نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

بچے کو زندہ رہنے دیں || مجاہد حسین خٹک

ہر روز اپنے من میں جھانک کر تسلی کر لیں کہ یہ بچہ کلکاریاں مار کر ہنس رہا ہے۔ اس بچے کی حفاظت کریں، اسے زندہ رہنے دیں۔۔ اس سے آپ کی بھی زندگی آسان ہو گی اور دوسروں کی بھی۔

 

مجاہد حسین خٹک

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزشتہ روز پھل لینے کے لیے مارکیٹ جانا ہوا۔ دکاندار کے پاس ایک اور شخص پہلے سے موجود تھا۔ اس کے بالوں کی جھالروں کے بیچ ایک چندیا چمک رہی تھی، چہرے پر ایسی غضب ناک سنجیدگی تھی جیسے کوئی دیندار شخص آخرت کی تیاری کر رہا ہو۔ اس کی گاڑی ساتھ کھڑی تھی، ایک ملازم لڑکا قریب ہی موجود تھا اور وہ شخص تقریباً ڈانٹنے والے انداز میں تو تڑاخ والے لہجے میں دکاندار سے مخاطب تھا۔
جب اس نے فروٹ خرید لیے تو دکاندار کو ایک طرف لے گیا اور اس سے گفتگو کرنے لگا۔ اس دوران وہ گاہکوں کو کن اکھیوں سے دیکھتا رہا، اس کا بظاہر یہی مقصد نظر آ رہا تھا کہ جو رعایت اس نے پھلوں کی قیمت میں کرانی ہے اس کا کہیں باقی گاہکوں کو پتا نہ چل جائے اور ان کا بھلا نہ ہو جائے۔
یہ دنیا رنگارنگ انسانوں سے بھری پڑی ہے جنہیں اگر طبقات میں تقسیم کرنے کی کوشش کی جائے تو کروڑوں کیٹگریز بنانی پڑیں گی۔ تاہم ایک سادہ سا پیمانہ یہ دیکھنا ہے کہ ان کے اندر کا بچہ کس قدر زندہ اور توانا ہے۔ بہت لوگ دیکھے ہیں جنہوں نے عمر بھر قطرہ قطرہ اس بچے کے وجود سے لہو ٹپکائے رکھا ہے۔ ہر نیا تجربہ اس بچے کی کوئی نہ کوئی نس کاٹ ڈالتا ہے، زندگی کی دوڑ میں ملنے والی ہر تازہ تکلیف اس کے جسم سے گوشت کا ایک ٹکڑا نوچ لیتی ہے۔ ایسے لوگ سمجھتے ہیں کہ اس ظالم دنیا میں اپنے بالغ وجود کو برقرار رکھنے کے لیے ذات میں موجود معصومیت کا قتل ضروری ہے۔
انہیں علم نہیں کہ معصومیت ایک بچے کی ذات کا سب سے پرکشش حصہ ہے اور بڑوں کے لیے اخلاقیات اور تہذیب کی بنیاد ہے، فنون لطیفہ اسی سے جنم لیتے ہیں، شخصیت میں نرمی اسی کی دین ہے، تخیل کی زرخیزی اسی کا عطیہ ہے، تہذیب کے پھول اسی دھرتی پر پھوٹتے ہیں، انسانی جان اور حرمت کی قدر اسی کا تحفہ ہے، سزا کے بجائے معافی کا جذبہ اسی معصومیت کا خاصہ ہے۔
مذہب کی حقیقی روح پر عمل کرنا ہے تو اس بچے کو زندہ رہنے دیں۔ مذہب میں ظاہر پرستی پر اصرار دراصل اس معصومیت کو ختم کرنے کی کوشش ہے، یہی وجہ ہے ظاہر پرست عام انسان کو ہر اس کام سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں جس میں لطف، لذت اور خوشی کا شائبہ موجود ہو۔ بچے جب دوستیاں کرتے ہیں تو وہ ایک دوسرے کا مذہب نہیں پوچھتے، یہ بالغ لوگ ہیں جو مذاہب، فرقوں اور نظریات کی بنیاد پر انسانوں میں تفریق کرتے ہیں اور نفرتوں کا کاروبار پھیلاتے ہیں۔
بچے اپنی جبلت اور وجدان پر بھروسہ کرتے ہیں، ان کا تخیل ظاہر سے ماورا ہوتا ہے، وہ خوابوں میں تتلیاں دیکھتے ہیں، پھولوں کی خوشبو سونگھتے ہیں، قوس قزح کے رنگوں سے اپنی نیند کو سجاتے ہیں۔ اگر اپنے اندر بچے کو زندہ رہنے دیں گے تو آپ کو بھی سوتے جاگتے ہر طرف اچھائی اور حسن نظر آنے لگے گا۔
اگر آپ کسی غریب ریڑھی والے سے جان بوجھ کر دھوکہ کھاتے ہیں، اگر مجبوری میں جھوٹ بولتے وقت آپ کا لہجہ ساتھ نہیں دیتا، اگر آپ کی نفرتیں لمحاتی اور محبتیں دائمی ہیں، اگر آپ کبھی کبھار حق پر ہوتے ہوئے بھی ہار تسلیم کر لیتے ہیں، اگر آپ لوگوں کی سازشوں اور چھوٹی حرکتوں پر مسکرا کر انہیں بھول جاتے ہیں، اگر آپ بچوں کی کہانیاں بھی دلچسپی سے پڑھتے ہیں، اگر خوبصورت شعر آپ کے دل کے تاروں کو چھیڑ دیتا ہے تو سمجھ لیں کہ آپ کی شخصیت میں ایک گول مٹول سا بچہ موجود ہے۔۔۔
اس بچے کے ساتھ کھیلیں، اسے خود پر حاوی ہونے دیں، اس کے لاڈ مانیں۔۔ یہ آپ کی زندگی آسان کر دے گا۔۔ اس زندگی کو جو ہم سے پہلے کھربوں لوگوں کو مل چکی ہے اور آئندہ بھی ملتی رہے گی۔ خود کو اس کائنات کا مرکز سمجھنے سے احتراز کریں۔ اگر زندگی بھر اپنا مکان نہیں خرید سکتے، دولت کے انبار اکٹھے نہیں کر سکتے، قیمتی گاڑی نہیں رکھ سکتے، اگر اپنی بیوی سے غیر مطمئن ہیں، دوستوں کی خودغرضی سے پریشان ہیں تب بھی خوش رہنا سیکھیں۔
زندگی ایک بوجھ نہیں جو آپ پر لاد دیا گیا ہے۔ یہ ایک نعمت ہے، اس کی قدر کریں۔ اپنے اعصاب کا تناؤ کم کریں، معاف کرنا سیکھیں، مسکرائیں اور خود کو اوروں سے کمتر سمجھیں، شمشیر وسناں سے طاؤس و رباب بہتر ہے، اس لیے فلمیں دیکھیں، ادب پڑھیں، گھومیں پھریں۔
اپنی اولاد کو بھی سدھائے ہوئے جانور بنانے کے بجائے انہیں تجربے کرنے دیں۔ ہم تربیت کے نام پر ان کے اندر کی معصومیت کو ایک سخت گیر، خودغرض شخصیت سے تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ہم انہیں سکھاتے ہیں کہ خوشی کی نسبت کامیابی، لطیف احساسات کے مقابلے میں مادی اشیاء بہتر ہیں۔ کامیاب انسان بنانے کے لیے ان کی معصومیت چھین لینا سخت گھاٹے کا سودا ہے۔ ایک وسیع دائرے میں ضرور تربیت کریں مگر کچھ معاملات اللہ پر بھی چھوڑ دیں۔
فرض کریں اگر وہ اپنی زندگی اچھے انداز سے نہیں بھی گزار سکیں گے تب بھی اس وسیع و عریض کائنات کو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
ہر روز اپنے من میں جھانک کر تسلی کر لیں کہ یہ بچہ کلکاریاں مار کر ہنس رہا ہے۔ اس بچے کی حفاظت کریں، اسے زندہ رہنے دیں۔۔ اس سے آپ کی بھی زندگی آسان ہو گی اور دوسروں کی بھی۔

چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ

مجاہد حسین خٹک کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author