فاروق عثمان صاحب سے میری پہلی ملاقات 1977ء میں ہوئی تھی۔ جب وہ گورنمنٹ سول لائنز کالج ملتان میں اردو کے پروفیسر تھے۔ وہ کیا زمانہ تھا اور وہ کیا لوگ تھے جو کینٹین کے سامنے والے گراؤنڈ میں بیٹھے ادبی اور علمی گفتگو کیا کرتے تھے۔ پروفیسر جابر علی سید کے اردگرد ایک کہکشاں روشن تھی۔ ان میں پروفیسر حسین سحر، پروفیسر مبارک مجوکہ، پروفیسر شوکت مغل، پروفیسر عامر فہیم، پروفیسر تاثیر وجدان، پروفیسر انورجمال، ڈاکٹر محمد امین، ڈاکٹر طاہر تونسوی موجود ہوتے تھے۔ اور ان میں ایک نمایاں شخصیت پروفیسر ڈاکٹر فاروق عثمان کی تھی۔
ڈاکٹر فاروق عثمان
پروفیسر فاروق عثمان صاحب کی فکشن، اقبالیات اور میر پر گہری نظر تھی اور یہ ان کی دلچسپی کے خاص موضوعات تھے اس لئے وہ ان سے متعلق ہر کتاب کا مطالعہ ضرور کرتے تھے۔ شام کو سات بجے سے رات دس بجے تاج ہوٹل(چوک نواں شہر) میں محفل ہوا کرتی تھی اس میں ایک خاص بات ان کی گفتگو تھی۔ ان سے اکثر بیکن بکس(گل گشت) پر ملاقات ہوا کرتی تھی۔
فاروق صاحب کا تعلق جھنگ کے قریشی الہاشمی خاندان سے تعلق تھا۔ وہ بتایا کرتے تھے کہ ہمارے گھر مجید امجد کی اہلیہ آیا کرتی تھیں۔ جب خواتین ان سے پوچھتی تھیں کہ آپ امجد صاحب کے پاس ساہیوال کیوں نہیں جاتیں؟ تو وہ کہا کرتی تھیں۔ ”امجد صاحب کہتے ہیں تم خوب صورت نہیں ہو۔” امجد صاحب کی اس خاتون سے شادی ہوئی اور پھر ابتداء میں ہی وہ ایک دوسرے سے الگ ہوگئے۔ امجد صاحب نے انہیں طلاق نہیں دی تھی اور آخری وقت تک ہر مہینے خاتون کو منی آرڈر بھیجتے تھے۔
فاروق صاحب کا پرانا مکان قدیر آباد (ملتان) میں تھا۔ ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انہوں نے گل گشت کالونی کہکشاں سٹریٹ نمبر 11 میں ایک خوبصورت اور کشادہ گھر تعمیر کرایا اور اس میں رہائش اختیار کی۔ (اسی گھر میں ان کا انتقال ہوا) جب تک وہ قدیر آباد میں رہے۔ وہ باقاعدہ تاج ہوٹل آیا کرتے تھے۔ تاج ہوٹل میں ملتان کی آخری ادبی محفل کا زمانہ یادگار ہے۔ اس میں باقاعدہ آنے والوں میں ارشد ملتانی، فاروق عثمان، مبارک مجوکہ، ڈاکٹر محمد امین، اصغر شاہیا، اصغر علی شاہ، فرخ درانی، احمد خان درانی، ڈاکٹر ظہور شیخ، کفیل بخاری، مختارعلی اور خاکسار شامل تھا۔ کبھی کبھی آنے والوں میں تو ملتان کے بہت سے ادیب تھے، دوسرے شہروں سے بھی اکثر ادیب شاعر تشریف لاتے تھے۔ جب تک بزرگ ادیب زندہ رہے یہ محفل آباد رہی۔ لیکن جب لوگ مرجاتے ہیں تو محفلیں اجڑجاتی ہیں۔ یہ سب یاد آتے ہیں۔ نہ یار زندہ رہتے ہیں، نہ صحت باقی رہتی ہے۔
فاروق عثمان صاحب کلاس روم، ادبی تقریبات، اردو اکیڈمی، آرٹس فورم، تاج ہوٹل میں ہمیشہ باوقار اندا زمیں دکھائی دیتے۔ وہ گفتگو کاایسے اچھے انداز میں آغاز کرتے کہ لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہیں رہتے تھے۔
میں ان کے پرانے گھر میں جایا کرتا تھا۔ ان کا نیا گھر زیادہ فاصلے پر تھا اس لئے وہاں جانے میں تاخیر ہوجاتی تھی۔ کبھی وہ خود بھی میرے گھر پر تشریف لے آتے تھے۔ انہوں نے اپنی بہت سی باتیں مجھ سے کیں بڑی بیٹی کے انتقال کے بعد وہ زندگی کی بازی ہارتے چلے گئے۔ وہ بیمار رہنے لگے۔ صحت ساتھ چھوڑتی چلی گئی۔ گاڑی چلانا ان کے لئے ممکن نہ رہا۔ دوست ان کے پاس بہت کم جایا کرتے تھے۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ان کے بہت سے دوست انتقال کر گئے اور جو باقی رہ گئے وہ آنے جانے کے قابل نہ رہے۔ انہوں نے وصیت کی تھی کہ انہیں بیٹی کے قریب دفن کیا جائے۔
فاروق عثمان صاحب کو بہت تاخیر سے پی ایچ ڈی کا خیال آیا۔ انہوں نے اردو ناول پر مقالہ لکھا۔ ان کا موضوع تھا۔ ”اردو ناول میں مسلم ثقافت۔ بحوالہ خصوصی۔ عزیز حمد، انتظار حسین، قرة العین حیدر، خدیجہ مستور”۔ یہ مقالہ کتاب صورت میں 2002ء میں بیکن بکس نے شائع کیا تھا۔
اردو ناول کے حوالے سے یہ مقالہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی اشاعت پر اس کے ناشر کو دو لاکھ روپے کا انعام ملا۔ افسوس کہ اس کا دوسرا ایڈیشن شائع نہ ہوا اب یہ کتاب نایاب ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مضامین کا مجموعہ ”نکاتِ نظر” شائع ہوا آخری دور میں انہو ں نے عبدالحلیم شرر کے مضامین کو چار جلدوں میں مرتب کیا ان کی تمام کتابیں بیکن بکس نے شائع کیں۔
انہوں نے بی اے ملتان سے اور ایم اے اردو پنجاب یونیورسٹی (لاہور) سے کیا۔ وہ ڈاکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر سید عبداﷲ کے لائق شاگرد تھے۔ ملتان میں ان کی جابر علی سید مرحوم سے عقیدت اور نیازمندی آخری وقت تک قائم رہی۔ جابر علی سید کے بڑے صاحبزادے پروفیسر عقیل جابر ان کے عزیز ترین دوست تھے۔ عقیل جابر اپنے جواں سال بیٹے کی موت کے بعد زیادہ عرصہ زندہ نہ رہے۔ فاروق عثمان صاحب نے آخری عمر میں تین صدمے برداشت کئے۔ پہلے بیٹی کا انتقال ہوا اس کے بعد عزیز دوست عقیل جابر اس دنیا سے چلے گئے۔ اور پھر ان کے بڑے بھائی جو اسلام آباد میں رہتے تھے۔ وفات پاگئے۔ اس کے بعد انہوں نے اپنا فون بند کردیا۔ ایک ملاقات میں، میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا فون بند رہتا ہے تو انہوں نے کہا ”ہاں اب میں فون استعمال نہیں کرتا۔ اب مجھے کون فون کرے اور میں کسے فون کروں گا۔”
وہ آخری عمر میں تنہائی اور اداسی کا شکار ہوگئے تھے۔ ان کی زندگی کو بے دلی نے ویران کردیا تھا۔ یہ وہی دل تھا جس کا بائی پاس ہوا تھا تو ان کی زندگی میں تازگی آگئی تھی اور پھر وہ بجھ گیا تھا۔ زندہ رہنا ان کے لئے بے معنی ہوگیا تھا۔
انہیں آخری وقت میں محسوس ہوتا تھا کہ اولاد نرینہ کے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں بہت سے کام کرنے پڑتے ہیں۔ جس کی ان میں ہمت نہیں رہی۔ اب وہ بوڑھے اور کمزور ہوگئے تھے۔ اپنے عزیزوں کو بار بار زحمت نہیں دینا چاہتے تھے۔
وہ سادہ اور قناعت پسند طبیعت کے مالک تھے۔ افسوس کہ ہم ان کے علم سے پورے طور پر بہرہ ور نہ ہوسکے۔ اور اپنی کم علمی کے خوف کی وجہ سے انہیں نظرانداز کردیا۔ اور ڈاکٹر فاروق عثمان صاحب شہرت سے بے نیاز 5فروری 2018ء کو راہی ملک عدم ہوئے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ