مجاہد حسین خٹک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارا ذہن ایک ایسی مشین ہے جس میں حواس کے رستے سے مسلسل ڈیٹا داخل ہوتا رہتا ہے، ذہن اس مواد کو ترتیب دے کر اسے معلومات میں بدل دیتا ہے۔ یہ معلومات ہماری یادداشت میں موجود رہتی ہیں اور کوئی بھی تحریر لکھتے وقت اس میں اپنا حصہ ڈالتی رہتی ہے۔
ان معلومات کا اکٹھا ہونا حصول علم کی بنیادیں فراہم کرتا ہے مگر قصہ صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔
معلومات کا علم میں بدلنا اور علم کا تخلیق میں تبدیل ہونا ایک بہت ہی پیچیدہ عمل ہے اور اس کے مختلف مراحل ہیں جن میں سے بیشتر ہماری ذات کے شعوری حصے کی دسترس سے باہر ہیں۔
جب ذہن معلومات کو ترتیب دے لیتا ہے تو سب سے پہلے اسے دھکیل کر غیر شعورکی نگری میں پھینک دیتا ہے۔ اس وسیع وادی میں جگہ جگہ مشینیں نصب ہیں جو ان معلومات کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کرتی ہیں کہ ان کا ایک ایک ریشہ الگ ہو جاتا ہے۔
اس وسیع علاقے میں پہلے بھی معلومات کا ایک وسیع ملیدہ موجود ہے اور یہ بے شکل سا نیا مواد بھی اسی انبار میں شامل ہو جاتا ہے۔ اب سابقہ اورموجودہ، تمام معلومات ایک دوسرے میں اس طرح جذب ہوجاتی ہیں کہ انہیں دوبارہ پہلے والی شکل میں لانا ناممکن ہوتا ہے۔
اس مرحلے پر تخیل نام کا فسوں گر میدان میں اترتا ہے اوراس گندھے ہوئے مواد سے رنگا رنگ قسم کے پتلے بنا بنا کر نفس شعوری کو بھیجتا جاتا ہے جو یا انہیں رد کر کے واپس بھیج دیتا ہے یا مختلف ابلاغی ذرائع کی مدد سے انہیں دنیا کے سامنے پیش کردیتا ہے۔ گویا تخیل کا کام مختلف قسم کے پتلے یا تصاویربنا کر تخلیق کار کی ذات کے شعوری حصے کو بھیجنا ہے جو ان کا جائزہ لے کرفیصلہ کرتا ہے کہ یہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہیں کہ نہیں۔
یہ تصاویر انتہائی ذاتی تجربہ ہوتی ہیں اور ابھی تک ایسا کوئی ذریعہ دریافت نہیں ہوا جس کی مدد سے انہیں اپنی اصل صورت میں دوسروں کے سامنے پیش کیا جا سکے۔ ان کے ابلاغ کے لئے الفاظ، موسیقی، مجسمہ سازی یا رنگوں وغیرہ کا سہارا لینا پڑتا ہے۔
بہت دفعہ یوں ہوتا ہے کہ تخیل مبہم سی تصاویر بھیج دیتا ہے جنہیں کسی بھی سانچے میں ڈھالنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارا شعوری حصہ یہ سمجھ جاتا ہے کہ ان پیچیدہ تصاویر کو ابلاغ کے کسی بھی ذریعے سے قابل فہم نہیں بنایا جا سکتا۔ اس لئے عموماً انہیں تخیل کی نگری میں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔
ایک اچھا تخلیق کار اپنے پاس آنے والی تصاویر کی اکثریت رد کردیتا ہے۔ بہت کم حصہ اس کی تخلیقات میں جگہ حاصل کرپاتا ہے۔ کئی بار ذات کے اندر بپا تخلیقی محشر اسقدر ضد کرتا ہے کہ تخلیق کار بے بس ہو کر ان مبہم سے خاکوں کو خارج کی دنیا کے سامنے پیش کر دیتا ہے۔ عموماً ایسی تخلیقات ناقابل فہم ہونے کی وجہ سے رد کر دی جاتی ہیں۔
ان کی اہمیت صرف یہ ہے کہ تخیل کی نگری پر تحقیق کرنے کے لئے یہ بہت قیمتی سرمایہ ثابت ہوتی ہیں۔ یا پھر نقاد انہیں تخلیق کار کے اندر برپا کہرام کی جھلکیاں دیکھنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔ اس کی ایک مثال غالب کے کئی اشعار ہیں جنہیں پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ شاعر اپنا ابلاغ درست انداز میں نہیں کر پایا۔
یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ تخیل کی طرف سے جو کچھ بھیجا جاتا ہے اس کی مکمل تصویر کشی ایک ناممکن کام ہے۔ کچھ نہ کچھ کمی ہمیشہ رہ جاتی ہے کیونکہ انسانی ارتقا کے طویل عمل میں ابلاغ کے ذرائع نسبتاً نئے ہیں جو ابھی اپنے لڑکپن کے دورسے گزر رہے ہیں۔ اس کے برعکس تخیل جیسا پیر فرتوت نسل انسانی کے ساتھ ہی پیدا ہوا تھا۔
یہ ابلاغی لڑکے بالے اس سرد وگرم چشیدہ بوڑھے سے قدم نہیں ملا پاتے۔ اسی وجہ سے ہر تخلیق کار جب اپنی تخلیق دنیا کے سامنے پیش کرتا ہے تو اسے اس میں کمی کا احساس لازمی موجود رہتا ہے۔ یہ جانتا ہے کہ اپنے تخیل کی تصاویر اپنی پورے حسن اور کمال کے ساتھ پیش نہیں کرپایا۔ اس احساس محرومی سے کسی طور مفرممکن نہیں ہے۔
ہماری ذات کے اندرموجود وادی میں جگہ جگہ ری سائکل کرنے والی مشینیں لگی ہوئی ہیں۔ معلومات مسلسل وہاں پہنچ رہی ہیں اورانہیں ریزہ ریزہ کر کے تخیل کے کارخانے میں مسلسل بھیجا جا رہا ہے۔ جو اس کی تصاویر بنا بنا کے واپس ہماری ذات کے شعوری حصے کو بھیج رہا ہے۔ جب تک معلومات ان تمام مراحل سے نہ گزریں انہیں علم کی شکل نہیں دی جا سکتی۔
یہ بات صرف فنون لطیفہ پر ہی لاگو نہیں ہوتی، بلکہ خالص فلسفیانہ خیالات اور سائنس و ریاضی جیسے علوم بھی اسی وادی زرخیز سے جنم لے رہے ہیں۔
اپنی اساس میں ہر شعبے کا تخلیقی عمل ایک جیسا ہے۔ ایک ہی چشمہ رواں ہے جہاں سے انفرادی تخیل جرعہ بہ جرعہ اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ علم وادب کے شجر کی جڑیں ایک ہی قسم کی دھرتی سے غذا حاصل کرتی ہیں لیکن باہر کی دنیا میں یہ مختلف شاخوں کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ ایک شاعر تخیل کے تحفوں کو لفظوں کی ملائمت میں لپیٹ کر پیش کرتا ہے تو ایک ریاضی دان اسے کائنات کی گتھیاں سلجھاتے فارمولوں کی صورت میں انسانیت کے سامنے لاتا ہے۔ یہی صورتحال مصوری، مجمسہ سازی، موسیقی، فلسفہ اور سائنس وغیرہ کی ہے۔
علم اور تخلیق آپس میں اس قدر جڑے ہوئے ہیں کہ یہ ایک ہی شئے کے دو رخ نظر آتے ہیں۔ ہرتخلیق یہ تقاضا کرتی ہے کہ تمام تر معلومات غیر شعور کے حوالے کر دی جائیں۔ گویا معلومات کے ایک بڑے حصے کو بھلا دینا شرط اولین ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کی یاداشت غیر معمولی ہوتی ہے، ان میں تخلیقیت کا جوہر عموماً نایاب ہوتا ہے۔ ان کی معلومات شعور کے تالو سے چپک جاتی ہیں، دانتوں میں پھنس جاتی ہیں اور دہن کی دیواروں سے چمٹ جاتی ہیں۔
ایسے لوگ عموماً انہی معلومات کا ایک بدصورت امتزاج علم کے نام پر دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں۔ یہ جگالی کرنے جیسا عمل ہے جس کا سطحی پن اہل نظر فوراً پہچان لیتے ہیں۔ ایسے علم کی عمر بہت کم ہوتی ہے۔ تاہم بعض اوقات اسے تقدیس کے پردے میں لپیٹ دیا جاتا ہے جس کی وجہ یہ غیر نافع علم انسانیت کے کندھوں پرطویل عرصے تک سوار رہتا ہے۔
حقیقی دوام صرف اسی علم کو حاصل ہے جس میں تخلیقیت کا جوہر موجود ہو۔ جس معاشرے کا تعلیمی نظام اپنے افراد کی یاداشت چمکانے کا کام کرے، وہاں تخلیقی لوگ بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ہمیں قحط الرجال کا منظر دکھائی دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یہاں سخت قسم کی نظریاتی اور سیاسی تقسیم نظر آتی ہے۔ لوگ گروہ کی صورت میں سوچتے ہیں، اپنے رہنما کو غلطیوں سے پاک گردانتے ہیں، تنقید یا اختلاف رائے پر بپھر جاتے ہیں اور پورے معاشرے میں کسی بھی معاملے پر اتفاق ملنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
اس کی بہت بڑی ذمہ داری ہمارے خاندانی اور تعلیمی نظام کی روایات پر عائد ہوتی ہے۔ والدین اپنی اولاد کو اپنے ہی نظریات کا غلام بنانا چاہتے ہیں، اختلاف رائے دبانے کے لیے مار پیٹ سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ اس سخت گیر نظام کی وجہ سے عقل کو وہ میدان میسر نہیں آتا جس کی وسعتوں میں وہ اپنا حقیقی جوہر دکھا سکے۔
تعلیمی نظام کی بات کی جائے تو وہاں بھی یہی صورتحال ہے، اس نظام میں یادداشت کو قلعی کرنے پر تو زور دیا جاتا ہے مگر سوچ کی انفرادیت کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جس کی وجہ سے تخلیقیت کا جوہر نکھر کر سامنے نہیں آ پاتا۔
اساتذہ اپنے طلبہ کو نصاب سے باہر نہیں نکلنے دیتے، کلاس روم میں اختلاف رائے کی روایت کا دم گھونٹ دیا جاتا ہے، امتحانی نظام بھی طلبہ کی یادداشت کو آزماتا ہے۔ اگر کوئی طالب علم نصاب میں دی گئی معلومات سے ہٹ کر لکھے تو اس کی سزا کم نمبروں کی صورت میں دی جاتی ہے۔
تخلیقیت کی اس کمی کا عکس ہر سطح پر لکھی گئی تحریروں میں دکھائی دیتا ہے۔ اگر میڈیا کی مختلف صورتوں کا جائزہ لیا جائے تو کتابی علم سے اکتساب کیے گئے نظریات کاغذ کے صفحات، ٹی وی کی سکرین اور موبائل کے ڈسپلے پر بکھرے دکھائی دیتے ہیں۔ بس ایک بھیڑ چال ہے جو ہر سو پھیلی ہوئی ہے۔ جو لوگ تخلیقی کام کر گئے ہیں، ان کے حوالے تو ہر جگہ مل جاتے ہیں مگر ان جیسا کام کرنے والے ہمیں میسر نہیں آتے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیم کے میدان میں طلبہ کو سبق پڑھنے کے بعد اسے بھول جانے کی تلقین کی جائے تاکہ جب وہ لکھنے بیٹھیں تو وہ نصاب میں دی گئی معلومات کے بجائے اپنی بات بیان کریں۔ اسی طرح والدین کو بھی اپنی اولاد کو خود سے سوچنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے۔ اگر سماج ایسا کرنے میں کامیاب ہو گیا تو ہر سو پھیلے خوفناک قحط الرجال کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے:
چار سالہ پارلیمانی مدت، ایک سوچ ۔۔۔ آفتاب احمد گورائیہ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر