محمد تنویر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کی بیوی اچھی اس کی دنیا بھی جنت ہے اور بیوی اچھی تب ہوتی ہے جب اسکا شوہر خیال کرنے والا، محبت کرنے والا ،عزت دینے والا، مکمل وقت اور حسب توفیق تمام جائز ضروریات بروقت پوری کرنے والا ہو۔ اور بیوی بھی اپنے شوہر کی استطاعت کو دیکھتے ہوۓ فرمائش کرے نہ کہ آمدن سے زائد خرچے کروانے کے لیے اسے مجبور کرے کہ کی فضول خواہشات پوری کرنے کے لیے ناجائز ذریعہ معاش کا سہارالے۔
جب میاں بیوی کے درمیان تعلقات اچھے ہوں تو زندگی کی گاڑی خوشی خوشی چلتی ہے۔آج کل ایسے واقعات بہت سننے کو ملتے ہیں کہ فلاں کی بیوی کسی نامحرم کے ساتھ ناجائز مراسم رکھتی ہے ،فون پرکسی اور یہ سب کرتے کرتے اپنے شوہرکو چوڑ کسی آشنا کے ساتھ چلی جاتی ہے یا پھر آشنا کے ساتھ ملکر اپنے شوہر کا قصہ تمام کرکے اس کے ساتھ اپنی نئی زندگی کا آغاز کر دیتی ہے۔
یا ایک نوجوان بیٹی جو کہ اپنی شادی سے پہلے کسی نامحرم کے ساتھ تعلقات استوار کر کے اپنے گھر سے بھاگ جاتی ہے اور یوں اس خاندان کی عزت کا جنازہ نکل جاتا ہے۔ تو ان دونوں صورتوں میں ذمہ دارکون ہے؟ ۔ اور آخر یہ دونوں ایسا قدم اٹھانے پر مجبور ہوجاتی ہیں یا خوشی سے یہ سب کرتی ہیں؟ سب سے پہلے اس کا ذمہ دار وہ والد ہے جو گھر میں تھانےدار بنا رہا اور اپنی بیٹیوں کوشفقت پدری سے محروم رکھا توقرب وجوار میں بیٹھے نامحرم سے بات کرتی بھیڑیوں نے انہیں اپنے جال میں پھنسایا اور انہیں ناجائز محبت کے ساتھ ساتھ ہر وہ چیز فراہم کی جس سے اس کے والد نے محروم رکھا ہوا تھا۔
اور یوں فقط چند دنوں کی محبت بھری حمایت ،حمدردی نے حوا کی بیٹی کو اپنے والد سے جدا کر دیا اور اسے وہ سب کچھ بھلوادیا جو اس کے والدین نے پیدائش سے لے کر پرورش کرنے اور بڑا کرنے تک جتنے بھی جتن کیے تھے ۔صرف چند دنوں کے ناجائز تعلق کے بدلے اپنے والدین کی تمام قربانیوں کو بھلا کر اپنی تمام تر وفاداریاں اور اپنی بقیہ زندگی اس نامحرم کے نام کرنے کو تیار ہو جاتی ہے۔
میرے نزدیک اس سب معاملے کی وجہ اس نامحرم سے ملنے والا وہ پیار ہے جو کہ اسے اپنے والد کی طرف سے عین اسی وقت ملنا تھا جب اسے اسکی اشد ضرورت تھی۔ ماں کا دل تو ویسے ہی نرم ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے شوہر کے رویوں کی ستائی ہوئی ہوتی ہے اور بہتر کی امید کی خاطر ماں کی تھوڑی سی ہمدردی یا نرمی بیٹی کا دل بڑا کر دیتی ہے اور با آسانی وہ یہ سب کچھ کرگزرتی ہے یا اگر ماں کواس سب کے متعلق ذرا سا بھی علم نہ ہوتو پھر بھی وہ بیٹی اس نامحرم عاشق کی محبت، ہمدردیوں کی اتنی قرض دار ہوچکی ہوتی ہے کہ اسے کوئی اور راستہ نظر ہی نہیں آرہا ہوتا۔
دوسری طرف وہ بیوی جو اپنے آشنا کے ساتھ مل کر وہ سب کرتی ہے جسکا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں۔ ایک اندازے کے مطابق تقریبا 0 3% آشنا وہ ہوتے ہیں جواسے شادی سے پہلے ہی اپنی محبت کے شکنجے میں گرفتارکر چکے ہوتے ہیں اور 0 7٪ آشنا وہ ہوتے ہیں جو شادی کے بعد انہیں شوہر کی عدم توجہی کے باعث شکار کرتے ہیں۔
ان میں بڑی تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جو اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل بہتر کرنے اور ڈھیر ساری دولت کمانے کے لیے بیوی بچوں کو چھوڑ کر غیر ممالک چلے جاتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس سے زیادہ ضروری وه ازدواجی حقوق ہیں جو کہ معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ان کی غیر موجودگی میں کوئی نامحرم آشنا، عاشق پورے کرتا ہے یا کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے جبکہ وہ شوہر وہاں سے ڈھیر سارے پیسے بھیجتا رہتا ہے مگر واپس آنے پرنہ وہ پیسا ہوتا ہے اور نہ ہی بیوی توان سب کاحل یہ ہرگز نہیں کہ آپ اپنی بیٹی یا بیوی کو غیرت کے نام پے قتل کردیں یا اپنی بیٹی کے لیے گھر کے دروازے بند کردیں بلکہ ہوش کے ناخن لیتے ہوۓ جو وجوہات میں نے بتائی ہیں ان پر کام کریں دوبارہ وہ غلطیاں مت دہرائیں اپنے پیار میں اضافہ کریں۔
ہاں اگر پھر بھی معاملات ٹھیک نہ ہوں تو خدارا انہیں غیرت کے نام پرقتل نہ کریں۔ اگر بیوی ہے تو معاملات کو پہلے تو سلجھانے کی کوشش کریں یا اگر آپ کی غیرت یہ بھی گوارا نہیں کرتی تو اس کو طلاق دے کر اس سے علیحدگی اختیار کرلیں نہ کہ اس سے زندہ رہنے کاحق چھین لیں۔ اور اگر بیٹی ہے تو اسے اس کو غلطی کا احساس دلائیں اور اپنی غلطی کا بھی دل میں اعتراف کریں اور اسے گلے سے لگالیں۔ یاد رکھیں۔ مرد سکون چاہتا ہے اور بیوی توجہ۔ اور یہ انہیں جہاں سے ملتے ہیں دونوں وہیں جاتے ہیں۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر