نومبر 22, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

من آنم: فراق گورکھپوری کے خطوط محمد طفیل مدیر ’’نقوش‘‘کے نام ||جاوید اختر بھٹی

’’نقوش‘‘کے نمبروں کو اور اس کتاب کودیکھا جائے تو محمدطفیل اورطرح کے آدمی نظر آتے ہیں لیکن ضیاء الحق کی حکومت آئی تو ان کی بھی کایا کلپ ہوگئی اور پھریہ صاحب چند مراعات یافتہ مدیروں میں شامل ہوگئے اور ان پر بہت سی نوازشات ہوئیں۔
جاوید اختر بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

’’من آنم‘‘خط کتابت ہے جو فراق گورکھپوری اور طفیل محمد مدیر نقوش کے درمیان ہوئی۔اِس کا محمدطفیل نے آغاز کیا۔وہ اس خط کتابت کا جوازیوں پیش کرتے ہیں۔

’’سنہ1955ء میں جب مجھ پہ لکھنے کا دورہ پڑاتومیرا دماغ شخصی مضامین لکھنے کی طرف چلا۔اپنی بیماری کی بناء پر چند ایک باتیں فراق صاحب سے پوچھنی پڑیں۔جواب میں ان کا اتنا مفصل خط ملا تھا کہ میں اپنی بات بھول گیا۔ان کے جواب میں کھو گیا۔اِس کے بعد میں نے ایک پروگرام کے ماتحت فراق کو خط لکھے۔پروگرام یہ تھا کہ بہانے بہانے اس جن کی شخصیت کو ایک بوتل میں بند کر کے رکھ لوں تاکہ آڑے وقت میں کام آئے۔یعنی میرے یا ان کے مرنے کے بعد،جن کو بوتل سے نکالا جائے‘‘۔

muhammad-tufail
محمد طفیل

محمدطفیل کی یہ تحریربہت عامیانہ اور سطحی ہے۔لیکن فراق صاحب نے ان کے خطوط کے جواب بہت زوردار دیے ہیں۔

’’من آنم‘‘پہلی بار1962ء میں شائع ہوئی۔ فراق صاحب کا پہلا خط14؍فروری 1953ء کا ہے ۔طفیل صاحب زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے وہ اجرت پر ’’نقوش‘‘مرتب کراتے رہے،ہر چند کہ انہوں نے یادگار نمبر شائع کئے۔ وہ خود ادیب بننے سے محروم رہے۔انہوں نے بہت سے خاکے لکھے جن میں ان کی اپنی شخصیت زیادہ نمایاں رہی۔وقت گزرنے کے ساتھ جہاں ان کے خاکے لاپتہ ہوگئے وہاں’’من آنم‘‘بھی کہیں کھو گئی جب کہ اس کتاب کو زندہ رہنا چاہئے تھا۔

firaq-ghoraqpuri
فراق گورکھپوری

فراق صاحب شایدہمدردی حاصل کرنے کے لیے اپنی ذاتی زندگی کا بہت ذکرکیاکرتے تھے۔خطوط میں،انٹرویوز میں اورعام گفتگو میں ایسی ہی باتیں ملتی ہیں۔ان کی بیوی بدصورت تھی، ان پڑھ تھی،وہ کئی برس اس بیوی کے ساتھ رہے،بچے پیدا کیے اور پھرالگ ہوگئے۔ پہلے ہی خط میں انہوں نے محمدطفیل کو لکھا۔

’’یہ گھٹن میرے لیے بسا اوقات ایک مصیبت بن جاتی تھی۔اندازاً اٹھارہ برس کی عمر میں میری شادی کردی گئی۔میری بیوی کی صورت شکل وہی تھی بلکہ اس سے بھی گئی گزری جو ان لوگوں کی تھی جن کی گود میں جانے سے میں دو تین برس کی عمر میں ہی انکارکردیاکرتا تھا اور زندگی کی دوسری صلاحیتیں بھی اَن پڑھ انسانوں سے میری بیوی میں کم تھیں۔میری شادی نے میری زندگی کو ایک زندہ موت بنا کے رکھ دیا۔زندگی کے عذاب ہوجانے کے باوجود میں نے خودکشی نہیں کی نہ پاگل ہوا۔اور نہ جرائم پیشہ بنا، نہ زندگی کی ذمہ داریوں سے دستبردارہوا۔ اس لیے کہ شدید حسن پرستی کے باوجود زندگی کی شرافت کی جو قدریں مان چکا تھا ان کا میں نے سہارا لیا‘‘۔(14فروری1953ء)۔

حالی اور اقبال کے بارے میں لکھتے ہیں۔

’’حالی کا دل بہت نرم ہے۔نیکی اور شرافت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔لیکن گہرایا بلندتفکریا فلسفیانہ دماغ ان کے یہاں نہیں ہے۔ یہ چیزیں اقبال کے یہاں بدرجہ اَتم ملتی ہیں۔لیکن بدنصیبی سے ایک جنگجوئی کا جذبہ بھی ان کے یہاں ملتاہے۔اور طاقت یا قوت خواہ کسی طرح بھی ہو اس کے لیے ایک اندھی پرستش بھی اقبال کے یہاں ملتی ہے۔ جنگیں جیتنے ،ملکوں کو فتح کرنے اوران پر اسلامی حکومتیں قائم کردینے کو اقبال بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ایک کرختگی مزاج کا اثر ان کا کلام پڑھ پر ناگزیرہوتا ہے۔اسلامی ملت کے تصور کی زنجیروں میں ان کی شاعری جکڑی ہوئی ہے۔‘‘(23فروری1953ء)۔

ترقی پسند شاعری کے بارے میں فراق صاحب لکھتے ہیں:۔

’’ترقی پسندشاعری کے متعلق میں کہہ تو بہت کچھ سکتا ہوں لیکن کہوں گا صرف ایک بات اور وہ ہے حسن بیان سے متعلق ۔جس طرح ترقی پسند تحریک سے پہلے کے ادب میں قدرِ اول کی ،قدرِ دوئم کی،قدرِ سوئم  کی اور گھٹیا چیزیں ملتی رہتی ہیں۔اسی طرح ترقی پسند ادب بھی ہوا ہے۔فنی نکات،لیکن کسی فنی نکات سے ہمارے اچھے خاصے ترقی پسندشاعر اپنی ناواقفیت ،مہمل تشبیہیں اور استعارے صحیح مگر بے اثر اندازِبیان ان چیزوں کی طرف ان ترقی پسند شعرا نے کبھی کبھی توجہ کی جو آج اس تحریک کے لیڈرمانے جاتے ہیں۔‘‘(4؍اکتوبر1955ء)۔

یہ 1955ء کے خطوط ہیں جن کے بارے میں محمدطفیل نے لکھا ہے’’اس ’جن‘کی پوری شخصیت کو ایک بوتل میں بند کر لوں‘‘لیکن کیا کیا جائے کہ محمدطفیل کی بوتل بہت چھوٹی تھی اور جن بہت بڑا تھااس لیے ’جن ‘کے لیے یہ بوتل ناکافی تھی۔بہرحال کچھ نہ کچھ فراق صاحب اس کتاب میں آگئے۔

بائیس22؍دسمبر1955ء کو وہ لکھتے ہیں کہ پچھلے دو مہینوں میں میرے یہاں کچھ غزلوں کی بارش سی ہوتی ہے۔فراق صاحب نے بہت سے اشعار لکھے ان میں سے چند پیش کرتا ہوں۔

اس دورمیں زندگی بشرکی
بیمارکی رات ہوگئی ہے

دیکھتے دیکھتے دن ڈوب گیا رات ہوئی
ترے قدموں کی صدا آئی کرامات ہوئی

بندگی سے کبھی نہیں ملتی
اس طرح زندگی نہیں ملتی

معجزہ انقلاب کا دیکھو
موت بھی زندگی لٹاتی ہے

ہر اک کام مکمل ہوکے کوئی کمی رہ جاتی ہے
ہے بھرپورزندگی لیکن تجھ کو کہاں سے بہم پہنچائیں

یہ وہ زمانہ ہے جب پاکستان میں پاکستانی ادب اوراسلامی ادب کی آوازاٹھائی جارہی تھی۔جب کسی ہندو کا ذکرکرنا غداری سے کم نہیں تھا۔

ستائیس27دسمبر1955ء کوایک خط میں فراق صاحب لکھتے ہیں۔

’’پاکستان کے کچھ دوستوں نے یہ آواز اٹھائی کہ پاکستان کے ادب کو صرف پاکستانی ادب نہیں بلکہ اسلامی ادب ہونا چاہیے۔شایداس لیے کہ مشرقی پاکستان میں ایک کروڑ کے قریب ہندو ہیں اوروہاں کے مسلمان بھی رہن سہن اورزندگی کی پچانوے فیصدباتوں میں وہاں کے ہندوؤں کے جتنے قریب ہیں۔مغربی پاکستان کے مسلمانوں سے اتنے قریب نہیں اورخودمغربی پاکستان میں پٹھانوں،پنجابیوں اورسندھیوں کی زندگی میں بہت کم مماثلت ہے۔اسلامی ادب کے فقرے میں لفظ اسلامی ایک ایسا معجزہ سمجھا گیا جو نسلی ومقامی یا جنم بھومی کی خصوصیتوں کو مٹاکر رنگارنگ زندگی کو ایک رنگ میں رنگ دے گا۔ شایدمیرے عزیزدوست حسن عسکری اور آفتاب احمدصاحب کا بھی کچھ ایسا ہی خیال و گمان رہا ہے‘‘۔

ہمارے ادیبوں کو یہ بات جلد سمجھ آگئی اوریہ تحریک ختم ہوگئی اور صرف اردوادب باقی رہ گیا۔ضیاء الحق کے دورمیں اسلامی ادب کو سرکاری سطح پرفروغ دیاگیا۔یوں اس نے گیارہ سال نفاذِاسلام کا سلسلہ جاری رکھالیکن اسلام کا نفاذنہ ہوا۔

اس خط میں فراق صاحب نے پاکستانی ادب پر طویل بحث کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

’’ ایک قوم ایک ملک دو حصوں میں بٹ گیا۔ اب لوگ ایک زبان وادب کو بھی دو ٹکڑے کرکے دیکھنا چاہتے ہیں۔لوگ بھول جاتے کہ حالی و اقبال ہندوؤں کی بھی ملکیت ہیں۔ ٹیگوراورپریم چندمسلمانوں کی بھی ملکیت ہیں‘‘۔

یہ خط بہت اہمیت رکھتا ہے لیکن ہماری سمجھ میں نہیںآیا۔بعدکے حالات نے فراق کے الفاظ کو سچ ثابت کیا۔

ان خطوط میں بہت سی جگہوں پر اقبال کا نظریہ زیربحث آیا ہے۔ایک خط میں لکھتے ہیں۔

’’ڈاکٹر اقبال نے حافظ اوربہت سے ایران کے ایسے مسلمان شعراکے کلام کو بالکل ناکارہ اورغیراسلامی بتایا ہے جن کے یہاں روحانیت اورتصوف کی افراط ہے۔ مشہور ترین مسلمان ادیبوں کے روحانی ادب کو ڈاکٹر اقبال نے اسلامی ادب نہیں بتایا۔ڈاکٹراقبال کے نزدیک قریب قریب تمام ایرانی ادب اور مسلمانوں کا دیا ہوا قریب قریب تمام اردو ادب عجمی اور غیراسلامی ہے۔اور وہی ڈاکٹر اقبال گرونانک ،رشی وشوامتر(جسے وہ رفیق کائنات کہتے ہیں)بھرتری ہری وغیرہ کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں۔ سوامی رام تیرتھ کے گن گاتے ہیں ، شیکسپئیرکے متعلق ایسے شاندارالفاظ استعمال کرتے ہیں۔جو کسی اسلامی مصنف کے لیے انہوں نے استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ پھر غالب،داغ ،امیر کے کارناموں کو بھی سراہتے ہیں۔جب حقیقی غیراسلامی ادیب کے فرق کو بھول جاتے ہیں۔جرمنی کے بالکل غیراسلامی شعرا کو بے تکان خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں‘‘۔

اسی طرح فراق نے اقبال پر مختلف حوالوں سے بحث کی ہے۔ اور ثابت کیا ہے کہ اقبال ادب میں اسلامی اورغیراسلامی کا فرق نہیں رکھتے تھے۔کیونکہ یہ پاکستان کے قومی شاعرکا نظریہ ہے۔ اس لئے پاکستانی ادیبوں کو اس پر توجہ دینی چاہیے اور ادب کو تقسیم نہیں کرنا چاہیے۔ بہرحال پاکستانی ادب کی تحریک کو زیادہ کامیابی نہ ہوئی ۔اس نے بہت جلد کنارہ کرلیا تھا۔

یہ تمام خطوط بہت اہم ہیں آج بھی شائع ہو سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ کتاب پس منظرمیں چلی گئی ہے۔کسی ناشر نے اس کا نیا ایڈیشن شائع نہیں کیا۔شاید اس کی وجہ اس کتاب میں اسلام اور اقبال کے حوالے سے چندمقامات ایسے ہیں جنہیں اس دور میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔

کتاب کے آخرمیں محموداحمدکا ایک مضمون ہے۔اس میں فراق صاحب پر تو چندصفحات ہیں۔باقی ان کی شاعری کا انتخاب ہے۔یہ مضمون صفحہ169سے204 تک پھیلا ہوا ہے۔اس کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟شایدکتاب کی ضخامت کے پیش نظرایسا کیاگیا۔ان خطوط پر حواشی بھی نہیں لکھے گئے۔محمدطفیل کو چاہیے تھاکہ کسی ادیب سے اجرت پر یہ کام لے لیتے اس طرح کتاب کی اہمیت بڑھ جاتی۔

’’نقوش‘‘کے نمبروں کو اور اس کتاب کودیکھا جائے تو محمدطفیل اورطرح کے آدمی نظر آتے ہیں لیکن ضیاء الحق کی حکومت آئی تو ان کی بھی کایا کلپ ہوگئی اور پھریہ صاحب چند مراعات یافتہ مدیروں میں شامل ہوگئے اور ان پر بہت سی نوازشات ہوئیں۔

جاوید اختر بھٹی کی مزید تحریریں پڑھیں

About The Author