گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ پاک نے جب یہ کائنات بنائی تو انسان کے لیے کائنات کو ایک خاموش کتاب بنا دیا جس کے ہر صفحہ پر ایک سبق لکھا ہوا ہے ۔ اللہ کے ان کلمات کے الفاظ ہیں تو خاموش زبان میں مگر ہر شخص کو دعوت فکر دے رہے ہیں کہ وہ اس رمز کو سمجھے اور زندگی کی دوڑ میں آگے نکلے۔دنیا میں اس وقت سات ارب سے زیادہ انسان بستے ہیں ۔یہ تمام انسان ایک خاص جسم کے گفٹ کے ساتھ پیدا کیے گیے ہیں۔ ہر شخص کو دو ہاتھ دو آنکھیں۔ دو کان ۔ایک زبان اور دماغ دیا گیا ہے مگر آخر وہ کونسی چیز ہے کہ بعض قومیں دنیا میں آسائش اور امن کی زندگی گزار رہی ہیں جبکہ انہیں صفات کی حامل دوسری قومیں ذلت کی زندگی گزار رہی ہیں۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ جو لوگ کا ئنات کے خاموش رازوں کو سمجھ کر پڑھ رہے ہیں وہ آگے جا رہے ہیں۔ اور جو اغماز برت رہے ہیں وہ پسماندگی کے گڑھوں میں پڑے رہینگے.
رات کے بعد صبح کا آنا آدمی کو یہ پیغام دے رہا ہے کہ اس دنیا میں ہر ناخوشگوار صورت حال کے بعد اپنے آپ ایک نئی خوشگوار صورت حال آپکے سامنے آ رہی ہے۔ سورج اس پیغام کے ساتھ طلوع ہوتا ہے کہ اگر تم لوگوں کے درمیان محبوب بننا چاہتے ہو تو لوگو ں کے درمیان نفع بخش بن کر زندگی گزارو۔ ہرے بھرے درختوں میں یہ پیغام چھپا ہوا ہے کہ مٹی جیسی خشک چیز سے درخت اور پھول جیسی ایک پر بہار چیز وجود میں آ سکتی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہمارے پہلو میں بہتا ہوا شیر دریا سندھ یہ پیغام دے رہا ہے کہ دنیا میں کوئی بھی رکاوٹ تمھارا راستہ روکنے والی نہیں بشرطیکہ تمھارے اندر رکاوٹوں کے باوجود اپنا سفر جاری رکھنے کی صلاحیت موجود ہو ۔ چڑیوں کو دیکھیے یہ کتنا چھوٹا وجود رکھتی ہیں۔ نہ ان کے پاس ٹھنڈے پانی کے ریفریجریٹر ہیں نہ ڈیرہ کی 50ڈگری سینٹی گریڈ گرمی سے بچنے کے لیے ایر کنڈیشن ہیں۔ نہ بجلی نہ پنکھے ہیں لیکن یہ اپنے آدھی چھٹانک جیسے وجود کو برقرار رکھے ہوۓ ہیں ۔نہ واپڈا کی شکایت نہ مہنگائی کا گلہ نہ ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کا شکوہ ۔ رات کو یہ درختوں کی ٹہنیوں پر سو جاتی ہیں ۔کبھی کبھی میرے سامنے رات کو تیز بارش ہو جاتی ہے بڑے بڑے اولے پڑنے لگتے ہیں طوفانی ہوائیں چلتی ہیں بجلی ایسے کڑکتی ہے کہ ہمارا دل دہل جاتا ہے کئی درخت جڑوں سے اکھڑ جاتے ہیں ۔ ان کے آشیانے بکھر جاتے ہیں۔مگر یہ سب کچھ خاموشی سے برداشت کر جاتی ہیں۔ان ٹوٹی ہوئی ٹہنیوں اور بکھرے ہوۓ آشیانوں کے باوجود جب صبح کی پو پھٹتی ہے وہ اپنے رب کی عبادت نہیں بھولتیں۔جونہی سویرا شروع ہوتا ہے تو چڑیاں چہچہانا شروع کر دیتی ہیں ۔اس طرح چڑیاں ہمیں پیغام دے رہی ہوتی ہیں کہ غموں اور دکھوں کی رات جیسے تیسے کٹ گئی اب خوشیوں اور نئی امنگوں کے ساتھ اپنے بستر سے اٹھ جاو اور دن کی روشنی میں بھرپور طور پر اپنی کوشش جاری رکھو۔ ان چڑیوں۔درختوں۔دریاوں کو یہ فوقیت اس لیے حاصل ہے کہ وہ تواضع کو اختیار کیے بیٹھے ہیں وہ بڑائی ۔غرور۔انتقام۔لڑائی۔جھگڑے۔جنگوں سے دور رہتے ہیں۔آپ ماونٹ ایورسٹ اور K2 کی پہاڑ کی بلند ترین چوٹیوں کو دیکھیں۔ایورسٹ کی چوٹی زمین سے ساڑھے پانچ میل اوپر ہے۔ یہ پہاڑ اللہ نے زمین کا توازن قایم کرنے کے لیے بناۓ ہیں۔ یہ خدمت کے لیے ہیں بڑائی اور فخر کے لیے نہیں بنائے گیے۔اب یہ تمام مظاہر قدرت ہمیں تواضع کا سبق سکھا رہے ہیں۔ آپ کو برداشت۔جہد مسلسل۔خدمت۔امن ۔سکون۔اور ہر مشکل چیلنج سے پر امن انداز میں دانشمندی سے مقابلہ کرنے کا سبق دے رہے ہیں ۔انسان کی زندگی میں کٹھن دن بھی آتے ہیں اور راتیں بھی تپتے صحرا بھی عبور کرنے پڑتے ہیں اور برف پوش پہاڑ بھی۔۔زندگی کا سفر جاری رہتا ہے اور وہی لوگ کامیاب ہیں جو گرنے کے بعد کھڑا ہونا سیکھ لیں۔۔فرحت عباس کے شعر یاد آتے ہیں۔؎
جلتی بجھتی دھوپ میں سرد ہوا میں رہنا سیکھ لیا۔۔۔
اُس سے بچھڑ کے ہجر کا اِک اِک موسم سہنا سیکھ لیا۔۔۔
ساحل ساحل ٹکرا کے جب چُور ہوئے تو ہم نے بھی۔۔۔
دریا کی لہروں میں لہریں بن کر بہنا سیکھ لیا۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر