اشولا ل کی مکمل شاعری پرایک مضمون نہیں لکھا جا سکتا ۔اس کے لیے ایک ضخیم کتاب کی ضرورت ہے ۔ اس کی شاعری کی بہت سی جہتیں ہیں ۔ میں نے اس کی شاعری کے لیے ایک پہلو کا انتخاب کیا ہے۔ وہ ہے گوتم سے اس کا تعلق،1995ء میں اس کا شعری مجموعہ ” گوتم نال جھیڑا ” شائع ہوا تو اس میں نئی بات تھی ۔ یہ منفر د شعری مجموعہ ہے ۔ اس میں ایک نظم ” گوتم جیہڑا سوریہ ونسئِ” ، دوسری ” گوتم جیڑھا بھکشوئِ” اور تیسری نظم ” گوتم نال جھیڑا ” ہے ۔
اشو لال فقیر
اشوکی کی نظموں میں ہندوستانی فلسفے کا گہرا مطالعہ نظرآتاہے اور پھر وہ اس فلسفے کو بہت خوب صورتی سے اپنی شاعری کا حصہ بنا دیتاہے ۔ گوتم بھی اس کی مثال ہے ۔ ان نظموں کے پس منظر کو سمجھنے کے لیے گوتم بدھ کی زندگی کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔ کولین قبیلے کے راجا کی دو لڑکیوں کی شادی ساکھیہ قبیلے کے راجا شدو دھن سے ہوئی ۔ بد قسمتی سے ان میں سے کسی کے بطن سے ایک زمانے تک اولاد نہیں ہوئی۔ بالا خر بڑی دعاؤں، قربانیوں اور منتوں کے بعد بڑی بہن مایا جب 45برس کی ہوئی تو وہ امید سے ہوئی ۔ جب زمانہ ولادت قریب آیا تو وہ اس ارادے سے میکے چلی گئی۔کہ بچے کی پیدائش وہیں ہو ، لیکن جب وہ رانی لمینی باغ پہنچی ( اس جگہ اب ایک مندرہے اور یہ نیپال کے جنگلوں میں واقع ہے ) تو جسم میں درد بڑھنے لگا ۔ وہ ایک درخت کے نیچے لیٹ گئی او ر اس طرح وہ بچہ پیداہوا ۔ جسے گوتم بدھ کے نام سے مشہور ہوناتھا ۔ راجا ودھن کو خبر دی گئی ۔
جشن منایا گیا اور گوتم اور اس کی ماں کو محل میں وا پس لایاگیا۔
گوتم کی ماں مایا اس کی پیدائش کے ساتویں دن اس دنیاسے سدھا ر گئی اور بچے کی پیدائش ا س کی سوتیلی ماں یا حقیقی خالہ نے کی ۔ گو تم کی شادی اس کے ماموں کی بیٹی سے کردی گئی ۔ اس کا نام یشو دھر اتھا۔جس وقت گو تم کے گھر میں اس کے بیٹے راہل کی پیدائش ہورہی تھی۔ ایک درویش گوتم سے ملا۔ جس نے گوتم پر دنیا کی بے ثباتی ظاہر کی اور تر غیب دی کہ وہ ان سب بندھنوں کوتوڑ کر کہیں جنگلوں میں تپسیا کرے اور ابدی مسرت حاصل کرے ۔ شہر میں جشن کا سماں تھا ۔ ہر طر ف خوشیاں ہی خوشیاں تھیں۔ گو تم بھی بہت خوش تھا لیکن وہ ابدی خوشی کی طر ف سفر کرنے کا ارادہ کر چکا تھا۔ رات کو اس نے چنا کو رتھ تیار کرنے کا حکم دیا اس نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا۔ جو اس کے قدم روک رہے تھے ۔
گوتم رتھ پر سوار ہوا ۔ جب اس نے اپنی ریاست پارکی اور سسرال کے راج کی آخری حدود سے باہر نکل آیا وہاں چنا رتھ کے ساتھ موجود تھا۔ وہاںاس نے اپنے سارے جواہرات اور شاہی کپڑے اتار کر چنا کے حوالے کیے کہ انہیں رتھ کے ساتھ واپس لے جائے ۔ اس وفادار نے سمجھانے کی کوشش کی ۔ وہ بھلا کہاںسننے والا تھا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اچھا تو مجھی کو پہلا چیلا بنائیے مگر وہ نہ مانا ۔ ماتا پتا کواطلاع دینا ضروری تھا۔ وہ چنا کے گئے بنا ممکن نہیں تھا۔ اس نے اپنے بال کا ٹ دیئے اور عام سا لباس پہنا اور جنگل کی طر ف چلا گیا۔
وقت گزرتا گیا ۔ لوگ گوتم کی تعلیمات سے متاثر ہو کر شاگر د یا چیلے بنتے گئے ۔ گوتم نے اپنے شاگردوں سے کہا۔ جب تک لوگوں میں جہالت رہے گی ۔ اس وقت تک اسی طرح آگ میں جلتے رہیں گے ۔ یہ وہ آگ ہے جو انسان کے اندر لگی ہوئی ہے اور جسے باہر کی چیزیںاس کے بطن میں روشن کرتی ہیں ۔ یہ خارجی چیزیں حواس خمسہ اور دل کے ذریعے اثر کرتی رہتی ہیں ۔ مثلاً آنکھ مشاہد ہ کرتی ہے اور اس سے ایک طرح اندرونی حس پیدا کرتی ہے ۔ جس سے رنج یا خوشی ہوتی ہے اوریہ رنج یا خوشی ، شہوت ، غصہ ، جہالت ، پیدائش، فکر اور اضمحال قوی اور موت کی آ گ بھڑکاتے ہیں۔
گوتم اپنے گھر جانا ۔ اس کے باپ کے جذبات اور گوتم کے بیٹے کی کیفیت سب کچھ مجبو ر کرنے کے لیے کا فی تھا ۔ گو تم ایک بار پھر اپنے باپ اور دھرتی کو چھوڑآیا اوراپنے بیٹے کو ساتھ لے کر راج گڑھ کے جنگلوں میں آگیا ۔
گوتم نے اپنے بھکشوؤں سے آخری گفتگو کی ۔ ان سے کہا۔
میں تم سے پوری قوت سے کہتاہوں ۔ ہر مرکب چیز میں زوال پذیر ی خلقی طور پر موجود ہے ۔ اپنی نجات کے لیے برابر کی شاں رہو ۔ یہ کہہ کر وہ بے ہوش ہوگیا اور اسی حالت میںوہ دنیا سے سدھار گیا۔
اشو کی ایک نظم :
” گوتم جیہڑا سُوریہ وٹسئِ”
درد پکاوے آدی من دی
تن تے مینھ نہ تھا ہرے
چویاچویا اکھیں دے وچ
ڈیو ا رات پنگھارے
اس سارے پس منظر کو ایک اور نظم واضح کرتی ہے ۔
”گوتم جیہڑا بھکشوئِ ”
جھولی وچ سبھ کجھ
جھولی وچ کجھ نئیں
کہیں تے وی ڈوہ نئیں
کہیں تے وی ہُج نئیں
مل پئی تاں مل پئی
لنگھنی تاں لنگھنی
سرنئیں چاونا
مُونہوںنئیں منگنی
اشوکی کی ان دونظموں میں گوتم نظر آئے گا ۔ گو تم نے چھوٹی بادشاہت کو ٹھوکر مارکر بڑی بادشاہت کا تاج اپنے سر پر رکھا۔ جو آج بھی قائم ہے ۔ ورنہ کپل وستو کے اس چھوٹے سے راجے کو کو ن جانتا۔ ان کے فرمان کب تک زندہ رہتے۔
ہرمن ہیسے نے سدھا رتھ کی خوبصورت منظر نگاری کی ہے ۔
سدھا رتھ کو ا ب معلوم ہوا کہ وہ اب تک اس ذات سے اپنی کشمکش میں کیوںناکام رہا۔ حالاں کہ وہ برہمن تھا اور تپسوی تھا ۔بہت زیادہ علم نے اسے روکے رکھا ۔ بہت سارے مقدس اشلوک ، چڑھاوے کی رسموں اور نفس کشی کی عادت ، بہت زیادہ کام اوربہت کوشش نے اس روکے رکھا۔ وہ بہت گھمنڈی تھا۔ وہ ہمیشہ سے سب سے زیادہ ذہین ، سب سے زیادہ مستعد تھا۔ ہمیشہ دوسروں سے دوقد م آگے ۔ وہ ہمیشہ عالم فاضل اورذہین بنتا ۔ ہمیشہ بھکشو یا دو یا دھر بنتا ۔ اس کی ذات اس سادھنا میں ، اس گھمنڈ میں، اسی ودیا میں رینگ کر گھس گئی تھی۔ وہ وہاں جم کر بیٹھ گئی تھی اورپھلنے پھولنے لگی اور وہ سمجھتا رہا کہ وہ فقر و فاقے سے ، توبہ استغفار سے اس ذات کو ختم کررہا ہے۔ اب اس کی سمجھ میں آیا اور اسے احسا س ہوا کہ بھیتر کی آواز ٹھیک کہتی تھی۔ کو ئی گرو اُسے مکتی نہیں دلا سکتا تھا۔ اسی لئے تو اسے سنسار میں پھنسنا پڑا ۔ ناری ، دھن اور شکتی کے جال میں پھنسنا پڑا تھا۔اسی لیے تو اسے بیوپاری بننا تھا۔جواری اور شرابی اور دھن وان بننا تھا۔یہاں تک اس بھیتر کا سنیاسی اور سادھو مر جائے ۔ اسی لیے تو ان بھیانک برسوں کو جھیلنا تھا۔ متلی برداشت کرنی تھی اور یہ سبق سیکھنا تھا کہ وہ کھوکھلی ، لا حاصل زندگی کے باؤلے پن کو اس وقت تک جسے جائے جب تک کہ وہ نراش کا کڑوا مزہ نہ چکھ لے تاکہ لذتوںکا جُویا سدھارتھ اور جائیداد کا مالک سدھارتھ تو اپنی موت نہ مرجائیں ۔وہ مر چکا تھا اور اس نیند سے ایک نیا سدھارتھ جاگا تھا۔ اب وہ بھی بوڑھا ہو گیا ۔ مر جائے گا ۔ سدھارتھ بھی عارضی تھا ۔ ساری شکلیں عارضی ہیں مگر آج وہ نوجوان تھا۔ بچہ تھا۔ ایک نیا سدھا رتھ تھا اور وہ بہت خوش تھا۔
اور اب اشوکی گو تم پر تیسری نظم ” گوتم نال جھیڑا ” کی طر ف آتے ہیں ۔ یہ نظم 16صفحات اور 16حصوںپر مشتمل ہے ۔ یہ بہت خو ب صورت نظم ہے اور یقینا اس قابل تھی کہ اس کے عنوان کو کتاب کے ماتھے پر لکھا جائے اور اسی لیے لکھا گیا۔ اس میں اشو نے گوتم کو وسیع تناظر میں دیکھا ہے۔
دیداں اگوں، واراں اگوں
انتم ساراں اگوں
ہو ن منا کے اگپنیاں اگوں
رتھ سواراں اگوں
جوگیا نال اینویں جوگیا اگوں
چیتر بہاراں اگوں
ہتھ اپنے دے دس ئِ چ ہووے
ہتھ اپنے دی ریکھا
راج کما ر سدھا رتھ وانگوں
بھو گے کو ن بھلیکھا
جیون دی ایں جو گ کتھاویں
تن پئے جو گ اَولے
نمرھیاں دلوں انت نما نی
روح اپنی دی رَلے
باہروں ویندی رات پساوے
اندروں ویندی پَلے
جے تئیں کو ہتر ا مَن ھِ اپنا
جے تئیں کو ہترا ویہڑا
تیڈے نال وی ہمدوں جھیڑا
اپنے نال وی جھیڑا
ایک گوتم ہمیں ” آگ کے دریا ” میں نظر آتاہے۔
مگر تمہارے ہم نام گوتم نے تو کہا تھاکہ اگر آواز ابدی ہے تو زبان سے پہلے ہی لفظ سنائی دیے جانا چاہیے کیونکہ آکاش اور ہمارے کانوں کے درمیان کو روک نہیں ہے۔ ہری شنکر نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا ۔
” لفظ بھی ابدی ہے ”__گو تم نے جواب دیا۔ حرف م ہمیشہ موجود ہے یا حرف ن ۔ اس کو جب بھی ادا کیا گیا ہوگا۔ اس کی آواز یہی رہی ہو گی ۔ جیمنی کہتاہے کہ آواز اس لیے ابدی ہے کہ سننے کے بعد دماغ کو یاد رہی ہے اورکبھی ختم نہیں کی جاسکتی ”۔
”؟ اور اسی لیے ویدوں کو __کیو نکہ وہ الفاظ ہیں ۔ کبھی رد نہیں کیا جا سکتا __”ہری شنکر نے نظر اٹھاکر پوچھا ” تم کیسے فلسفی ہو جو الفاظ میں یقین نہیں رکھتے ۔” گو تم نے جھنجھلا کر جواب دیا۔ پانئی تمہارے تکسشلا کے استاد نے کہاتھا۔ ” اپنے یا دوسروں کے خیالات کے مظاہر صرف الفاظ ہی ہوسکتے ہیں۔ ان کی ماہیئت کامطالعہ کس کرنا کس قدر ضروری ہے ۔ الفاظ کے راستے کی بنا خالص خیال تک کس طرح پہنچ پاؤ گے ؟اور الفاظ کاپہرا کر تک گن ہے اور مادہ ابدی ہے ۔ وید زبان کی شکل برہما ہے اور مادہ برہما ہے۔
مگر جب ایودھیا میںداخل ہوا تومجھے پتہ چلا کہ سر ابھی باقی ہیں ۔گوتم زندگی کا پھیلاؤ بہت زبردست ہے ملک ” بستیاں ۔ نئے نئے لوگ ۔ بھانت بھانت کی بولیاں میں پاٹلی پتر سے لے کر پشکر وتی تک سارا راستہ یہی کھڑاؤں پہنے پہنے طے کیا ہے۔
یہ جس گوتم کا اب ذکر آیا ہے ۔ یہ ہرمن ہیسیکاہو ۔ قرةالعین حید ر کایا اشولال کا ___ یہ وہ گوتم ہے جو ہمارے دل و دماغ میں موجود رہتاہے ، مسلسل دنیا کی بے ثباتی کی طرف راغب کر تا ہے اور ہم میں تیاگنے کی صلاحیت پیدا کرتاہے ۔ جب ہم دنیا کی ہو س میں بہت آگے نکل جاتے ہیں تو وہ ہمیں سنیاس لینے پر آمادہ کرتا ہے۔
وہ گھنا جنگل جو ہماری ذات میں موجودہے ۔ اس میں ہمیں تپسیا پر آمادہ کرتا ہے ۔ وہ ہمیں احساس دلاتاہے کہ اپنے اند ر کی دنیا فراموش نہ کرو ۔اشولال ایک ایسا بے مثال شاعر ہے جو اپنی ذات کے جنگل سے خوب واقف ہے ۔ وہ جب جنگل سے تھوڑی دیرکے لیے باہر آتا ہے تو اس کے ہاتھ میں لفظوں کی خوب صورت مالا ہوتی ہے۔ یہی اس کی شاعری ہے۔ اشولا ل صر ف شاعر نہیں ___ اس کے اندر ایک جہان آبادہے۔ایسے شاعر اردو میںتو بہت کم ہیںا ور سرائیکی میں تو وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اشولال سے میرا تعلق ایک زمانے سے ہے ۔ ملا قات کا تسلسل کبھی نہیں رہا ہے لیکن میں نے اسے ہمیشہ اپنے قریب محسوس کی۔ یہی اس کے فن کی سچائی ہے۔
آخر میں یہ منظر دیکھیں جسے ہر من ہیسے نے مصور کیا ۔
”جب واسو دریاکنارے اپنی جگہ سے اٹھا ۔جب اس نے سدھارتھ کی آنکھوں میں جھانکا اور ان میں عالمانہ اطمینان کو چمکتے دیکھا تو اس کے کندھے کو اپنے خاص مہربان اور محافظانہ اندازمیں ہولے سے چھوا اوربولا۔ ” میں اسی لمحے کامنتظر تھا۔میرے دوست ، اب وقت آگیاہے کہ مجھے جانے دو ۔ میں بہت دنوںتک ناؤ کا مانجھی واسو دیو بنا رہا ۔ اب اس کا انت ہوا۔ کٹیا کو الوداع۔ دریاکو الوداع اور سدھارتھ کو الوداع۔
سدھارتھ اس جانے والے کے آگے جھک گیا ۔” مجھے معلوم تھا”۔ اس نے کہا ۔” تم جنگل میں جارہے ہو ”۔ ہاںمیں جنگل میں جارہا ہوں۔ میں تمام اشیاء کی یکتائی میں جارہا ہوں۔
چمکتے دمکتے نو ر برساتے واسو دیو نے کہا ۔ تو یو ں وہ چلا گیا ۔ سدھارتھ اسے دیکھتارہا۔ بہت مسرت اور متانت سے ، وہ اسے دیکھتا رہا کہ اس کا پگ پگ شانت ہے ۔ چہرہ دمکتاہے ، پیکر روشن ہے۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ