نصرت جاوید
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پولیس کی لاٹھی سے میرا جسم پہلی بار جب آشناہوا تو میں چھٹی جماعت کا طالب علم تھا۔اپنے گھر سے رنگ محل مشن ہائی سکول جانے کو روانہ ہوا تو راستے میں تاریخی مسجد وزیر خان آئی۔ وہاں غصے سے بپھرا ہجوم موجود تھا۔امریکی میگزین ’’ٹائمز‘‘ نے اس ہفتے اپنے صفحۂ اوّل پر ایک تصویر چھاپی تھی جو گستاخانہ ہونے کے سبب ہمارے مذہبی جذبات بھڑکانے کا سبب ہوئی۔احتجاج کے اظہار کے لئے مشتعل ہجوم نے لاہور کے میوہسپتال کے پچھواڑے سے ہائی کورٹ تک جانے والی سڑک پر جانے کا فیصلہ کیا۔راستے میں ’’بینک سکوئر‘‘ آتا تھا۔وہاں امریکی حکومت کے مرکزِ اطلاعات کا دفتر بھی تھا۔
ان کی حکومتیں جب جی حضوری میں مصروف تھیں تو ہمارے سیاسی اُفق پر عمران خان صاحب دیدہ ور کی طرح نمودار ہوگئے۔ قوم کو انہوں نے خودی کا سبق سکھایا۔امریکہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی بات منوانے کا عہد کیا۔ان کی کاوشیں بالآخر رنگ لائیں۔ جولائی 2019میں ٹرمپ اپنی رعونت بھلاکر انہیں وائٹ ہائوس مدعو کرنے کو مجبور ہوا۔اس کی اہلیہ نے ہمارے وزیر اعظم کے ساتھ بہت چائو سے سیلفی بھی بنائی۔ٹرمپ نے ازخود یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالث کا کردار ادا کرے گا۔اس ’’ثالث‘‘ کے ہوتے ہوئے بھی مگر مودی سرکار نے 5اگست 2019والا قدم اٹھایا۔مقبوضہ کشمیر اس دن سے آج تک دنیا کی وسیع ترین جیل میں تبدیل ہوچکا ہے۔’’ثالث‘‘ کی جگہ اب وائٹ ہائوس میں جوبائیڈن بیٹھا ہے۔
عمران حکومت کی بابت بے تحاشہ تحفظات کے باوجود علی محمد خان صاحب کی دلیرانہ تقریر سنتے ہوئے میرادل باغ باغ ہوگیا۔لاہور میں لگی پولیس لاٹھی کی ضرب بھی یاد آگئی۔ ’’دل پھر طواف کوئے ملامت‘‘ کو مچلنے لگا۔ قومی حمیت کے جذبات سے جوان ہوئے میرے دل کو پریشان کرنے کے لئے مگر برطانیہ کے ایک جید اخبار فنانشل ٹائمز نے منگل کے روز ایک خبر چھاپ دی ہے۔
اس خبر پر اعتبار کریں تو ہمارے وزیر اعظم کے انتہائی پڑھے لکھے اور عالمی امور کے ماہر گردانے مشیر برائے قومی سلامتی جناب ڈاکٹر معید یوسف صاحب اس رنج میں مبتلا دکھائی دے رہے ہیں کہ اقتدار سنبھالنے کے آٹھ ماہ بعد بھی امریکی صدر نے ہمارے وزیراعظم کو روایتی خیرسگالی والا فون بھی نہیں کیا ہے۔یوسف صاحب کو یہ گلہ بھی تھا کہ متعدد بار امریکی صدر کا فون وصول کرنے کے انتظامات بھی ہوئے۔بائیڈن نے مگر رابطہ ہی نہیں کیا۔
یہ خبر پڑھتے ہی میرے جھکی ذہن میں فوراََ سوال اٹھا کہ Absolutely Notکہہ دینے کے بعد بائیڈن کے فون کا انتظار کیوں۔وہ ہمارے وزیر اعظم سے رجوع کئے بغیر ہی اگر افغانستان کا معاملہ حل کرسکتا ہے تو ’’ست بسم اللہ‘‘۔وہ جانے اور اس کا کام۔ معید یوسف صاحب کو بلکہ امریکی صدر کے مشیر برائے قومی سلامتی سے چند ہفتے قبل جنیوا اور اب واشنگٹن پہنچ کر ملاقات کی ہرگز ضرورت نہیں تھی۔عمران حکومت کے ایک وزیر جو تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن بھی ہیں پاکستان کی ’’سب پہ بھاری‘‘ قومی اسمبلی کو بتارہے ہیں کہ Absolutely Notکہنے کے بعد امریکہ کو قطعی پیغام پہنچادیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے ٹیکنوکریٹ مشیر برائے قومی سلامتی مگر اصرار کررہے ہیں کہ اپنے امریکی ہم منصب سے ان کی ’’مثبت‘‘ ملاقاتیں ہوئیں۔ پاکستان اور امریکہ ان ملاقاتوں کی وجہ سے باہمی تعلقات کو نہایت خاموشی اور بردباری سے بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔پاکستان کے مجھ جیسے بے خبر اور بے اختیار شہری کس کی بات کا اعتبار کریں۔علی محمد خان صاحب کے فرمودات کی روشنی میں قومی حمیت کے تحفظ کے لئے کمرکس لیں یا معید یوسف صاحب کی طرح بائیڈن کے دوستانہ ٹیلی فون کا انتظار کریں؟
بشکریہ نوائے وقت
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر