ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرائیکی میں باسی عید کو ’’پروتھی عید‘‘کا نام دیا جاتا ہے ۔ عید گزر گئی مگر عید کی یادیں اور باتیں باقی ہیں ۔حجاج کرام کی واپسی کا سلسلہ شروع ہوگا ، عید پر پوری دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں جانور ذبح ہو گئے مگر دیکھنا یہ ہے کہ کوئی خواہشات کی قربانی دینے کے لیے تیار ہے ؟ ہم نے مستحقین اور غرباء کو کتنا یاد رکھا ،معاشرے کی اونچ نیچ اور طبقاتی تقسیم کے خلاف ہم نے کتنا سوچاٖٖ؟
جانوروں کی کھالیں اُتر گئیں یہ کھالیں فلاحی مراکز اور دینی مدارس کو چلی گئیں جن کو مفت میں یہ کھالیں حاصل ہوئی ہیں اُن کا کہنا ہے کہ کئی سالوں سے خسارہ ہورہا ہے ، چمڑے کی کم قیمت کی وجہ سے معاشی بحران ہے ۔یہ ایک الگ بحث ہے ۔بلاشبہ قربانی عبادت الٰہی کی نشانی ہے ۔قرآن کریم کی متعدد آیات میں قربانی کی حکمت ، حقیقت اور فضیلت بیان کی گئی ہے۔مگر ہمارے ہاں قربانی جانور ذبح کرنے اور جانوروں کے گوشت سے فریزر بھرنے کا نام سمجھ لیا گیا ہے۔
دو سال سے وائرس کی وباء آئی ہوئی ہے ، دنیا وائرس سے خوفزدہ ہے پہلے چین کی وائرس آئی تھی اب کہا جاتاہے کہ بھارت نے وائرس چھوڑی ہوئی ہے ۔ معاملات زندگی اس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ حج کے فرائض بھی کرونا ایس اوپیز کے تحت ادا ہورہے ہیں۔مگر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جانور ذبح کرنے ،گوشت اکٹھا کرنے اور گوشت کو پکانے کے سلسلے میں ایس او پیز کا خیال نہیں رکھا جا رہا ۔ قربانی صرف مسلمانوں کا عمل ہے مگر گوشت پکانے کے طریقے اور نام انگریزی میں د یکھنے کو ملتے ہیں جیسے مٹن ہریسہ، ہنٹر بیف، مٹن مصالحہ ،مٹن ران روسٹ ،مٹن اور پارسلی کے سموسے، بیف کڑاہی، روسٹ بیف، مٹن روسٹ ۔
عید کے موقع پر بہت سے مضامین اس عنوان سے پڑھنے کو ملتے ہیں کہ قربانی کا گوشت کیسے کھائیں؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کھانے میں احتیاط نہیں برتی جاتی اور قربانی کی عید کے موقع پر صحت مند رہنے کی بجائے بیماریاں خرید لی جاتی ہیں۔جبکہ عید کے لیے مسنون یہ ہے کہ صبح کا غسل ،مسواک ،پاک صاف عمدہ کپڑے پہننا اور خوشبو لگانے کے ساتھ خندہ پیشانی کے ساتھ اپنے بھائیوں کو گلے ملنا ، اور پھر قربانی کی طرف جانا ۔ ان تمام باتوں کا مقصد پاکیزگی اور طہارت ہے۔
ہر عید پر کچھ خبریں اہتمام سے شائع ہوتی ہیں اور یہ خبریں ہم پڑھ اور سن چکے کہ بکر منڈیوں میں خریداروں کا رش، جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں اس کے ساتھ ایک خبر یہ بھی ہوتی ہے کہ عید پر زہریلی شراب سے لوگ مر رہے ہیں، مزید خبریں یہ کہ عید کی چھٹیاں شروع ہونے سے پہلے دفاتر خالی، پردیسیوں نے بس، ویگن اور کوچز سٹینڈ کا رُخ کر لیا، ریلوے اسٹیشنوں پر ٹکٹیں قلیوں نے خرید لیں، کراچی سٹیشن پر ایک ہزار والی ٹکٹ تین ہزار میں، اسی طرح ٹرانسپورٹروں نے بھی کرائے بڑھا دیئے۔
ان میں سے ایک خبر مختلف مساجد اور عید گاہوں میں نماز کے اُوقات بارے ہوتی ہے۔یہ پاکستان کی خبریں ہیں یورپ میں کرسمس کے موقعہ پر قیمتوں میں کمی اور لوگوں کو سہولتیں دینے کی خبریں شائع ہوتی ہیں۔ عید کے موقع پر پیاس ، لہسن، ٹماٹر، گرم مصالحے اور دوسری دوسری اشیائے ضرورت کے ہوشربا اضافے کی بات کرکے میں آپ کی عید خراب کرنا نہیں چاہتا۔ ہم نے جانور ذبح کرنے اور گوشت کھانے کو قربانی سمجھ لیا ہے حالانکہ قربانی تو ایثار، صبر، تسلیم و رضا اور دوسروں کیلئے اپنی خواہشات کو قربان کرنے کا نام ہے۔
عید اور قربانی کا دن ہمیں غریبوں کے ساتھ مل بیٹھنے اور غریبوں سے ہمدردی و غمگساری کا درس دیتا ہے۔ بہت دکھ ہوتا ہے جب ہم اخبار پڑھتے ہیں کہ دوبئی کے ایک سرمایہ دار نے 10 کروڑ ڈالر سے اپنی بیٹی کی سالگرہ کا کیک بنوایا، نہایت صدمہ ہوتا ہے ۔ہمارے مذہب اسلام میں ہر مقام پر انسانیت کی فلاح کے لیے ہدایات جاری کی گئی ہیں، غریبوں کا خاص خیال رکھنے پر زور دیا گیا ہے۔ حضور ختمی مرتبتﷺ نے رمضان شریف کے آخری جمعہ کے موقع پر جو خطبہ دیا وہ انسانی حقوق کے لیے بہت بڑا پیغام ہے اور انسانیت روز قیامت تک اس سے استفادہ کرتی رہے گی ۔
رابرٹ بریفو اپنی کتاب ’’دی میکنگ آف ہیو مینٹی ‘‘ میں رقمطراز ہے، ’’اسلام نے حقوق انسانی کا پہلی دفعہ منشور دیا اور یہ خطبہ حجۃ الوداع میں موجود ہے ‘‘۔آپؐ نے ارشاد فرمایا ۔ ’’لوگو! میری باتیں سنو ! شاید اگلے سال مجھے اور تمہیں ایسی محفل میں اکٹھے ہونے کا موقع نہ ملے ۔ میں آج کے دن مسلمانوںکی جان و مال اور عزت و آبرو کو قیامت تک ایک دوسرے پر حرام کرتا ہوں ۔ جس طرح تمہیں اس مہینے اور اس دن کا احترام ہے ۔ اسی طرح تمہیں ایک دوسرے کے مال ، آبرو اور خون کا احترام کرنا چاہیے ۔ کوئی چیز جو ایک بھائی کی جائز ملکیت ہے دوسرے پر حلال نہیں ، جب تک کہ وہ خود اپنی خوشی سے اسے نہ دے ۔‘‘آپ ؐ نے قیامت کے دن احتساب کے بارے میں فرمایا:
’’یادرکھو! ایک دن ہم سب کو مر کر خدائے تعالیٰ کے حضو ر میں حاضر ہونا ہے ۔ جہاں پر ایک سے اس کے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔ لوگو! یاد رکھو زمانہ جاہلیت کی ہر رسم میرے قدموںکے نیچے ہے میں اسے ختم کرتا ہوں ۔ زمانہ جاہلیت کے قتل و خون کے جھگڑے آج تک ختم کر دئیے جاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے میں خود ربیعہ بن حارث بن عبدالمطلب کے خون سے دستبردار ہوتا ہوں ۔‘‘۔
ہمیں چاہیے کہ اپنا انفرادی محاسبہ کریں اور حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے اور سکھائے ہوئے راستے پرگامزن ہونے کی سعی کریں ۔ دین خیر خواہی اور بھلائی کا نام ہے۔اس میں انسان اور انسانیت کی فلاح ہے تو ان متبرک دنوں میں ہمیں فلاح کی طرف آنا چاہیے اور انسانیت کی بہتری کے لیے سوچنا بھی چاہیے۔ دین پر عمل کرنے سے ہم دنیا میں سرخرو ہو سکتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر