رؤف لُنڈ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے ریٹائرڈ جرنیلوں کے کانوں میں پتہ نہیں کب اور کس ناہنجار نے یہ بات ڈال دی کہ آپ ھی وہ لوگ ہیں کہ جنکی نہ صرف ملک کی حکمرانی، ملکی اداروں کی سربراھی اور ہر شعبہ ہائے زندگی پر مضبوط گرفت ھے بلکہ آپ کی رائے بھی اس قدر مسلمہ ھے کہ جو آپ سے اختلاف تو کیا، آپ سے مختلف بات بھی کہے تو وہ قابلِ گردن زدنی ٹھہرے ۔۔۔۔۔۔اس بات کی صداقت جاننی ہو تو سماء ٹی وی کے ایک پروگرام میں ریٹائرڈ جنرل اعجاز اعوان کی گفتگو یا تجزیہ سن لیجئے۔۔
موصوف فرماتے ہیں کہ یہاں ملک میں کوئی بحران نہیں۔ بھوک ننگ کا یہاں وجود نہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ اپنی اس دانش کے ثبوت میں دلیل دیتے ہیں کہ ” لاہور میں کوئی سڑک پر بھوکا نہیں سوتا۔ روزانہ صبح شام اپنے ہاتھوں میں بیلچے لے کر فٹ پاتھوں پر بیٹھنے اور بکنے والے مزدور محض مزدوری نہ ملنے کا ناٹک کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ سرائیکی وسیب سے راولپنڈی آنے والے لوگ ایک مکان ایک ہزار روپیہ کرائے پر لیتے ہیں۔ اس کرائے کے گھر میں پچیس افراد رہتے ہیں۔ یہ پچیس لوگ سارا دن بھیک مانگتے ہیں۔ اور ایک ایک ہزار روپیہ کما کر ایک گھر کے پچیس مکین پچیس ہزار کما لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ریٹائرڈ جنرل صاحب کا تجزیہ نہیں۔ بلکہ یہ تجزیہ ان کے ایک ذہنی مریض ہونے کی نشاندھی کرتا ھے۔
ایسے نفسِ ذات کے مریض دنیا جہان کے مسائل اور ان کی آمدن کا پیمانہ اپنی لُوٹ مار کی دولت اور اس دولت سے حاصل شدہ سُکھ کو قرار دیتے ہیں ۔ ورنہ کوئی اس ر جنرل سے پوچھے کہ جناب ! صرف راولپنڈی ھی نہیں سارے پاکستان میں کوئی ایک کونہ ایسا دکھا دیں کہ جس مکان میں پچیس لوگوں کے رہنے کی گنجائش ہو اور وہ ایک ہزار روپیہ کرائے پر مل جاتا ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
ان کو کوئی جا کے بتلائے کہ یہ طبقاتی سماج ھے۔ یہاں ہر کسی کو چاند میں پینگھ نظر نہیں آتی بلکہ اکثریت کو تو چاند روٹی دکھائی دیتا ھے۔۔۔۔ یہاں بقول کامریڈ ٹراٹسکی پھولوں کی کیاری میں لگے پھول کوٹھی کے مالک کو خوشگوار اور معطر لگتے ہیں۔ اس پھلواڑی میں گوڈی کرنے والے مزدور کو نہیں۔۔۔۔۔
اس طرح کے تجزئیے اور باتیں اسی شاہانہ سوچ کا تسلسل ہیں کہ جو ایک وقت کی روٹی نہ کھا سکنے والوں کو سیب کھانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔ ایسے شکم سیر ھی ہوتے ہیں جو مظلوموں اور محروموں کے لئے جہنم زار بنا دئیے جانے والے ملک کو ارضی جنت یا جنت نظیر کہتے ہیں ۔۔۔۔۔ وطنِ عزیز میں اس طرح کے تجزئیے اور تجزیہ نگار بے کسوں اور بے کسوں کی ذلتوں کا باعث تو تھے ھی مگر اب ان کروڑوں محنت کشوں کی توہین کے بھی مرتکب ہونے لگ گئے ہیں۔۔۔
وہ بھی تو وقت تھا اور بھلے سرمایہ دارانہ نظام کے طبقاتی سماج کا وقت تھا جب منافقانہ ھی سہی بیلچے اور کدال بردار محنت کشوں کی عظمت تسلیم کی جاتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ مگر اب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ لیکن ہمیں محنت کشوں کی کھوئی ہوئی عظمت کی قسم ان کی یہ عظمت دنیا بھر میں اور بالخصوص پاکستان میں پھر سے تسلیم کی جائیگی اور بہتر میعار پر تسلیم کی جائیگی۔ ایسا میعار جس کا پیمانہ لوٹ مار کی دولت نہیں۔ بلکہ باہمی اور برابری کی محنت کی شراکت ہوگی۔ اور اس سرخ سویرے کے طفیل ہوگی جس کی پہلی کرن پڑتے ھی پہلا کام غیر طبقاتی سوشلسٹ سماج کی تعمیر ہوگا ۔ ایسا سماج جہاں انسان سر بلند اور انسانیت سرخرو ہوگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سچے جذبوں کی قسم جیت محنت کش طبقے کا مقدر بن کے رھے گی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
مبارک باد اور سرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اک ذرا صبر کہ جبر کے دن تھوڑے ہیں۔۔۔رؤف لُنڈ
کامریڈ نتھومل کی جدائی ، وداع کا سفر اور سرخ سویرے کا عزم۔۔۔رؤف لُنڈ
زندگی کا سفر سر بلندی سے طے کر جانے والے کامریڈ کھبڑ خان سیلرو کو سُرخ سلام۔۔۔رؤف لُنڈ
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر