گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ڈیرہ اسماعیل خان کے جس گاٶں میں رہتا تھا اس میں شادی کی دعوت صرف نائی دیتا اور خلاص۔
مگر میرا ننھال شھر میں تھا۔ یہاں شادی کی دعوت دس بارہ عورتیں ٹولی کی شکل گھرگھر جا کر دیتی تھیں۔ چونکہ ہمارا گاٶں دو تین کلومیٹر شھر سے دور تھا تو طے یہ پاتا کہ محلے کی عورتیں سارے شھر میں دعوت دیتی ہوئی آخر میں ہمارے گھر دوپہر کو پہنچیں گی۔یہاں پر کھانا۔چائے ۔شربت وغیرہ اور آرام کے بعد شام کو گھر روانہ ہونگی۔ جس دن دعوت والی خواتین نے آنا ہوتا میری ماں ان کے لیے صبح سویرے سالن۔چاول۔ میٹھا تیار کر کے رکھ دیتی ۔گھر تو کچھ ایسا نہ تھا کچا پکا رلا ملا تھا مگر اس کو صفائی کر کے چمکا دیا جاتا۔ برانڈے میں بارہ چارپائی بمع رنگین کھجور کی چٹائی اور کشیدہ والا سرھانہ بچھا دیے جاتے ۔ تھکی ترٹی ہوئی خواتین جو پیدل چل چل کر ہلکان ہو چکی ہوتیں ان کا گروپ آتے ہی چارپائیوں پر دھڑام سے لیٹ جاتا۔ٹھنڈا پانی پینے کے بعد جب ہوش آتا وہی عورتیں ہمارے کچن کا کنٹرول خود سنبھال لیتیں۔۔کچھ چائے کی شوقین خود چائے پکا کے پیتیں۔باقی پکے پکائے کھانے کو تقسیم کرتیں اور سب مل کر کھاتے ۔ہم بچے برتن اور چیزیں اٹھا کے دیتے۔دو تین عورتیں چارپائی پر بیٹھی میری ماں کو آج دن کی کاروائی اور شادی کے انتظامات کے قصے سناتیں۔
پھر شام کو رخصت ہوتے وقت میری ماں کے ساتھ ہر عورت زوردار گلکڑی یعنی جپھی پا کر رخصت ہوتیں۔۔
خدا خوار کرے کرونا کو۔۔ ظالم نے میرے نانکے کی یہ پیاری رسم بھی ختم کر ڈالی۔گلکڑی تو اب سخت منع ہے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر