عاصمہ شیرازی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدائے لم یزل! تُو نے جب عورت کو پیدا کیا تو یہ نہیں کہا کہ تو اشرف المخلوقات نہیں۔ تخلیق کی اپنی صفت جب عورت کو بخشی تو اُس کا مرتبہ کسی طور کم بیان نہیں کیا۔
رب کائنات تیرے جہاں کی تصویر کے تمام رنگ پورے تھے پھر یہ اختیار کسی اور کو کیوں ملا کہ وہ تصویر کائنات کے رنگ پھیکے کرے؟
عالم ذوق کی ہر منزل پر متمکن یہ عورتیں تکمیل کی تعبیر کو کیوں ترستی ہیں، آدھی ادھوری، نامکمل سی کیوں دکھتی ہیں جبکہ پیدا کرنے والے نے انھیں مکمل اور شان و شوکت کے ساتھ پیدا کیا ہے۔
دل غم اور خوف کے اندھیروں میں بھٹک رہا ہے۔ ابھی سال کے شروع میں ہی موٹروے پر بچوں کے سامنے سسکتی عورت کے وجود کے کتنے ٹکڑے ہوئے مگر اُن تمام ٹکڑوں کو سمیٹتی عورت اپنے حق کے لیے پھر کھڑی ہوئی۔
موٹروے واقعے کی آگ ابھی ٹھنڈی نہ ہوئی کہ بچیوں سے زیادتی کے بڑھتے واقعات نے سانسیں روک لیں، کبھی بُرقعے میں ملبوس سر تا پا ڈھکی عورتیں پامال ہوئیں اور کبھی اپنے حقوق کے لیے احتجاجی کارڈ اٹھائے نوجوان لڑکیاں۔
تین ماہ کی بچیوں سے لے کر بڑی عُمر تک کی عورتوں کو نہیں بخشا گیا۔ اور اب ایک آزاد سوچ کی پڑھی لکھی بے فکر لڑکی نور مقدم کا چراغ دن دھاڑے بہیمانہ طریقے سے گُل کر دیا گیا۔
نُور کا واقعہ محض قتل کی واردات نہیں، میں نے اپنی ہوش میں اسلام آباد میں ہر اعتبار سے اس نوعیت کا کوئی واقعہ نہیں دیکھا۔
یہ پرسکون چھوٹا سا شہر جس کی شہر داری کا تعلق تقریباً ہر گلی سے جُڑ جاتا ہے۔ بڑے بڑے گھروں، متوسط سرکاری مکانوں اور سفید پوش علاقوں میں پُرانے بسنے والے آج بھی ایک دوسرے کے واقف نکل آتے ہیں۔
نور مقدم کے اس واقعے نے جیتے جاتے شہر کو شہر خاموشاں میں بدل دیا ہے۔ نہ صرف خواتین بلکہ شہر میں بسنے والے ہر فرد کو خوف میں ُمبتلا کر دیا ہے۔
خوف نُور کا سر تن سے جُدا ہونے کا ہے، پڑھے لکھے گھرانے کے پُر تشدد رویے کا ہے، سالوں سے جاننے کے باوجود نہ جاننے کا ہے، عدم اعتماد اور نفسیاتی الجھنوں کا ہے یا اس بات کا کہ اب کون کہاں محفوظ رہ گیا ہے؟
ظاہر جعفر کوئی معمولی قاتل نہیں، ایک جیتی جاگتی گُڑیا کو ہاتھوں سے مروڑ کر توڑنے والا خونخوار جس کی آنکھوں کے اطمینان سے خوف آتا ہے۔ اُس کے چہرے پر احساس جُرم کی عدم موجودگی جُھرجھری پیدا کر رہی ہے؟
خُدا جانے اُس کے اندر کے حیوان کو والدین کیوں نہ پہچان سکے، کیوں نُور مقدم اپنے دوست کو جان نہ سکی، کیوں محلے دار، رشتہ دار، دوست احباب، ساتھی اُس کے اندر کا حیوان دیکھ نہ سکے یا دیکھا تو آنکھیں بند کر لیں۔
نہ جانے کب کب اس شخص کے جنونی رویے کو درگزر کیا گیا ہو گا جبھی تو غصے اور تشدد کا جن دیو بنتا گیا۔ نہ جانے کتنی پریاں اس جنوں کی بھینٹ چڑھی ہوں گی؟
اس واقعے کا تعلق ہر گزرے واقعے کے ساتھ جڑا ہے۔ اگر وقت پر انصاف ملا ہوتا، اگر تشدد اور گھریلو تشدد کو ایک قابل سزا جُرم کے طور پر تسلیم کیا جاتا، اگر صرف ایک سال میں تشدد اور زیادتی کے ڈھائی ہزار کیسز کو سنجیدگی سے لیا جاتا، اگر عورتوں پر تشدد اور زیادتی کے واقعات کی بیخ کنی کی جاتی تو شاید ایسے حالات نہ ہوتے۔ کوئی صائمہ، کوئی قرۃ العین اور کوئی نور اپنی جان نہ گنوا بیٹھتیں۔
شکوہ کس سے کریں اُن ارباب اختیار سے جو کبھی خواتین کے لباس کو جُرم کی وجہ قرار دیتے ہیں تو کبھی اُن کے گھر سے نکلنے کو نشانہ بناتے ہیں؟ جب صاحب اقتدار ظلم کا شکار عورتوں کو کبھی پناہ لینے کا بہانہ سمجھیں اور کبھی ملک کی بدنامی کا سببب۔۔۔ تو پھر گلہ کیسا؟
مگر بقول کشور ناہید یہ سب اب ہم گنہگار عورتوں کو ہی کرنا ہو گا۔
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں جو اہلِ جبہ کی تمکنت سے نہ رعب کھائیں
نہ جان بیچیں نہ سر جھکائیں
نہ ہاتھ جوڑیں
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ جن کے جسموں کی فصل بیچیں
جو لوگ
وہ سرفراز ٹھہریں
نیابتِ امتیاز ٹھہریں
وہ داورِ اہلِ ساز ٹھہریں
یہ ہم گنہگار عورتیں ہیں کہ سچ کا پرچم اُٹھا کے نکلیں۔۔
زمیں زادیوں سے کوئی پوچھے کہ مردوں کے اس معاشرے میں ’عورت ہونا کتنا مشکل ہے‘۔ مگر نور مقدم کے لیے جلائی جانے والی شمعیں امید کی کرن بن رہی ہیں کہ عورتوں کے حقوق کے لیے جاری تحریک اب جنگ میں بدل رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
جناب! عوام کو ہلکا نہ لیں۔۔۔عاصمہ شیرازی
’لگے رہو مُنا بھائی‘۔۔۔عاصمہ شیرازی
یہ دھرنا بھی کیا دھرنا تھا؟۔۔۔عاصمہ شیرازی
نئے میثاق کا ایک اور صفحہ۔۔۔عاصمہ شیرازی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر