محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی دھندے کے بند ہونے کا کیا ماتم کرنا۔ ایک بند ہوتا ہے تو دس کھل جاتے ہیں۔
لاہور کی قدیم اور سب سے بڑی کتابوں کی دکان فیروز سنز بک شاپ متصل الفلاح بلڈنگ مال روڈ کچھ عرصہ قبل بند ہوئی تو زندہ دلان لاہور کی زندہ دلی میں کوئی فرق نہیں آیا۔ جنھوں نے کتابوں کے اس خزینے پر شٹر گرتے اور کرائے کے لیے خالی کا بورڈ لگا دیکھا انھوں نے بھی یہی سوچا ہوگا کہ آخر دو کنال پر پھیلی اس دکان کی ضرورت کیا تھی۔
میں متفق ہوں۔ لاہور میں Reading اور The Last Word جیسے جدید کتاب گھر بھی موجود ہیں۔ فیروز سنز کی بھی شہر میں اور شاخیں ہیں، وہاں سے خریدو اور آن لائن آرڈر کر لو، کہیں سے ڈاؤن لوڈ کر لو، اور ویسے بھی کتابیں پڑھنے سے اس ملک کا کون سا مسئلہ آج تک حل ہوا ہے۔ جتنے پیسوں کی کتاب آتی ہے اتنے میں فوڈ سٹریٹ پر دو بندے مل کر کڑاہی کھا سکتے ہیں۔
لیکن کیا کیا جائے کہ میری فیروز سنز بک شاپ سے ایک حسین اور کسی حد تک شرمناک یاد وابستہ ہے، دکان بند ہونے کا سنا تو یادوں کا دریچہ کھل گیا۔
یاد رہے کہ اعلیٰ تعلیم کے لیے لاہور آنے والے کئی بچوں کی طرح ہماری پرورش بھی ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں یہ سمجھایا جاتا تھا کہ گھر میں ایک کتابِ مقدس موجود ہے تو کسی اور کتاب کی کیا ضرورت ہے۔ والدین کا خیال تھا کہ جفاکش ارائیں بچوں کا کردار کہانیاں اور کتابیں پڑھ کر خراب ہو سکتا ہے۔ اس لیے کتابوں کی دکان میں سال میں صرف ایک مرتبہ جانا ہوتا تھا۔
اوکاڑہ کے مرکز میں واقع مقدر بک شاپ بہت بڑی لگتی تھی۔ لیکن صرف سلیبس کی کتابیں خریدی جاتی تھیں اور اردو کی کتاب پہلے ہی دن چاٹ لی جاتی تھی۔ باقی سال کسی مہمان کے رہ جانے والے ڈائجسٹ، کسی محلے دار کے گھر پڑے پرانے اخبار یا گاؤں کے ڈاکٹر کے پاس آنے والے فیملی پلاننگ کے رسالے ‘سکھی گھر’ سے استفادہ کیا جاتا تھا۔
تو اس ماحول سے نکل کر جب پہلی دفعہ لاہور کی فیروز سنز بک شاپ میں داخل ہوئے تو ہماری حالت وہی ہوئی جو منٹو کے ایک پینڈو کردار کی لاہور کے بازار حسن میں جا کر ہوتی ہے۔ یااللہ اتنی کتابیں، اتنے رنگ برنگے ناول، شاعری کا سیکشن، تاریخ کی کتابیں، آپ بیتیاں، اوپر سے اتنا ٹھنڈا ماحول، اونچی چھت سے لگے بہت نیچے تک لٹکتے پنکھے، کتاب اٹھاؤ، کچھ صفحے پڑھو اور واپس رکھ دو، کوئی پوچھنے والا نہیں کہ خریدو گے بھی یا مفت کے چسکے لیتے رہو گے۔
جیب میں پیسے کم ہوتے تھے، کسان گھرانے کی تربیت نے بھی یہی سکھایا تھا کہ کتاب خریدنا فضول خرچی ہے اس لیے مفتے میں کتابیں پڑھنے کی کچھ عادت سی پڑ گئی۔ کالج کے ہاسٹل میں اور بھی چھوٹے بڑے شہروں سے لڑکے آئے تھے جن کو لاہور میں کوئی نہیں جانتا تھا، زندہ دلان سے ذرا خوف بھی آتا تھا۔ ایسے میں ہم اپنے پینڈو پن کو چھپانے کے لیے اور شہری بچوں کو امپریس کرنے کے لیے کسی کتاب یا رسالے کو ڈھال بنائے رکھتے تھے۔
فیصل آباد سے آئے ہوئے ایک شہری بچے نے کہا یہ تم ہر وقت پڑھتے رہتے ہو، مجھے بھی پڑھنا ہے لیکن مجھے نہیں پتہ کہ کون سی کتابیں پڑھنی چاہیئں۔ میں نے کہا فیروز سنز چلتے ہیں۔ دل میں لالچ کی ایک لہر سی اٹھی اور پوچھا کہ کتنی کتابیں خریدو گے؟ اس نے کہا سات آٹھ۔ میں نے دل میں کہا خریدے گا تو اور پڑھوں گا میں۔ اور یوں لالچ سے مغلوب ارائیں بچے کا دل وحشی ہوگیا اور ایسی ایسی کتابیں خرید ڈالیں جن کا صرف نام سنا تھا۔
سکول میں علامہ اقبال کی نظموں کو رٹا لگاتے آئے تھے تو بال جبریل تو بنتی تھی۔ فیض کا نام سنا تھا یہ سمجھ نہ آیا کہ کتاب کا نام دستِ صبا کیوں ہے۔ کیا ہوا کے بھی ہاتھ ہوتے ہیں۔
علی پور کا ایلی سکول کی لائبریری میں کتاب دیکھی تھی چھونے کی اجازت نہیں تھی، خرید لی۔ کرنل محمد خان کی بجنگ آمد کا ایک چیپٹر پڑھا تھا پوری کتاب اٹھا لی۔ حالت وہی تھی جو الف لیلیٰ کی کہانی میں اس بچے کی ہوتی ہے جو بازار میں جاتا ہے تو مٹھائی کی تمام دکانیں کھلی لیکن دکاندار غائب۔
اس خزانے کو سمیٹ کر ہاسٹل واپس آئے اور دل میں پلان بناتے آئے کہ پہلے کون سی پڑھیں گے، ساتھ دل میں تھوڑی ندامت بھی کہ نئی نئی دوستی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔
ہاسٹل پہنچ کر نئے دوست نے کہا یہ ساری کتابیں تمہاری ہی ہیں۔ برتھ ڈے پریزینٹ۔
میں نے پوچھا کون سی برتھ ڈے۔ ہمارے گاؤں میں کتاب کے علاوہ برتھ ڈے کو بھی بدعت سمجھا جاتا تھا اور ہمارا خیال تھا کہ یہ چیز کوئی فلموں میں ہوتی ہے جہاں وحید مراد بیٹھ کر پیانو بجاتا ہے اور اداس گانا گاتا ہے۔ نئے دوست نے کہا میں نے تمہارے سٹوڈنٹ کارڈ پر دیکھا ہے آج تمہاری تاریخ پیدائش ہے۔
ندامت قہقہے میں بدل گئی اور میں نے شہری بابو کو سمجھایا کہ گاؤں میں تاریخ پیدائش کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، جس دن بچے کو سکول داخل کرانے جاتے ہیں استاد پانچ سال پیچھے کر کے اسی دن کی تاریخ ڈال دیتا ہے۔ جس دن سکول میں ہمارا داخلہ ہوا ماسٹر صاحب نے پانچ سال پیچھے کر کے یکم اپریل ڈال دی۔ ہمارے والدین کو اپریل فول کا علم نہیں تھا۔ ماسٹر صاحب کے بارے میں آج بھی یقین سے نہیں کہہ سکتا۔
ہمارا خیال ہے کہ کتابیں پڑھنے سے یقیناً انسان بہتر نہیں ہوتا۔ زندگی میں ذاتی لائبریریوں والے درندہ صفت بھی دیکھے ہیں اور چِٹے ان پڑھ بھی لیکن اب بھی کتاب کو صدقہ جاریہ سمجھتا ہوں اور کوئی بہت اچھی کتاب پڑھوں تو کسی نئے یا پرانے دوست کو دے دیتا ہوں۔
یہ بابرکت واقعہ بتانے کا مقصد یہ ہے کہ فوڈ سٹریٹ کے اپنے مزے ہیں لیکن اچھی سے اچھی کڑاہی کا مزہ بھی اگلے دن بھول جاتا ہے لیکن کتاب میں پڑھا ایک اچھا جملہ بھی ساری عمر ساتھ رہتا ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر