیپلزپارٹی کے بہادر اور نڈر کارکن ہر دفعہ ان کوششوں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئے۰ پیپلزپارٹی کی قیادت دو دفعہ چھین لی گئی لیکن پیپلزپارٹی کو ختم نہ کیا جا سکا۰ پیپلزپارٹی آج بھی بلوچستان کےسنگلاخ پہاڑوں، سندھ اور پنجاب کے صحراؤں اور میدانوں سے لے خیبرپختونخواہ کی بلند چوٹیوں اور میدانوں سے لے کر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے برف پوش پہاڑوں اور دور دراز مقامات تک موجود ہے اور غیر جمہوری قوتوں کو کھٹک بھی رہی ہے۰

پیپلزپارٹی کا کارکن تمام تر مشکلات اور مصائب کے باوجود آج بھی پوری طاقت کے ساتھ اپنی جماعت اور نظریے کے ساتھ اسی طرح جڑا نظر آتا ہے جیسے 1967 میں پیپلزپارٹی کے قیام کے وقت جڑا تھا۰ پیپلزپارٹی آج بھی واحد سیاسی جماعت ہے جو ایک نظریے پر قائم ہے یہی وجہ ہے کہ تمام تر مشکلات اور دو دفعہ قیادت چھن جانے کے باوجود پیپلزپارٹی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۰ پیپلزپارٹی کا کارکن جانتا ہے کہ جمہوری اور نظریاتی جماعتوں کا راستہ آسان نہیں ہوتا کیونکہ مقابلہ میں موجود آمرانہ اور غیرجمہوری قوتوں کو ہر طرح کی ریاستی طاقت میسر ہوتی ہے جبکہ جمہوری اور نظریاتی جماعتوں کا واحد سہارا عوامی طاقت ہوتی ہے۰

لیفٹ کی سیاست اور لیفٹ کا راستہ آسان نہیں ہوتا یہ بات پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنان بڑی اچھی طرح جانتے ہیں لیکن درست راستہ یہی ہے، یہ بات بھی قیادت اور کارکنان بڑی اچھی طرح سمجھتے ہیں۰ یہی وجہ ہے کہ کوئی بھی آمر کوڑوں، پھانسیوں، قید و بند اور ہر طرح کے ظلم و تشدد کے باوجود پیپلزپارٹی کی قیادت اور کارکنان کو شکست نہیں دے سکا اور ہر آزمائش سے پیپلزپارٹی سرخرو ہو کر ہی نکلی ہے۰

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے

یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

Twitter: @GorayaAftab

پی ڈی ایم کا ملتان جلسہ ۔۔۔آفتاب احمد گورائیہ

تحریک کا فیصلہ کُن مرحلہ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

About The Author