دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

ملیے شمائلہ نورین المعروف شمائلہ حسین سے(2)|| شمائلہ حسین

میں اپنے کوئی بڑی شے ہونے کے زعم میں ان کے سامنے پیش ہوگئی کہ مضمون پڑھنے کے مقابلے میں ہمیں بھی شامل کر لیں۔

شمائلہ حسین 

ملیئے شمائلہ نورین المعروف شمائلہ حسین سے۔۔۔
قسط نمبر 2:
میٹرک تو ہوگیا اب معاملہ آن پڑا کالج میں داخلے کا۔
میں نے اپنی پاکٹ منی جوڑ جوڑ کر ایف ایس سی کے لیے نوٹس خرید لیے اور گھر میں پڑھتی رہی ۔
مجھے بیالوجی میں شدید دلچسپی تھی۔
خواہش تھی کہ ڈاکٹر بنوں جیسا کہ ہم لوئر مڈل کلاس بچوں کا خواب ہوتا ہے بعینہٖ میرا بھی یہ ہی خواب تھا۔
لیکن جب سرکاری کالج میں داخلے کے لیے گئے تو پتہ چلا کہ وہاں ایف ایس سی کے مضامین اختیار تو کیے جا سکتے ہیں مگر لیکچررز نہیں ہیں۔
انگلش جیسے لازمی اور مشکل سبجیکٹ کی بھی کوئی ٹیچر موجود نہیں تھی۔
کالج ابھی نیا نیا اپروو ہوا تھا اور ایک پرائمری سکول کی بلڈنگ میں کلاسز کا آغاز کردیا گیا تھا۔
لہذا مجھ جیسی طالبات کے لیے ایک بار پھر ٹیوشن اکیڈمیز کا مسئلہ درپیش ہوا۔
اور اپنے سر پر پڑھنے کا یارا نہ تھا کسی بھی طرح کی ناکامی کا منہ دیکھنے سے بہتر تھا آرٹ مضامین کے ساتھ ایف اے کیا جائے۔
چپ کر کے فزیکل ایجوکیشن، اسلامیات اختیاری اور ایجوکیشن کے اختیاری مضامین کے ساتھ داخلے کا قصد کر لیا۔
لیکن ایک بار پھر معاش کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا اور ابو جی نے سختی سے منع کردیا۔
کہ دس جماعتیں بہت ہوتی ہیں بس اب بڑی بہنوں کی طرح گھرداری سیکھو۔ ویسے بھی ہم نے لڑکیوں کی کمائی نہیں کھانی ہے۔
میں صدا کی بیبی بچی چپ ہوگئی۔
فارمز اور پراسپیکٹس گھر لا کر رکھ دی۔
اور خود ڈپریشن میں چلی گئی۔
بیمار ہو گئی ، والدین مجھے دیکھ رہے تھے لیکن کر کچھ نہیں سکتے تھے۔ مجھ سے بڑی بہن ایسے میں میری مدد کو آئی اس نے اپنے سونے کے ٹاپس جو ایک پرائیوٹ سکول میں پڑھا پڑھا کر بنائے تھے۔
امی کو دیے کہ انہیں بیچ کر اس کی فیس دے دیتے ہیں۔ کہ اسے پڑھنے کا شوق ہے کچھ غلط تو نہیں کہتی۔
میں یہ بات نہیں جانتی تھی کہ ان کی آپس میں کیا کھچڑی پک رہی ہے۔
نمازیں پڑھتی رہتی ، تہجدیں تک قضا نہ کرتی اور لمبے لمبے سجدوں میں روتی رہتی کہ اللہ میاں ! اگر پیدا کیا ہے تو راستے بھی دے۔
مجھے ایسے نہیں رہنا، میں اپنے ماں باپ کا دایاں بازو بننا چاہتی تھی لیکن صرف تھوڑے سے روپوں کی وجہ سے میں بھی گھر باندھ دی جاؤں گی۔اور یہ مجھے قطعاً منظور نہیں تھا
یہاں ایک اور بات بتاتی جاؤں کہ پرائیویٹ پڑھنے کا آپشن تھا میرے پاس لیکن مجھے یہ ضد بھی تھی کہ پڑھنا بھی ریگولر ہے اور اس کے لیے سبب بھی بنے ہی بنے۔
پھر ایک رات مجھے خواب آیا کہ میں گلی میں جا رہی ہوں اور میرے پیچھے بھینسیں بھاگ رہی ہیں میں بچنے کے لیے ایک سبز رنگ کے دروازے والے گھر میں گھس جاتی ہوں آگے ایک اور دروازے تھا میں اسے کھول کر مزید آگے جاتی ہوں تو ایک اور دروازہ نظر آتا ہے اسے کھولنے والی ہوتی ہوں کہ میری آنکھ کھل گئی۔
اگلے روز داخلے کی آخری تاریخ تھی میری بہن نے مجھے ساتھ لیا اور کالج لے جا کر میرا داخلہ کروا دیا۔
ابو جی نے مخالفت کی ، دادا ابو اور رشتے داروں نے خوب لتے لیے کہ جوان لڑکیوں کو بگاڑنے کی روش ہے۔ اسے دیکھ کر ہماری بیٹیاں بھی ضد کریں گی کہ وہ سکول کالج جائیں۔ اور یہ ان کی ” پرمپرا ” نہیں تھی کہ لڑکیاں گھر سے باہر نکلیں اور تعلیم حاصل کریں۔
لیکن میری امی اور بہن نے میرا ساتھ دیا۔
اب یہاں سے میری زندگی میں تین محسن مزید شامل ہوئے۔
میٹرک میں میری دو کلاس فیلوز جو میری محلے دار بھی تھیں میرے ساتھ سکول جایا کرتی تھیں۔
ان سے میری اچھی دوستی تھی۔ ان میں سے ایک کے بھائی ایم اے انگلش تھے اور کالج کے لڑکے لڑکیوں کو ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے۔
ان کا نام تھا محمد طارق جاوید۔۔۔
جب میٹرک کا رزلٹ آیا تو ان کی بہن یعنی میری دوست جو دو سال مسلسل شہر کی نامی گرامی اکیڈمی میں پڑھتی رہی اس کے محض سولہ نمبر مجھ سے زیادہ تھے۔
انہوں نے جب میرا رزلٹ کارڈ دیکھا اور یہ جانا کہ میں ٹیوشن کے بغیر اتنے مارکس حاصل کر گئی ہوں تو اسی لمحے انہوں نے فیصلہ لیا کہ فرسٹ ائیر میں انگلش تم دونوں مجھ سے پڑھو گی۔
میں ان سے کہنا چاہتی تھی کہ میں ٹیوشن فیس نہیں دے سکتی لیکن خود داری آڑے آئی اور خاموش رہی لیکن فرسٹ ائیر کی کلاسز شروع ہونے کے بعد بھی میں ان کے گھر پڑھنے کے لیے نہ گئی۔
انہوں نے مجھے پیغام بھیج کے بلایا اور باقاعدگی سے ایکسٹراکوچنگ کلاس اٹینڈ کرنے کی تنبیہہ کی۔
میں نے بہت حوصلہ کر کے کہہ دیا کہ میں فیس نہیں دے سکتی اس لیے مجھے ٹیوشن بھی نہیں پڑھنی۔
وہ مزاج کے بہت سخت استاد تھے بس انہوں نے اس لمحے مجھے تھپڑ رسید نہیں کیا مگر آنکھیں یک دم سرخ ہوگئیں اور تقریباً دھاڑتے ہوئے بولے ؛
"تم اتنی بڑی ہوگئی ہو کہ مجھ سے فیس کی بات کرو؟ ۔۔۔
یاسمین میری بہن ہے تو تم اس کی دوست ہو اس کا مطلب ہوا تم بھی میری بہن ہو۔۔
آج کے بعد شرافت سے پڑھنا شروع کردو اور خبردار کوئی چھٹی کی تو۔”
وہ دن اور پھر فورتھ ائیر تک مجال ہے جو کسی حال میں یہ پڑھائی رکی ہو۔
ہم سارے ٹیسٹ دیتے بار بار دیتے اور جب امتحان ہوتے تو انگریزی میں ہمارے امتیازی نمبروں پر لوگوں کو یقین نہ آتا۔
چار سال انہوں نے اپنی کمٹمنٹ کو نبھایا۔ اور میں نے کوشش کی کہ ان کی محنت کو رائیگاں نہ جانے دوں۔
خدا انہیں اجر دے اور ان جیسا ظرف ہمیں بھی عطا کرے۔
دوسری شخصیت جن سے واسطہ پڑا وہ تھیں اردو کی استاد مس شائستہ جمال۔۔۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ میں شروع سے ہم نصابی سرگرمیوں میں فعال تھی۔ اردو کا لہجہ باقی پنجابی لڑکیوں کے مقابلے میں کچھ بہتر تھا۔
اس لیے ہائی سکول سے ہی کمپئرنگ اور تقریری مقابلوں میں حصہ لیتی آ رہی تھی۔
May be an image of child
کالج میں ہماری پہلی تقریب تھی میلاد۔۔۔
نوٹس لگا کہ نعت خوانی اور مضمون پڑھنے کے مقابلے میں حصہ لینے کی خواہش مند طالبات مس شائستہ جمال سے رابطہ کریں۔
میں اپنے کوئی بڑی شے ہونے کے زعم میں ان کے سامنے پیش ہوگئی کہ مضمون پڑھنے کے مقابلے میں ہمیں بھی شامل کر لیں۔
مس شائستہ نے اردو کی کتاب کھول کر سامنے رکھ دی اور کہا کہ کوئی پیراگراف پڑھ کر سناؤ ۔
میں نے پڑھا اور دو جملوں کے بعد مس نے بہت بری ڈانٹ پلائی اور بھگا دیا کہ پڑھنا بھی نہیں آتا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے اپنے کچھ ہونے کے زعم کا پاش پاش ہونا ۔میں وہاں سے دور جا کر رونے لگی۔
تھوڑی دیر کے بعد ایک سینئر کلاس کی لڑکی آئی اور کہا کہ مس تمہیں بلا رہی ہیں۔ میری جان ہوا ہوگئی کہ مزید ڈانٹنے کی کوئی کسر رہ گئی شاید۔۔۔
بہر حال لرزتے ہوئے پتے کے ساتھ ان کے سامنے حاضری دی تو حیرت انگیز طور پر انہوں نے کہا دوبارہ پڑھو۔۔۔
میں نے پڑھنے کی جسارت کی تو انہوں نے ایک دو غلطیاں درست کروائیں اور ساتھ ہی کہا کہ آپ کا نام میں مقابلے میں شامل کر رہی ہوں۔
مجھ پر شادی مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی اور سمجھ میں آج تک نہیں آیا،
یہ دو پل میں کیا ماجرا ہوگیا تھا۔
اگلا دن اور بھی حیرتوں کا دن تھا مس شائستہ جمال نے اس سیشن میں ہونے والی سب تقریبات کی کمپئرنگ کی ذمہ داری مجھے سونپ دی۔
میری سینئر کلاسز میں بہت باصلاحیت لڑکیاں تھیں لیکن اللہ ہی جانتا ہے کہ مس شائستہ نے مجھ میں ایسا کیا پایا کہ ان کے بجائے مجھے اس قابل جانا۔۔۔۔
میری زندگی میں ان کا مقام کیا ہے اور ان گنت احسانات کا ذکر اگلی قسط میں ۔۔۔
جاری ہے۔۔

About The Author