عابدمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ فیس بک یا سوشل میڈیا کے دیگر پلیٹ فارمز کے مباحث میں متحرک رہتے ہیں اور ایک روشن خیال، خرد مند معاشرے کے خواہاں ہیں تو محتاط ہو جائیے کہ پاکستان میں آپ کے لیے دائرہ دن بدن سکڑ رہا ہے، بلکہ ممکنہ حد تک سکڑ چکا ہے۔ ایک ان دیکھا پھندا ہمہ وقت آپ کی گردن کے گرد موجود ہے۔ خود کو، اپنی گردن کو اس کے شکنجے س بچانا اب آپ پر ہی منحصر ہے۔ سو، سوشل میڈیا کی دنیا میں پھونک پھونک کر قدم رکھیے۔
یہ سادہ سی بات مان لیجیے کہ پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے، جناح صاحب خواہ کیسے ہی سیکولر کیوں نہ رہے ہوں، پاکستان کے قیام سے ہی اسے انتظامی طور پر سکیورٹی اسٹیٹ اور فکری طور ایک بنیاد پرست اسلامی ریاست بنانے کی تیاری شروع ہو گئی تھی۔ جس کی بنیادوں کو ضیاالحق نے خاصا مستحکم کیا اور آج یہ اپنے دونوں مقاصد میں کامیاب ہے۔ اس لیے سکیورٹی والوں کا اور بنیاد پرستوں کا زبردست باہمی گٹھ جوڑ ہے۔ یہ ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں۔
اسی لیے انھوں نے سب سے پہلے اپنا پہلا خطرہ کمیونسٹوں کو مارا اور ان کا صفایا کر دیا۔ آج پاکستان میں کمیونسٹ اپنا ایمان بچا لیں تو بہت ہے، تنظیم و تنظیم کاری کو خواب ہی جانیں۔ پھر انھوں نے اپنے عزائم کی راہ میں دوسری بڑی رکاوٹ نیشلسٹوں کو مارا۔ آج نیشلسٹوں کے سیاسی گروہ دیوار سے لگائے جا چکے۔ مسلح گروہ البتہ ختم ہونا یوں بھی مشکل ہیں کہ یہ سکیورٹی اسٹیٹ والوں کی فیورٹ پچ ہے۔ لڑنا مارنا ان کا پسندیدہ کام ہے۔ وہ ہر تحریک کو اسی پچ پر لانا چاہتے ہیں کہ اسی میں ان کا وسیع تجربہ بھی ہے اور اسی سے ان کی روزی روٹی بھی چلتی ہے۔
اب وہ لبرل و سیکولر کا نام لے کر ہر روشن خیال، خردمند آواز ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے برائے مہربانی اپنی آواز کی حفاظت خود کریں۔ پچھلے چند سالوں میں مذہبی جنونیت کے نمایاں واقعات ہی دیکھ کر عبرت حاصل کریں۔حال ہی میں سندھ میں عورت مارچ کے معاملے پر جو غلغلہ اٹھا اس نے سندھ کے صوفی ازم کی ساری ہوا نکال دی۔ ملاؤں کے جتھے نے روشن خیال عورتوں کے گرد ایسا شکنجہ کسا کہ سندھ کی پوری دانش مل کر بھی ان کا بال بیکا نہ کر سکی، اور عرفانہ ملاح جیسی بے باک خاتون کو نہایت بے بسی کے ساتھ ان وحشی ملاؤں کے سامنے اپنے ایمان کی تجدید کروانا پڑی۔
سو دوستوں، ساتھیوں، بھائیوں اور بہنوں، سوشل میڈیا سمیت پاکستانی سماج کی بڑھتی ہوئی مذہبی جنونیت کا مقابلہ کسی دلیل سے نہیں ہو سکتا۔ یہ اپنے عقیدے کی برچھی ہر سینے میں اتارنا چاہتے ہیں۔ غور کیجیے کہ ہمارے اور آپ کے پاس محض ایک رائے کے سوا کچھ نہیں۔ اس رائے سے نہ کوئی انقلاب آنا ہے نہ کسی کا ایمان خراب ہونا ہے، تو محض رائے رکھنے پر جان سے جانا کوئی ایسا اچھا سودا نہیں۔ اس کڑے وقت میں زندہ رہنا اور کام کرتے رہنا ہی اہم ہے، یہ نہ بے حسی ہے نہ بزدلی۔ اسے ایک انقلابی ذمے داری جانیں۔
اس سکڑتے دائرے کو بچائیں اور اس کو بڑھاتے رہنے کی کوشش کریں۔ ایسے کسی بھی واقعہ پر کڑھنے کی بجائے اسے ایک لٹمس ٹیسٹ جانیں اور اپنی فرینڈ لسٹ کی صفائی کرتے رہیں۔ صرف ہم خیال و رودار احباب کو ساتھ رکھیں اور اس دائرے کو وسیع کرنے کی سعی کرتے رہیں۔ اچھی کتابیں پڑھیں، اچھی فلمیں دیکھیں، میوزک سنیں، پیار کریں اور مسکرا کر آگے بڑھیں۔ اس کٹھن وقت میں بظاہر اس بے حسی مگر درحقیقت ایک انقلابی ذمے داری کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔
(30 جولائی 2020 – نشر مکرر)
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر