عابدمیر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(سیاسی تاریخ)
رحیم ظفر صاحب کی یہ کتاب اس سال کے آغاز میں شائع ہوئی۔ مجھے اس کی پروف ریڈنگ اور ایڈیٹنگ کے ساتھ ساتھ اس کا ایک پیش لفظ لکھنے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔ کتاب مجھ تک ابھی پہنچی ہے۔ سو، کتاب کے لیے لکھا گیا مضمون ہی یہاں بطور تعارف پیش ہے۔ ’’مطالعہ پاکستان کا نیا نصاب‘‘ کا عنوان میں نے پہلے اسی کتاب کے لیے استعمال کیا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نصاب‘ ایک دلچسپ موضوع ہے، جس سے ہمارے ہاں خاصا اغماض برتا گیا ہے۔ سرکاری نصاب ہی وہ مشینری ہے، جس سے شہریوں کی ذہنی نشونما اور پرداخت کا کام لیا جاتا ہے۔ خصوصاً نوآبادیاتی ریاستیں تعلیمی نظام اور نصاب کو کس طرح اپنے حق میں استعمال کرتی ہیں، یہ برازیل کے پاؤلو فریریے نے 1968میں اپنی کتاب Pedagogy of the Oppressed میں خاصی صراحت سے بیان کر دیا تھا۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں پڑھتے اور گزشتہ بارہ سال سے پڑھاتے ہوئے یہ اندازہ ہوا کہ پاکستان میں تین مضامین ایسے ہیں،جن کے نصاب سے ’اچھا شہری‘ بنانے کا کام لیا جاتا ہے۔یہ مضامین ہیں؛ اُردو، اسلامیات اور مطالعہ پاکستان۔
مطالعہ پاکستان، ملک کے بدترین آمر جنرل ضیاالحق کی اختراع ہے۔ مطالعہ پاکستان کا بنیادی موضوع پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے۔ اکثرریاستیں اپنی تاریخ سے متعلق پورا سچ بیان نہیں کرتیں، لیکن پاکستان میں اس مضمون کو جھوٹ کا پلندہ بنا دیا گیا۔ یہ نیا ملک ہندوستان ہی کے ایک ٹکڑے اور چندقدیم ریاستوں کو ملا کر بنایاگیا مگر چوں کہ اب ہندوستان سے اپنی تاریخ جدا کرنی تھی، اس لیے ایک نئی تاریخ درآمد کی گئی۔ بیرونی ہیرو تلاش کیے گئے۔اِس زمین پر موجود قدیم ریاستوں کی قدیم تاریخ پر لکیر پھیر دی گئی۔ بلوچ، سندھی، پشتون، پنجابی ، سرائیکی سب کی قومی شناخت ختم کر کے ایک نئی قومی شناخت تشکیل دی گئی۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج سات دہائیوں بعد بھی پاکستان شناخت کے بحران کا شکار ہے۔
حالاں کہ جن اقوام کے ادغام سے ملک ترتیب پایا تھا، ان کے قومی وجود کو تسلیم کر کے ایک نئے سوشل کانٹریکٹ کی بنیاد رکھی جا سکتی تھی۔ مگرقیامِ پاکستان کے فوراً بعد ملک پر غیرسیاسی عناصر کا غلبہ ہو گیا اور یہ غلبہ مختلف صورتوں میں آج تک جاری ہے۔ انھی غیرسیاسی عناصر نے ملک تقسیم کیا، مسلسل مارشل لالگوائے۔ سیاسی پراسیس کو تسلسل سے نہ چلنے دینے کی سازشیں کرتے رہے۔
مگر ’مطالعہ پاکستان‘ میں ان عناصر کا کوئی تذکرہ نہیں۔ مطالعہ پاکستان کا مضمون سیاسی تاریخ کے نام پرطلبا کو غیرسیاسی بنانے کی ہرممکن سعی کرتا ہے۔ اس مضمون میں سیاست دانوں کی ناکامیوں کا تذکرہ تو ملتا ہے مگر غیرسیاسی عناصر کی سازشوں پہ بات نہیں ہوتی بلکہ اکثر غیرسیاسی حکومتوں کو گلوریفائی کیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلامیات کے نصاب میں بنیادپرست مؤقف کی پذیرائی کی جاتی ہے۔ نتیجتاً اس نصاب کے سانچے سے ڈھل کر آنے والی نسل غیرسیاسی عناصر کو گلوریفائی کرتی ہے اورسخت گیر مذہبی مؤقف کی حمایت کرتی ہے۔ آج کا پاکستان اسی نسل کے نرغے میں ہے۔
ایسے میں بلوچستان کے ایک کہنہ مشق سیاسی ورکر نے پاکستان کی تاریخ کو ازسر نو مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ ایک ایسےعام بلوچ کی نظر سے لکھی گئی سیاسی تاریخ ہے جواس ملک کو اپنا وطن سمجھتا ہے ، اسے ایک خوش حال عوام دوست ریاست دیکھنا چاہتا ہے۔ گو کہ پاکستان میں یہ دیوانے کا خواب ہے، مگرسماج صرف خردمندوں سے تو نہیںچلتے، کچھ ایسے انہونے خواب دیکھنے والے دیوانے بھی سماج کا حصہ ہوتے ہیں۔پھر یہ تاریخ یوں بھی مستند ہے کہ اس کا روای اس میں سے نصف تاریخ کا چشم دید گواہ بھی ہے۔
عبدالرحیم ظفر اس سے قبل اپنے تجربات کی روشنی میں بلوچستان کی سیاسی تاریخ پرمبنی چار کتابیں تصنیف کر چکے ہیں۔ یوں اب وہ کہنہ مشق لکھاری بھی ہوچکے ہیں۔ ان کی کتابیں باوجود سیاسی اختلاف کے،بلوچستان کے سیاسی حلقوں میں وسیع تعدادمیں پڑھی جاتی ہیں۔ خصوصاً یہ نوجوانوں میں خاصی معروف ہیں۔ پاکستان میں بلوچ سیاسی ورکرز کو عام طور پر ملک کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہ باشعور سمجھا جاتا ہے۔انھیں کتابوں کا رسیا اور مطالعے کا شائق سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے یہ تاریخ کے ’متبادل بیانیے‘ سے زیادہ آگاہی رکھتے ہیں۔محترم عبدالرحیم ظفر کی تازہ تصنیف اسی متبادل بیانیے کی عکاس بھی ہے اور بلوچ سیاسی ورکر کے باشعور ہونے کی دلیل بھی۔
گو کہ ایک آدھ جگہ انھوں نے مطالعہ پاکستان والی ٹھوکر کھائی ہے۔ خصوصاً جنرل یحییٰ کے باب میں بنگلہ دیش کی تشکیل اور اُس زمانے کی صورت حال بیان کرتے ہوئے وہ ملکی مقتدرہ کے مؤقف کے قریب قریب پہنچ جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب وہ مجیب الرحمان کے چھ نکات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں؛’’اگر یہ تسلیم کیے جاتے تو شاید پھر بھی مشرقی پاکستان‘ مغربی پاکستان کے ساتھ مل کر ایک جھنڈے کے نیچے رہنے کے لیے تیار نہ ہوتا۔‘‘ تو حیرت ہوتی ہے کہ ایک طرف وہ حمود الرحمان کمیشن کا حوالہ دیتے ہیں جس میں یہ واضح موجود ہے کہ پاکستان کی اشرافیہ خصوصاً ایوب خان طے کرچکے تھے کہ مشرقی پاکستان کو الگ کرنا ہے، دوسری جانب وہ اس کا الزام بلواسطہ طور پر مشرقی پاکستان کی قیادت پرتھوپ رہے ہیں۔ حالاں کہ اسی باب میں آگے چل کر وہ خود ایک جگہ لکھتے ہیں کہ واضح اکثریت کے باوجود ذوالفقار علی بھٹو ،’’مجیب الرحمان کو بحیثیت وزیراعظم تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے۔‘‘ گویا تمام تر رکاوٹیں مغربی پاکستان کی طرف سے تھیں، اس کے باوجود یہ کہنا کہ مشرقی پاکستان ساتھ رہنے کو تیار نہ تھا، صریحاً زیادتی ہے۔ یہ شاید اسی مطالعہ پاکستان کا اثر ہے، جس سے نکلنے کو انھوں نے یہ متبادل نصاب ترتیب دیا ہے۔
اسی طرح مصنف نے اپنے محبوب قائد ذوالفقار علی بھٹو پر درجنوں صفحات خرچ کیے ہیں(یہ شاید کتاب کا طویل ترین باب ہے) مگر گیارہ برس تک ملک کا چہرہ داغدار کرنے والے نہایت کریہہ آمر جنرل ضیاالحق کا تذکرہ چند صفحات میں نمٹایا ہے۔ حالاں کہ وہ اس عہد کے چشم دید گواہ ہیں اور اس کے کرتوتوں سے خوب آگا ہ ہیں اس لیے جنرل ضیاالحق کے باب کے نیچے ذیلی سرخی(’جنھوں نے اس ملک کی تاریخ کو داغدار کر دیا‘) بھی جمائی ہے، جس سے ان کے جذبات کی عکاسی تو ہوتی ہے، مگر میرے خیال میں یہ غیرضروری ہے۔ اس کی بجائے انھیں جنرل ضیاالحق کے عہد کی سیاہ کاریوں پر زیادہ تفصیل سے لکھنا چاہیے تھا تاکہ نوجوان نسل اس سے کماحقہ آگاہ ہو سکے۔
یہ کتاب ہندوستان میں برٹش عہد کے آخری ایام سے شروع ہو کر جنرل ضیاالحق کے عہد تک آتی ہے۔ میرا خیال ہے اس میں جنرل ضیاالحق کے عہد کے خاتمے سے لے کر جنرل مشرف کے مارشل لاتک کا تذکرہ بھی آنا چاہیے۔ یوں یہ قیامِ پاکستان سے لے کر اس کے ابتدائی پچاس برسوں کی ‘یعنی نصف صدی کی مکمل تاریخ ہو جائے گی۔ اس سے آگے جدید عہد آتا ہے، جس سے نئی نسل کسی حد تک آگاہ ہے۔
بہرکیف مجموعی طور پریہ کتاب مطالعہ پاکستان کے متبادل نصاب کے بطورایک مخلصانہ کاوش ہے۔ مطالعہ پاکستان کا نصاب تشکیل دینے والے شاید اسے ناقابلِ اشاعت قرار دے دیں اور مصنف کو ممکن ہے اگلے ایڈیشن میں ابنِ انشا کی معروف تصنیف’اردو کی آخری کتاب‘ کی طرح کتاب کی پیشانی پر جلی حروف میں لکھنا پڑے؛’محکمہ تعلیم سے نامنظورشدہ‘۔
مگر امید ہے کہ پاکستان کے باشعور سیاسی حلقوں میں اسے نہ صرف قبول کیا جائے گا بلکہ یہ نئی نسل کے سیاسی شعور کوبھٹکانے سے بچانے میں بھی معاون ثابت ہو گی۔ پاکستان کے سیاسی کارکنوں کو بلاشبہ اسےاپنے نصاب کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔
عابدمیر
اگست۲۰۲۰، شال
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کتاب کراچی کے Ilmoadab Publisher نے شائع کی ہے۔ قیمت پانچ سو روپے ہے۔
یہ بھی پڑھیے:
بندگلی میں دَم کیسے گھٹتا ہے؟۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
حکومت کا مسئلہ کیا ہے۔۔۔احمد اعجاز
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ