محمد حنیف
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گھر کی دیواریں اونچی ہیں، گھر کے گیٹ پر وفادار کھڑے ہیں، گھر اتنا بڑا ہے کہ شاید ایک کونے سے اٹھنے والی چیخ جو اپنے قاتل کے ہاتھ میں تیز دھار آلۂ قتل دیکھ کر اور اس کی آنکھوں میں اس کا ارادہ دیکھ کر نکلتی ہے شاید باہر کھڑے وفادار تک نہیں پہنچتی۔
وہ یقیناً نہیں چاہتے کہ لڑکی کا قتل ہو لیکن وہ صاحب کے کمرے پر دستک دے کر یہ نہیں پوچھ سکتے کہ صاحب اندر لڑکی تو قتل نہیں ہو رہی؟
گیٹ پر کھڑے وفاداروں اور صاحب کے اپنے اہلخانہ کو بھی کچھ دیر کے لیے بھول جائیں، پورے شہر میں ایک حلقہ یاراں ہے، خاص طور پر مردوں کا جنھیں برسوں سے پتہ ہے کہ لڑکی جان سے جا سکتی ہے۔ نور نہیں تو کوئی اور یا شاید کوئی اور۔۔۔
پارٹیوں میں دیکھا ہے، اپنی خواتین دوستوں سے سنا ہے، ذاتی پیغامات میں دھمکیاں موجود ہیں، آلۂ قتل خریدے جاتے رہے ہیں، صاحب کو جب کوئی چیز چڑھتی جاتی ہے تو وہ خود بھی دھمکیاں دے چکے ہیں نور کو نہیں تو کسی اور کو یا پھر کسی اور کو۔۔۔
کوئی شور مچائے تو شاید لڑکی قتل ہونے سے بچ جائے لیکن شور مچانے کے بعد صاحب نے اگر پارٹی پر بلانا بند کر دیا تو پھر اسلام آباد میں کہاں جائیں گے، اس لیے خاموش ہی رہیں اور اس امید میں رہیں کہ لڑکی قتل نہ ہو۔ کوئی جذباتی چروکہ کھا کر، کوئی منہ پر نیل پڑوا کر گھر واپس چلی جائے۔
اگر لڑکی قتل ہو جائے تو خاموشی توڑ دو، کہو کہ ہم جانتے تھے لیکن ہمیں کبھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ ایسا کر گزرے گا، ہمیں سہمی ہوئی امید تھی کہ وہ ایسا نہیں کرے گا اور سر کاٹنے کا سوچ کر ہمیں تو جھرجھری سی آ گئی، تو یقیناً اس کا دماغی توازن خراب ہو گیا ہو گا یا غلط نشہ کر لیا ہو گا۔ اب قانون کو فیصلہ کرنے دیں، ایک بار پھر خاموشی ہی بہتر ہے۔
گھر بڑا نہیں ہے، باہر محافظوں کی بھی چوکی نہیں، کبھی کبھی محلے والوں کو چیخوں کی آواز بھی آتی ہے، رشتے دار آتے جاتے لڑکی کے زخم بھی دیکھ جاتے ہیں۔ لڑکی چار بچوں کی ماں بھی بن جاتی ہے۔ بچے اپنے قاتل باپ کے ڈر سے خاموش ہیں، یار دوست کبھی سمجھاتے بھی ہیں لیکن ساتھ ساتھ یہ حوصلہ بھی دیتے ہیں کہ وہ مرد ہی کیا جو بیوی کو دو چار ہاتھ نہ لگا سکے لیکن وہ بھی خاموش ہیں یہ جاننے کے باوجود کہ ان کے دوست کی اب مار پیٹ سے بھی تسلی نہیں ہوتی۔
لڑکی پھر قتل ہو جاتی ہے، اب ہمیں خاموشی توڑنے کی اجازت ہے، اب ہم ماتم بھی کر سکتے ہیں، ہیش ٹیگ بھی بنا سکتے ہیں، فوری پھانسی کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں، مرد کو درندہ بھی کہہ سکتے ہیں، میرا جسم میری مرضی والوں کو ایک بار پھر گالی دے سکتے ہیں، فیتہ پکڑ کر لڑکی کے لباس کی پیمائش بھی کر سکتے ہیں، ہمارے مثالی خاندانی نظام کا رونا بھی رو سکتے ہیں کیونکہ اس کے بعد اگلی لڑکی کے قتل تک ہمیں پھر خاموش ہونا ہے۔
ایک دفعہ میں نے چھ مہینے تک ہر روز کراچی کے اخباروں کے مقامی صفحات میں صرف عورتوں کی قتل کی خبروں کی تلاش میں گزارا۔ چھ مہینے میں شاید ہی کوئی ناغہ ہوا ہو جس دن کراچی میں عورت قتل نہیں ہوئی۔
کبھی گولی مار کے، کبھی ہاتھوں سے گلا دبا کے، کبھی شہ رگ کاٹ کے، کبھی باورچی خانے میں جلا کر، کبھی بوری میں بند کر کے، کبھی ٹکڑے کر کے ندی میں بہا دیا تو کبھی گھر کے صحن میں دبا دیا۔
ہمارے ہمدرد مرد جب یہ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے لیے جان بچانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ وہ گھر سے نہ نکلیں یا کسی اجنبی سے نہ ملیں تو وہ یہ نہیں بتاتے کہ 80 فیصد لڑکیوں کو قتل ہونے کے لیے گھر سے نہیں نکلنا پڑتا۔
لڑکی کا قتل ہمارے مثالی خاندانی نظام کا لازمی حصہ ہے اور اس سے پہلے ایک گہری خاموشی مردانہ معاشرتی نظام کی اساس ہے۔
تو خاموش رہیں لیکن یہ یاد رکھیں کہ آپ کی خاموشی کی وجہ سے ایک اور لڑکی قتل ہونے جا رہی ہے۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو )
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر