رمیض حبیب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ڈیرہ اسماعیل خان کا قدرتی حسن
( راغہ سر, غریبوں کا مری )
ڈیرہ سماعیل خان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت کے خزانے سے بہت نوازا ہے ایک طرف تو ڈیرہ اسماعیل خان لاکھوں کنالوں پر مشتمل میدانوں کا حامل علاقہ ہے تو دوسری جانب ڈیرہ اسماعیل خان کی مغربی طرف واقع کوہ سلیمان کی پہاڑی ہے جو کہ ڈیرہ شہر سے کوئی 95 کلومیٹر مغرب کی جانب واقع ہے
قدیم ایام میں ہندو اس پہاڑی کو "ستی پرلاد پربت ” کہتے تھے اور آج بھی اسی نام سے پکارتے ہیں اسی تخت سلیمان پر ہندوؤں کے شری پہلاد بھگت کا پوتر ستھان بھی تھا. تقسیم سے قبل گرمیوں کے موسم میں ہندو اور مسلمان درشن اور زیارت کرنے ڈیرہ شہر سے جاتے تھے .
اہل فارس اسے کوہ سلیمان اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ایک روز حضرت سلیمان علیہ السلام نے دورانِ سیر وسیاحت اس پہاڑ کی ہموار سطح پر اپنا تخت اتار کر کچھ دیر آرام فرمایا تھا اور اسی روز سے اسکا نام کوہ سلیمان پڑ گیا.
حضرت سلیمان علیہ السلام سے نسبت کے علاوہ پر پشتون قوم کے حضرت قیس بن عبد الرشید ( صحابی رسول ) کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے.
جب پٹھانوں کے جدامجد قیس عبدالرشید ( جنہیں صحابی رسول ہونے کا شرف حاصل تھا نے جہاد کی نیت سے اس کوہستان پر حملہ کیا اور اسے کفار سے خالی کرایا تو افغانوں نے اسے افغانی زبان میں
” قیسی غر "یعنی کوہ قیسی کہنا شروع کردیا ہے .
ایک روایت یہ ہے کہ قیس عبدالرشید نے وہیں وفات پائی اور وہیں مدفون ہوئے. قبر مبارک جو سطح سمندر 11295 فٹ بلندی پر ہے .
کوہ سلیمان کے دامن میں ایک ایسا سیاحتی مقام موجود ہے .جسے مقامی لوگ اپنی زبان میں راغہ سر کہتے ہیں یہ مقام کوئی جنت نظیر نظارے سے کم نہیں ہے.
ایک طرف کوہ سلمان کی بلند ترین چوٹیاں تو دوسری طرف آسمان سے باتیں کرتے یہ اونچے اونچے سرسبز پہاڑوں کے دل کش اور خوبصورت نظارے ہیں. ان ہی پہاڑوں کے درمیان میں ٹھنڈے پانی کی ایک بہتی نہر جو ایک دلکش نظارہ پیش کررہی ہے۔
راغہ سر کا قدرتی حسن دیکھ کر تو وادی ناران , کاغان یا مری کا منظر آنکھوں کے سامنے آ جاتا ہے۔
اتنی پرکشش جگہ ہونے کے باوجود راستہ میں روڈ جگہ جگہ پر کچھ خراب ہے جو کہ حکومتی عدم توجہ کا منہ بولتا ثبوت ہے حکومت وقت سے مطالبہ کرتے ہیں اس خوبصورت علاقہ پر توجہ دی جائے اور روڈ اور دوسرے مسائل حل کرلئے جائیں تاکہ زیادہ تعداد میں ٹوریسٹ اس مقام تک پہنچ سکیں۔
سرائیکی وسیب کا بہت بڑا نام جناب سعید اختر سیال صاحب نے سیاحتی مقام راغہ سر پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ”
راغہ سَر (درازندہ) میں تین مقامات ایسے ہیں جہاں سادہ سے ڈیم کے ذریعے پانی کو آب نوشی، آب پاشی اور بجلی کیلئے ذخیرہ کیا جا سکتا ھے. تخت سلیمان کے عین نیچے اس پُرفضا مقام پر نہ پینے کا پانی ھے، نہ بجلی اور نہ سڑک.
راغہ سر ایک سیاحتی مقام ہے ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان کا اور دور دراز سے لوگ یہاں سیر و تفریح کے لیے آتے ہیں .
کوہ سیلمان سے پانی کا چشمہ نکل کر راغہ سر کے پتھروں سے ٹکرا ٹکرا کر ایک حسین منظر پیش کرتا ہے یہ پانی صاف اور میٹھا ہے جو پینے کے لائق ہے۔ اسی پہاڑ پر کہو, بادام اور چیل کے درخت کثرت سے پیدا ہوتے ہیں.
چند سال پہلے اس سرسبز شاداب پہاڑ پر پہاڑی بکرے, مارخور, ہرن, ریچھ, چکور, دیگر جنگلی جانور انتہائی وافر مقدار میں موجود تھے.
یہ حسین وادی شیرانی قبیلہ کی ملکیت ہے اور صدیوں سے شیرانی قبائل اس خطہ کی امین ہے۔ یہاں پر شیرانی قبائل کی سلطان زئی شاخ آباد ہے جو کہ بہت مہمان نواز بہادر اور سخاوت سے بھرپور لوگ ہیں۔
اسی علاقہ کے باسیوں نے ماضی میں دوسرے شیرانی لشکروں کے شانہ بشانہ انگریزوں اور سکھوں کے خلاف عملیات میں حصہ بھی لیا ہے ۔
شیرانی قبیلہ جغرافیائی لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم ہے ایک حصہ ایف آر ڈیرہ اسماعیل خان جو کہ ڈیرہ اسماعیل خان ڈی سی اس علاقہ کا پولیٹیکل ایجنٹ ہوتا ہے کہ تحت کام کرتا ہے اس کو لرغہ شیرانی جبکہ دوسرا حصہ کوہ سلیمان کی مغرب کی جانب ضلع شیرانی میں آباد ہیں جو بلوچستان کا حصہ ہے جس کو برغہ شیرانی کہتے ہیں۔
شیرانی قبائل کے افراد نے تخت سلیمان کی چوٹی پر پتھروں سے کچھ رہائشی کمرے بھی بنائے ہوئے ہیں اور ہر سال گرمیوں کے موسم میں چوٹی پر آ کے رہائش کرتے اور کھانے میں ثوبت کی محفلیں سجاتے ہیں. گرمیوں کے موسم میں بھی یہاں کی چوٹیاں برف سے ڈھکی ہوتیں ہیں.
اے وی پڑھو
تانگھ۔۔۔||فہیم قیصرانی
،،مجنون،،۔۔۔||فہیم قیصرانی
تخیلاتی فقیر ،،۔۔۔||فہیم قیصرانی