طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے درمیان تین دن سے جاری شدید لڑائی میں کم از کم 27 بچے جاں بحق ہوگئے۔
اقوام متحدہ کے مطابق یہ 27 اموات افغانستان کے تین صوبوں قندھار، خوست اور پکتیا میں ریکارڈ کی گئی ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق ان علاقوں میں گزشتہ تین دن کے دوران تقریباً 136 بچے زخمی بھی ہوئے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کے مطابق اب تک مجموعی طور پر افغانستان کے چھ صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں
جن میں ایبک، قندوز، سرِ پُل، تالقان، شبرغن اور زرنج شامل ہیں جبکہ کئی مقامات پر حکومتی فورسز اور طالبان میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ ’بچوں کے خلاف سنگین خلاف ورزیوں میں تیزی سے اضافے‘ سے ادارے کے خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔
سوموار کو ایک بیان میں یونیسیف نے کہا ہے کہ بچوں کے خلاف ہونے والے مظالم ’دن بہ دن بڑھ رہے ہیں۔‘
یونیسیف کی افغاستان سے متعلق نمائندہ سمینتھا مورٹ نے کہا ہے کہ
’افغانستان ایک طویل عرصے سے بچوں کے لیے زمین پر بدترین جگہ ہے
لیکن گذشتہ 72 گھنٹوں میں صورتحال پہلے سے بھی بدتر ہوگئی ہے۔‘
بچے سڑک کنارے نصب بموں اور فریقینں کے درمیان فائرنگ کے واقعات میں ہلاک ہو رہے ہیں۔
ایک ماں نے یونیسیف کو بتایا کہ وہ گھر پر سو رہے تھے جب بم کے ٹکڑے ان کے گھر پر لگے اور آگ لگنے سے ان کا 10 سالہ بیٹا ’بری طرح جھلس‘ گیا ہے۔
ادارے کے مطابق اپنے گھروں سے جان بچا کر بھاگنے کے بعد کئی بچے کھلے آسمان تلے سونے پر مجبور ہیں۔
یونیسیف نے لڑائی میں شامل تمام فریقین سے بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق طالبان نے افغانستان کے صوبہ سمنگان کے دارالحکومت ایبک پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
سمنگان کے ڈپٹی گورنر صفت اللہ سمنگانی نے بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ
صوبے کا دارالحکومت ایبک طالبان کے قبضے میں چلا گیا ہے۔
اب تک مجموعی طور پر افغانستان کے چھ صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں
جن میں ایبک کے علاوہ قندوز، سرِ پُل، تالقان، شبرغن اور زرنج شامل ہیں۔
اس سے قبل طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے جنگجوؤں نے پیر کی صبح شمالی شہر مزارِ شریف پر چاروں جانب سے حملہ کیا
اور کوٹا برگ کے علاقے سے شہر میں داخل ہو گئے ہیں۔
تاہم بلخ صوبے کے دہدادی ضلع کے سربراہ سید مصطفی سادات نے افغان اسلامک پریس کو بتایا کہ لڑائی ابھی بھی جاری ہے
اور صوبائی دارالحکومت کے مضافات تک محدود ہے۔
اطلاعات کے مطابق مزار شریف کے علاوہ پُلِ خمری اور بلخ صوبے کے شہر کوٹ برگ پر بھی طالبان نے حملہ کیا
جبکہ شمالی صوبے سمنگن کے ضلع سلطان پر بھی قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
جنوبی شہر لشکرگاہ اور ہلمند میں اس وقت شدید لڑائی جاری ہے جس کے نتیجے میں
گذشتہ 24 گھنٹوں میں لشکر گاہ میں اب تک 20 شہریوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔
مزید اطلاعات کے مطابق لشکر گاہ میں پولیس ہیڈ کوارٹر کے باہر دھماکوں کی آوازیں بھی سنائی دی گئی ہیں۔
گذشتہ شب پکتیا ریڈیو اسٹیشن کے سربراہ اور سرکاری پراسیکیوٹر طوفان عمری کو کابل جاتے ہوئے نامعلوم حملہ آوروں نے قتل کر دیا۔
اس سے دو روز قبل جمعہ کو افغان حکومت کے میڈیا ڈائریکٹر دوا خان میناپل کو بھی طالبان نے حملہ کر کے قتل کر دیا تھا۔
گذشتہ دو دنوں میں طالبان نے ملک کے چند اور صوبائی دارالحکومتوں پیش قدمی کی اور اتوار کو انھوں نے قندوز کے علاوہ شمالی شہر سرِ پُل اور تالقان پر بھی قبضہ کر لیا۔
ان تینوں شہروں پر کنٹرول کے بعد جمعے سے لے کر اب تک مجموعی طور پر چھ صوبائی دارالحکومت طالبان کے قبضے میں جا چکے ہیں
جن میں سمنگان، قندوز، سرِ پُل، تالقان، شبرغن اور زرنج شامل ہیں۔
تاہم حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان سپیشل فورسز اس وقت قندوز میں طالبان سے نبرد آزما ہیں۔
گذشتہ روز افغان وزارت دفاع کا کہنا تھا کہ افغان فوج کی جانب سے کیے گئے مختلف آپریشنز میں 579 طالبان جنگجو ہلاک اور 161 زخمی ہو گئے ہیں۔
یہ آپریشنز ننگرہار، خوست، لوگر، پکتیا، قندھار، ہرات، فراہ، جوزجان، سمنگان، ہلمند، تخار، قندوز اور پنج شیر صوبوں میں جاری ہیں۔
اس کے علاوہ گذشتہ 24 گھنٹوں میں افغان اور امریکی طیاروں نے بھی مزید فضائی حملوں میں طلبان کو نشانہ بنایا ہے۔
دوسری جانب خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق افغان فوج قندوز شہر کے ہوائی اڈے پر جمع ہو چکی ہے، لیکن وزارت دفاع کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ
شہر میں شدت پسندوں کے خلاف کلین اپ آپریشن جاری ہے اور طالبان کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
رائٹرز کے مطابق دوحہ میں طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان نے قطر میں قائم نیوز چینل الجزیرہ کو بتایا ہے کہ افغان حکومت کے ساتھ جنگ بندی پر کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے
اور انھوں نے امریکہ کو مزید فضائی حملے کرنے پر خبردار کیا ہے۔
امریکہ نے افغانستان سے اپنی فوجوں کا انخلا تقریباً مکمل کر لیا ہے تاہم وہ اب بھی طالبان پر فضائی حملے کر رہا ہے۔
قندوز پر طالبان کی جانب سے قبضہ اب تک کی ان کی سب سے بڑی کامیابی قرار دی جا رہی ہے جبکہ یہ افغان حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔
خیال رہے قندوز وسطی ایشیا کا دروازہ کہلاتا ہے اور اسی کی سٹریٹیجک اور معاشی لحاظ سے بہت اہمیت ہے۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی جانب سے اتوار کی صبح جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ
’اُن کے جنگجوؤں نے قندوز اور سرپُل پر مسلسل حملوں کے بعد آج صبح کنٹرول حاصل کر لیا ہے
اور دونوں صوبائی دارالحکومتوں کے تمام سرکاری دفاتر ان کے قبضے میں ہیں۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
حکایت :مولوی لطف علی۔۔۔||رفعت عباس
حکایت: رِگ ویدوں باہر۔۔۔||رفعت عباس