رؤف کلاسرا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب وزیراعظم عمران خان نے اپنی تقریروں میں ایک ہی لفظ دہرانا شروع کیا تو شروع میں سمجھ نہ آئی کہ یہ Elite Capture کیا ہوتا ہے۔ غور کیا تو پتہ چلا ان کا مطلب تھاکہ بڑے اور طاقتور لوگ جب ریاست کے سب وسائل پر قبضہ کر لیتے ہیں اور دوسرے طبقات کیلئے کچھ نہیں چھوڑتے تو پھر یہ ٹرم استعمال ہوتی ہے۔ جب چند لوگ سب کچھ کھانے اور عیاشی پر یقین رکھتے ہوں تو پھر یہ انجام ہوتا ہے کہ ریاست کے وسائل چند لوگوں کے ہاتھوں میں آ جاتے ہیں‘ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو جاتے ہیں‘ اگرچہ حکمران خود اس ٹرم کو نہ سمجھتے ہیں نہ ہی سمجھنا چاہتے ہیں۔
ابھی سیکٹر ای الیون میں نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کے سکینڈل کو ہی دیکھ لیں۔ اس سے بڑی مثال کیا ملے گی کہ ایلیٹ کیسے سب وسائل پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ اسلام آباد کا وہ سیکٹر ہے جسے پچھلے دنوں بارش کے پانی نے ڈبو دیا تھا۔ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن بطور خیراتی ٹرسٹ رجسٹرڈ ہے اور سوسائٹی کا مقصد پولیس شہدا کے خاندانوں کو ریلیف دینا تھا۔ خصوصاً پولیس شہدا کے خاندانوں کی فلاح کیلئے یہ سیکٹر بنا۔ زیادہ سے زیادہ ایک پلاٹ یہاں پولیس ملازمین کو مل سکتا تھا‘ لیکن پھر ایک لوٹ مار مچ گئی۔ کروڑوں روپے کے پلاٹس غیرقانونی طور ایسے ایسے لوگوں نے الاٹ کرائے کہ نام پڑھیں تو یقین نہ آئے۔ ایک پلاٹ تک بات سمجھ آتی تھی لیکن جب پولیس افسران کو پانچ پانچ یا دس دس پلاٹ ایک ہی گھر میں بیوی بچوں، داماد، داماد کی ماں، بیٹیوں کی ساس تک کو الاٹ ہوئے تو اندازہ کریں لوٹ مار کہاں تک پہنچی۔ غیر قانونی طریقے سے پلاٹس حاصل کرنے والوں میں پولیس سروسز کے افسران اور انکے رشتے دار شامل ہیں جن کا اس سیکٹر سے دور دور تک تعلق نہ تھا۔ اور تو اور سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے بھی کروڑوں روپے مالیت کے 2 پلاٹس الاٹ کرائے اور اپنی اہلیہ کے نام پر بھی لیا۔
عدالت میں پیش کی گئی سرکاری لسٹ کے مطابق اس سیکٹر میں سینکڑوں کے حساب سے بڑے پولیس افسران نے پلاٹ الاٹ کرائے۔ آئی جی پولیس افضل علی شگری نے ایک پلاٹ اپنے نام پر لیا، دو پلاٹ اپنی بیگم، اور دو پلاٹ اپنی بیٹی کے نام پر لیے۔ آئی جی پولیس ایم محسن اور ان کے بیٹے اور بیٹی نے 4 پلاٹس لیے۔ آئی جی اور سابق ایم ڈی نیشنل پولیس فاؤنڈیشن میاں محمد امین کے تین بیٹوں نے 3 پلاٹس لیے‘ ان کی بیٹی، داماد اور داماد کی والدہ نے 3 پلاٹس لیے۔ ڈی آئی جی لئیق احمد خان نے 2 پلاٹس لیے‘ ان کے بیٹے، بیٹی اور اہلیہ نے بھی 3 پلاٹس لیے۔ ڈی آئی جی سکندر حیات شاہین، ان کی اہلیہ رفعت شاہین، دو بیٹیوں فاطمہ شاہین‘ ڈاکٹر آمنہ شاہین اور رشتے دار محمد خاور نے 5 پلاٹس لیے۔ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کے سابقہ ایڈیشنل ڈائریکٹر عبدالحنان نے اپنے سمیت 4 بیٹوں اور بیٹی کے نام پر 7 پلاٹس لیے۔ نیشنل پولیس فاؤنڈیشن کے سابقہ افسر خدا بخش نے اپنے سمیت بیگمات اور بیٹی اور بیٹے کے نام پر 12 پلاٹس لیے۔
کچھ پلاٹس صرف 100 روپے میں بھی الاٹ کیے گئے۔ ظہیر محمود نامی تاجر اور ان کے بھائی مدثر شیراز کو سو سو روپے میں 2 پلاٹس الاٹ کیے گئے۔ ڈی ایس پی حسین شاہ شیرازی کی اہلیہ سیدہ صفیہ کاظمی اور بیٹے سید محمد شاویز کو سو سو روپے میں 2 پلاٹس الاٹ کیے گئے۔ عبدالستار نامی تاجر اور ان کی اہلیہ شفقت ستار کو 2 پلاٹس سو سو روپے میں الاٹ کیے گئے۔ انہی عبدالستار کے بیٹے محمد احسن اور بھائی ارشد منیر کو 2 پلاٹس سو سو روپے میں الاٹ کیے گئے۔ طیب عزیز نامی تاجر اور ان کی اہلیہ رخسانہ طیب کو 2 پلاٹس سو سو روپے میں الاٹ کیے گئے۔ آئی جی عبدالقادر اور ان کی اہلیہ شاہین قادر نے 2 پلاٹس حاصل کیے۔ آئی جی عبدالرزاق اور ان کی اہلیہ فرحت رزاق نے 2 پلاٹس لیے۔ آئی جی افتخار رشید کی اہلیہ گلشن افتخار اور بیٹی شیزہ افتخار نے 2 پلاٹ لیے۔ آئی جی محمد رفیق حیدر اور ان کی اہلیہ نبیلہ رفیق نے 2 پلاٹس لیے۔ آئی جی رانا الطاف مجید اور ان کی اہلیہ سلویٰ رانا نے 2 پلاٹس لیے۔ آئی جی سید محب اسد اور ان کی اہلیہ نگار محب نے 2 پلاٹس لیے۔ ڈی ایس پی (1998 تا 2003) سید عابد عباس اور ان کی اہلیہ رومانہ عابد نے 4 پلاٹس حاصل کیے۔ ایس پی حق نواز کیانی‘ ان کی اہلیہ پاکیزہ اور بیٹی حنا نواز نے 3 پلاٹس لیے۔ آئی جی بہرام طارق اور ان کی اہلیہ فریدہ سلطانہ نے 2 پلاٹس لیے۔ انسپکٹر چوہدری محمد اکمل اور ان کی اہلیہ فرزانہ اکمل نے 2 پلاٹس لیے۔ آئی جی وجاہت لطیف اور ان کے بیٹے احمد لطیف نے 2 پلاٹس لیے۔ آئی جی محمد نواز ملک اور ان کی اہلیہ ثریا نواز اور دو بیٹوں نصیر علی اور عارف حسین نے 4 پلاٹس لیے۔ آئی جی منظور احمد اور ان کی اہلیہ قیصر سلطانہ نے 3 پلاٹس لیے۔ بریگیڈیئر زاہد وحید بٹ اور ان کی اہلیہ ظل ہما نے 2 پلاٹس لیے۔ لیفٹیننٹ کرنل محمد افضل رانا اور ان کی بیٹی سعدیہ افضل رانا نے 2 پلاٹس لیے۔ فارن سروس کے افسر آغا باقر علی اور ان کے بیٹے آغا سبطین رضا نے 2 پلاٹس لیے۔ امجد بشیر نامی افسر کے دو بیٹوں امجد بشیر اور امتیاز بشیر نے 2 پلاٹس لیے۔ آئی جی اسرار احمد اور ان کی اہلیہ میمونہ اسرار نے 3 پلاٹس لیے۔ پی آئی اے کے افسر صغیر احمد اور ان کی اہلیہ شائستہ صغیر نے 2 پلاٹس لیے۔ بینکر ملک نذیر احمد اور ان کی اہلیہ نسیم اختر ناز نے 2 پلاٹس لیے۔ سید شوکت حسین نامی شخص کی اہلیہ سیدہ فرزانہ حسین اور بیٹی نورین بتول نے بھی 2 پلاٹس لیے۔ آئی جی سلطان اعظم تیموری اور ان کی اہلیہ نے 3 پلاٹس لیے۔ سراج دین نامی تاجر اور ان کے بھائی نیک بخت نے 2 پلاٹس لیے۔ غلام علی نامی افسر کی اہلیہ بلقیس اختر اور بیٹی بتول اختر نے 2 پلاٹس لیے۔ عبدالعزیز نامی شخص کے دو بیٹوں احسن الحق اور رضوان الحق نے 2 پلاٹس لیے۔ عارف قیوم نامی تاجر اور ان کی اہلیہ نجمہ عارف نے 2 پلاٹس لیے۔ ڈائریکٹر ایف آئی اے ہمایوں جاوید نے 2 پلاٹس لیے۔ فضل محمود ملک نامی تاجر نے 2 پلاٹس لیے۔ کیپٹن محمد بشیر شاکر کی اہلیہ غلام صغریٰ اور بیٹے جاوید بشیر نے 2 پلاٹس لیے۔ چوہدری امتیاز احمد کی اہلیہ زاہدہ پروین اور بیٹی زہرہ امتیاز نے 2 پلاٹس لیے۔ سید ابن علی رضوی اور ان کی اہلیہ ڈاکٹر بتول نے 2 پلاٹس لیے۔ جہانگیر اختر نامی تاجر اور ان کے بھائی تنویر اختر نے 2 پلاٹس لیے۔ ڈی ایس پی بابر ممتاز نے 1 پلاٹ لیا۔ محمد فرحان غوری اور ان کے بھائی محمد فیصل غوری نے 2 پلاٹس لیے۔ اختر محمود نامی تاجر اور ان کی اہلیہ نائلہ اختر نے 2 پلاٹس لیے۔ محمد افضل اور ان کی بیٹی عتیقہ خان نے 2 پلاٹس لیے۔ محمود فاروق خان اور بھائی مسعود اکبر نے 2 پلاٹس لیے۔ آئی جی اور سابق ایم ڈی نیشنل پولیس فاؤنڈیشن حافظ ایس ڈی اور ان کے دو بیٹوں نے 3 پلاٹس لیے۔ این پی ایف کے سابقہ سائٹ انجینئر محمد زمان نے 2 پلاٹس لیے۔ سرکاری افسر سید رفعت مصطفی اور ان کی اہلیہ نیّر رفعت نے 2 پلاٹس لیے۔فاؤنڈیشن کے اہلکار ممتاز الٰہی نے اپنے اور اہلیہ کے نام پر 3 پلاٹس‘ عبدالجمال خان نے اپنے اور بیٹی کے نام پر 2 پلاٹس لیے۔ فاؤنڈیشن کے اہلکار محمد خان نے اپنے اور اہلیہ کے نام پر 2 پلاٹس لیے۔
یہ جو چند نام بتائے ہیں یہ صرف Tip of iceberg ہے۔ آپ اس سے اندازہ لگا لیں کہ پاکستانی ایلیٹ کیسے سب ذرائع پر قبضہ کر لیتی ہے۔ آپ نے حال ہی میں اسلام آباد میں بارش کے بعد سیلاب کے مناظر دیکھے یہ اسی سیکٹر کے ہی تھے‘ جہاں پاکستان پولیس کے بڑوں بڑوں نے اَنّی مچائی اور اپنے خاندانوں کو کروڑ پتی بنایا۔ ویسے اکثر پولیس افسران اور ان کے بچے یہ پلاٹ بیچ چکے ہیں۔ اس طرح کا سکینڈل سرکاری بیوروکریٹس کا I/8 میں بھی آیا تھا کہ سی ڈی اے میں ڈیپوٹیشن پر گئے پچاس سے زائد ڈی ایم جی افسران نے سرکاری بس سٹینڈ کے ڈپو کی زمین کو پلاٹوں میں تقسیم کرکے خود کو الاٹ کرکے کروڑوں کی دیہاڑیاں لگا لیں تھیں۔ یہ کہانی پھر سہی۔
یہ بھی پڑھیے:
ملتان میں قتلِ آم||رؤف کلاسرا
آخر سیکھ ہی گئے!۔۔۔رؤف کلاسرا
پُرانے جال ، پُرانے شکاری۔۔۔ رؤف کلاسرا
ایک بڑا ڈاکا اور بڑی واردات تیار… ۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(1)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(2)۔۔۔ رؤف کلاسرا
پانچ ارب کی واردات کی داستان …(3)۔۔۔ رؤف کلاسرا
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر