وسیب کے نوجوانوں کا خواب ۔مقامی قیادت ۔۔۔۔
تحریر ۔آفتاب نواز مستوئی
قلم قبیلہ کے ایک بہت بڑے دانشور کا کہنا ہے کہ ” ضروری نہیں کہ ہر لکھاجانے
والا لفظ پڑھنے والے کے معیار کے مُطابق ہو ‘لکھنے والا اپنی کیفیت جبکہ پڑھنے والا اپنی کیفیت میں ہوتا ھے.
اسی طرح یہ بھی ضروری نہیں کہ ہر بولی جانے والی بات عین اُسی انداز میں دوسروں تک پہنچ پائے جس طرح آپ پہنچانا چاہتے ہیں ۔
اگر آپ کوئی بات سوچ رہے ہیں تو وہ محض ایک نظریہ یا آپ کا اپنا نُقطہء نظر ہوسکتا ھے تاہم اگر وہی بات ایک سے زائد لوگ سوچنے لگیں
تو وہ "تحریک” بن جاتی ھے. ” ۔ ۔ جام پور میں جام پور کو ضلع بنانے کا مطالبہ پوری توانائی کے ساتھ عرصہ دراز سے چل رہا ہے
اور اس جدوجہد کے ثمرات کسی حد تک ملتے نظر بھی آرہے ہیں اور ( ان شا اللہ ) تمام تر سازشوں ‘ رکاوٹوں کے باوجود اب ضلع جام پور کا قیام عمل میں لایا جانا
زیادہ دور نہیں بے شک کچھ ” سیاسی اجارہ داروں ” کو پریشانی لاحق ہے اور اندر اندر وہ تلملا بھی رہے ہیں
مگر موجودہ وزیر اعلی ا پنجاب سردار عثمان بزدار کی بنائی گئی ٹاسک فورس سنجیدگی سے چھ نئے اضلاع کےقیام پر کام کر رہی ہے
جن میں جام پور بھی شامل ہے اور اس میں بلا کسی قسم کی خوشامد کے ( اپنے تمام تر تحفظات کے ساتھ ) یہ کہنے میں قطعی طور پر کوئی باک نہیں کہ یہاں کے ایم پی اے سردار محسن خان لغاری بھی ” تمام تر پریشر کے باوجود ” اپنی توانائیاں ضلع جام پور کے
قیام میں صرف کر رہے ہیں عینی اور مصدقہ شاہدین کا دعوی ا ہے کہ محسن خان لغاری نے جام پور ضلع کے قیام کا مقدمہ نہایت مدلل و جامع انداز میں پیش کیا ہے
اللہ کرے یہ بھی سچ ہو اور جام پور کی محرومیوں کا مداوا ہو پائے ۔۔۔ آجکل دوسرا ایشو جو سوشل میڈیا پر اور نجی محفلوں میں زیادہ زیر بحث ہے وہ ہے مقامی قیادت کے انتخاب کا ۔نوجوان طبقہ جو ساٹھ فیصد آبادی پر مشتمل ہے
شدت کے ساتھ خواھاں ہے کہ اور نہ سہی تو کم از کم ایم پی اے تو جام پور کا "مقامی ” ہو مگر المیہ یہ ہے کہ
جو مقامی سیاسی خاندان وسائل اور بے پناہ ووٹ بنک کے حامل ہیں وہ کسی نہ کسی علاقائی جاگیردارانہ گروپ کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور ان کے حصار سے باھر نکلنے کو قطعی تیار نہیں کیونکہ تھانہ کچہری کی سیاست کے عادی ان لوگوں کے مفادات
من پسند پٹواری اور تھانیدار کی تقرری تک محدود ہوتے ہیں ‘ جبکہ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک ورکر کلاس کے لوگ جو ہر حوالے سے ایم پی اے یا ایم این اے بن سکتے ہیں وہ علاقائی گروہی سیاست سے بالا تر ہو کر کسی نہ کسی سیاسی
جماعت سے وابستہ ہیں مگر 9 تمن داروں کی سر زمین ڈیرہ غازیخان و راجن پور کا المیہ یہ بھی تو ہے کسی نظریاتی سیاسی جماعت کو یہاں پنپنے نہیں دیا گیا جسکی سب سے بڑی وجہ پہاڑ سے لیکر دریا تک من پسند زگ زیگ حلقہ بندی ہے
ہراقتدار میں شامل ان سرداروں نے ہر صوبائی و قومی حلقے میں ” ٹرائبل ایریا ” شامل کرا رکھا ہے جہاں ذرائع آمدو رفت سمیت ہر طرح کی سہولتوں کا مکمل فقدان ہے صرف ” گودا راج ” چلتا ہے کسی بھی الیکشن کے نتائج دیکھے جا سکتے ہیں
میدانی علاقوں جہاں تعلیم وصحت اور ذرائع آمد و رفت موجود ہیں وہاں ووٹوں کی شرح کا سٹنگ بمشکل 30 سے 40 فیصد ہو پاتی ہے اور پہاڑی علاقوں جہاں کے مرد بسلسلہ روزگار غیر ممالک قیام پذیر ہیں اور خواتین کو گھروں سے باہر نکلنے کی اجازت تک نہیں
وہاں شرح کاسٹنگ 100 فی صد بلکہ مطلوبہ ووٹر لسٹ سے بھی زیادہ ہوتی ہے جسکی الگ سے ایک طویل داستان اپنی جگہ موجود ہے ( واضح رہے کہ پورے پاکستان میں اضلاع ڈیرہ غازیخان و راجن پور کے قومی و صوبائی حلقے جغرافیائی لحاظ سے
نہ صرف طویل ترین ہیں بلکہ ہر حلقے میں ٹرائیبل ایریا شامل ہے ) یہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو بھی اپنے متوقع اقتدار کی خاطر ان ” نام نہاد الیکٹیبلز ” کو اپنے
ساتھ شامل کرنے کیلئے مفاد پرستانہ پالیسی اختیار کرنا پڑتی ہے ورنہ جب اقتدار کی امید نہ ہو
تو ملک محمد اقبال ارائیں ‘ سرور عباس ایڈوکیٹ ‘ یوسف گبول ‘ عبدالرزاق راجہ مرزا عبدالکر یم گگن ‘ عبدالروف خان لنڈ ایڈوکیٹ ‘ ظفر اللہ خان لنڈ ایڈوکیٹ ‘ ‘ منیر احمد قریشی ‘ سبطین سرور اور شازیہ عابد جیسے مخلص اور وفادار لوگ ان کے
ٹکٹ ہولڈرز ہوتے ہیں اس علاقے میں سب سے زیادہ یہ تماشہ پاکستان پیپلز پارٹی نے کی مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ (ق ) نے بھی حسب توفیق اس ڈرامے کا اسٹیج سجایا لیکن اداکار وہی برقرار رکھے جب بھی ان میں سے کسی پارٹی کو اقتدار کا سگنل ملا
تو پھر لغاری ‘ مزاری ،دریشک گورچانی سردار ان کے ٹکٹ ہولڈرز قرار پائے زیادہ دور نہ بھی جائیں اس بار سکرپٹ میں معمولی تبدیلی کے ساتھ صرف ” پروڈیوسر ” تبدیل ہوئے
جبکہ ہدایتکار ‘ و اداکار ( وہی پرانے ) مگر نئے گیٹ اپ اور تازہ میک اپ کے ساتھ سٹیج پر لائے گئے ضلع راجن پور میں صرف الیکشن 2018 پر ہی ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے کہ
موجودہ حکمران پارٹی کے منتخب ایم این ایز 193 لغاری ‘ 194۔ ‘ دریشک ‘ 195 مزاری ۔ایم پی ایز 293لغاری ( صوبائی وزیر آبپاشی ) 294دریشک
( صوبائی وزیر لائیو اسٹاک ) 295دریشک ( چئیرمین اسٹئیرنگ کمیٹی لوکل گورنمنٹ کمیونٹی ڈویلپمنٹ ) 296دریشک ( چئرمین ڈونرز اینگیجمنٹ اتھارٹی ) 297مزاری ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی یہاں دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ
یہ سب ” اپنا صوبہ اپنا اختیار ” والی لمیٹیڈ کمپنی کی پروڈکشن کے ذریعے پی ٹی آئی میں تشریف لے آئے تھے
تین سال سے زائد عرصہ میں صوبہ تو کجا اپنے محروم و پسماندہ ضلع کی تعمیر وترقی کیلئیے کوئی بھی خاطر خواہ کار نامہ انجام نہ دے سکے
ان سے تو پنجاب اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اکلوتی خاتون رکن ( مخصوص نشست ) دختر جام پور عزیزہ محترمہ شازیہ عابد ہزار ہا درجہ بہتر رہی
جس نے تین سال میں اسمبلی کے کسی اجلاس میں غیر حاضری نہیں کی اور کوئی ایسا سیشن نہیں جسمیں اس نے سرائیکی وسیب سرائیکی صوبہ اور پورے ضلع راجن پور کے
مسائل کو پوری دلجمعی اور اعدادو شمار کے ساتھ مدلل اور جامع انداز میں پیش نہ کیا ہو جبکہ ان پانچوں مقتدر ایم پی اے صاحبان کو آج تک توفیق نہ ہو سکی کہ
وہ کسی اجتماعی مسلے پر اسکی تائید ہی کر دیتے کیونکہ یہ سب ” بلوچ سردار ” ہیں جبکہ وہ ایک غریب محنت کش کی بیٹی اور جس محروم و پسماندہ دھرتی کی راجدہانیوں ( تمن ) کے یہ سردار ہیں ان کے نظام میں تو
عورت جوتی نہیں پہن سکتی گوشت نہیں کھا سکتی چار پائی پر نہیں سو سکتی وٹہ سٹہ ونی چٹی میں دی جانے والی نام نہاد غیرت کے نام پر قتل ہونے
والی ” عورت ذات ” کو پذیرائی کیسے دیں ؟ اور پاکستان کے گلے سڑے بد بو دار منتقم مزاج بظاہر ” جمہوری نظام ” میں اپوزیشن رکن اسمبلی کی بات پر عملدرآمد کیوں ہو ؟ اسکے کسی بھی تجویز کردہ اجتماعی مفاد کے منصوبے کو
کس لیے منظور کیا جائے ؟ کیونکہ جہاں ایک ” کاردار ” یا جدید زبان میں مینیجر پی اے وغیرہ کے اشارہ ابرو کے بغیر پتہ بھی نہ ہل سکتا ہو وہاں نہریں سالانہ بنیادوں پر
کیوں چلیں ؟ وہاں سوئی گیس کس لیے دی جائے ؟ وہاں نہر داجل برانچ کی توسیع کیوں ہو ؟ وغیرہ وغیرہ ایک ” عام عورت ( جاگیرداروں کی نظر میں ) وہ بھی اپوزیشن کی رکن اسمبلی کی بات کو اہمیت کیوں دی جائے ؟
قصہ مختصر مایوسی گناہ ہے اور خواب دیکھنے پر نہ کوئی پابندی ہے نہ اسکا لائسنس لینا پڑتا ہے ” مقامی نمائندہ ” ایک خواب ہے جو ہم جیسے بے نوا لوگ گزشتہ چالیس سالوں سے دیکھتے چلے آرہے ہیں
تعبیر قسمت والوں کو شاید جا کر کہیں ملے وہ بھی اس شکل میں کہ اس دھرتی پر بسنے والے ” سیاسی گرگ ” اگر اپنی آئندہ نسلوں پر ترس کھاتے ہوئے
اس بد نصیب علاقے کی قسمت بدلنے کیلیے سنجیدگی سے سر جوڑ کر بیٹھیں گے اور سب سے پہلے حلقہ بندیاں عوامی امنگوں کے پیش نظر بنوائیں
ٹرایبل ایریاز ( جہاں کا سرکاری نظام ابھی تک پولیٹیکل ایجینسیز ایکٹ کے تحت بارڈر ملٹری پولیس BMPکے کنٹرول میں ہے )
کیلیے قومی و صوبائی اسمبلی کی الگ نشتیں بنائی جائیں سیاسی پارٹیوں پر دباو بڑھایا جائے کہ وہ بھی عوام کو اور خود اپنی پارٹیوں کو ہر انتخابی سیزن میں وفاداریاں تبدیل کرنے والوں سے نجات دلانے کیلیے اپنا اپنا موثر کردار ادا کریں
تو تب یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ کوئی سچے جذبوں کا امین دھرتی ماں سے وفاداری نبھانے والا رہبرو راہنما میسر آ ہی جائے گا
جسکے لیے نوجوانوں کو بھی صدق دل سے محنت کرنا ہو گی خواجہ غلام فرید ‘ خواجہ نور محمد نارو والے سرکار ‘ خواجہ نور محمد برڑہ ‘ سخی بور بخش ‘ سخی طیب سلطان ‘
سخی حمزہ سلطان ‘ ابھڑنگ سلطان ‘ محب شاہ ‘ سخی لال پروانہ ‘ سید مسن شاہ بخاری جیسی برگزید ہ ہستیوں کی اس خوبصورت پر امن دھرتی سے نفرتوں کے خاتمے اور محبتوں کو فروغ دینے کیلئے بھر پور کردار ادا کرنا ہوگا
فرسودہ رسوم و رواجوں سے نجات کے لئیے شرح خواندگی میں اضافہ کرنا ہو گا اپنی وسائل سے مالا مال دھرتی کو مسائل کے دلدل سے نکالنا ہو گا کہا جاتا ہے کہ اطاعت جب حد سے بڑھتی ہے تو بغاوت ہوتی ہے اور بغاوت کی کامیابی کے ساتھ ہی انقلاب آتا ہے
بغاوت کی لہر تو جامپور کے پہاڑوں سے لیکر دریائے سندھ تک کسی نہ کسی کونے میں پائی جاتی ہے جب یہ بکھری لہریں یکجا ہو کر موجوں کی صورت میں ایک ارتعاش پیدا کریں گی تو طوفان آئے گا
اور بفضل تعالی ا یہی طوفان جا گیردارانہ سرمایہ دارانہ استحصالی نظام کی تباھی و بربادی کا سبب بنے گا
آزمائش شرط ہے مگر تعصب بغض اور جانبداری کی عینک اتار کر صدق دل سے کوشش کی گئ تو ۔۔
وما علینا ان البلاغ ۔۔جناب عالی ! السلام و علیکم عید مبارک
آفتاب نواز مستوئی
ہاں میں ناراض ہوں (میں سرائیکی ہوں)
ذوالفقار ملک
میں کیا ہر وہ شخص ناراض ہے جو سرزمین سرائیکستان سے محبت و عقیدت رکھتا ہے،، اور میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرا سرائیکی تعلیم یافتہ طبقہ سڑکوں مزدوری کرے،
اور غیر سرائیکی/پنجابی تعلیم یافتہ طبقہ بیوروکریسی میں بیٹھا ان سرائیکیوں پر حکمرانی کرتا ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب گندم، کپاس، شوگرکین،آم، کے مالکوں کو بدلے میں ایک میڈیکل/انجینرنگ یونیورسٹی بھی نہ دی جا سکے،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے بچوں کے تاریخ کے نصاب میں میرے سرائیکستان کا ذکر بھی نہ ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب حق بولنے والے اور سچ کا ساتھ دینے والے پابند سلاسل ہوں اور ظلم و جبر کی انتہا کرنے والے دندناتے پھر رہے ہوں،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے صوبے کی حکومت بھیڑ/بکریاں ھم سرائیکیوں سے پلوائے اور ویٹرنری کالج/یونیورسٹی لاہور میں بنائے،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں کہ ہمارے تعلیمی ادارے ہماری بہنوں کے لئے دستیاب نہ رہیں اور پنجابی اور سرائیکی طلباء کو تعلیم کے یکساں مواقع نہ ہوں۔ بلکہ میرٹ اور NTS کے نام پر سرائیکیوں کے لئے تعلیم کے دروازے بند ہوں،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میری سرزمین کے اربوں روپے مالیت کے زرعی پیداوار/معدنیات کو پنجاب حکومت اپنے پنجابی مفاد کے لیے کوڑیوں کے دام بیچ دیتے ہوں،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے سرائیکی وسیب کے ہسپتالوں میں ادویات کی عدم دستیابی کے سبب معصوم بچے ماں کی گود میں تڑپ تڑپ کر اپنی جان دیتے ہوں،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے سرائیکی وسیب میں تعلیم سے زیادہ سیاسی انتقام کو اہمیت دی جاتی ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب جغرافیائی اعتبار سے انتہائی اہمیت کے حامل سرائیکی وسیب/پاکستان کے دل کو اس برے طریقے سے نظر انداز کیا جاتا ہو کہ نہ تو تعلیم ، نہ روزگار اور نہ ہی صحت کے موقع ہوں،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میری دھرتی ماں کی مائیں اور بہنیں گھریلو ملازمہ/ماسی بن کر در در کی ٹھوکریں کھاتی ہوں اور ان کی داد رسی کرنے والا کوئی نہ ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب پنجاب کے تعلیمی اداروں جو میرے سرائیکی وسیب کے ریونیو سے چل رہے ہیں، میرے طلباء کو صرف میرٹ کے نام پر ٹھکرا دیا جاتا ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب پنجاب صوبے کے ارباب اختیار کی ترجیحات سرائیکی وسیب میں بنیادی سہولیات/تعلیم کی فراہمی کی بجائے مویشیوں کی نمائش/میلہ ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب سزا کا حقدار صرف غریب سرائیکی ہو جبکہ طاقتور پنجابی شخص قانون کو اپنے پیروں تلے روند دیتا ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب اس سرائیکی وسیب کی اسی (%80) فیصد آبادی اسی سرزمین سے پیدا ہونے والی گندم سے محروم ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب پنجاب میرے سرائیکی وسیب کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کرتا ہو اور اسکے وسائل پر قابض ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب سچ بولنے پر مجھے غدار کہا جاتا ہو اور میری زبان بندی کی جاتی ہو،،اور یہی کہا جاتا ہو کہ آپ لسانیت کی بنیاد پے سرائیکستان مانگتے ہو
کیا پٹھانوں کے نام پے پختون خواہ سندھیوں کے نام پے سندھ
بلوچ کے نام پے بلوچستان
پنجابی کے نام پے پنجاب
میں لسانیت نظر نہیں آتی
تو سرائیکی کے نام پے سرائیکستان کیوں نہ
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے بچے بھوکے سوتے ہوں اور پنجابی حکمران کروڑوں روپے کی گاڑیوں میں گھومتے ہوں،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب ملکی دفاع کیلئے اٹامک دینے والے سرائیکی وسیب کو بدلے میں ایک کینسر ہسپتال بھی نہ دیا جا سکے،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے صوبے کی عوام نوکری نہ ملنے کی صورت میں اپنی ڈگریاں جلا دیتے ہوں،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں جب میرے سرائیکی وسیب میں پشاور کراچی کو براستہ ڈیرہ اسماعیل خان، ڈیرہ غازیخان اور راجنپور صرف ایک لین کی واحد پختہ سڑک ہونے کی وجہ سے لوگوں کی قدرتی اموات سے زیادہ حادثاتی اموات ہوتی ہو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں، جب زراعت سرائیکی وسیب سے اور زرعی یونیورسٹی دیارغیر(فیصل اباد) میں بنائی جاتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں، کہ میرے سرائیکی وسیب کے ترقیاتی بجٹ سے لاہور کو موٹروے، ارنج ٹرین، میٹرو، کشادہ سڑکیں، فلائی اوور، انڈر پاسز، پارکس، اور بے شمار یونیورسٹیز سے سجایا جاتا ہو، اور اگر سرائیکی مطالبہ کریں تو کہا جائے کہ ترقی دیکھنا ہو تو لاہور ا کر دیکھو،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں، جب میرے سرائیکی وسیب کے حصہ کا پانی زور زبردستی اپر پنجاب کو دیکر میری زمینوں کو بنجر بنایا جائے،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں، جب میرے چولستان کی زمینوں کو مال غنیمت سمجھ کر بندر بانٹ کیا جائے،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں ،میری تحصیل جامپور پنجاب کے آٹھ اضلاع سے زیادہ آبادی رکھتی ہے لیکن ہمیں ضلع بنوانے کے لئے کبھی تخت لاہور کے سامنے چوٹی میں احتجاج کرنا پڑتا ہے تو کبھی تخت لاہور کے سامنے جامپور کی روڈوں پر
میں ناراض کیوں نہ ہوں، کہ میرے سرائیکی وسیب کے ترقیاتی بجٹ کو لاہور پر خرچ کیا جائے، اور میرے وسیب میں دریائے سندھ کے کناروں کو پختہ نہ کر کے میری زمینوں ، فصلوں، مال/مویشیوں اور سرائیکی لوگوں کو دریا برج کیا جائے،،
میں ناراض کیوں نہ ہوں، کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،،مجھے سرائیکی سمجھ کر باہر پھینکا جاتا ہے
میں ناراض کیوں نہ ہوں ؟
کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،، مجھے اپنے وسیب کو ماں دھرتی کہنے پے سزا دی جاتی ہے
حادثاتی دہشت گردی ،ٹرانسپورٹ مافیا اور متعلقہ حکومتی اداروں کاکردار
تحریر :
ملک خلیل الرحمن واسنی حاجی پور شریف
ٹریفک حادثات فطری ہیں اس سے انکار نہیں پوری دنیا میں ٹریفک حادثات ہوتے ہیں ہورہے ہیں اورشاید ہوتے بھی رییں گے……؟ لیکن انتہائی افسوس اوربدقسمتی سے کہنا پڑتاہے کہ
پاکستان اور دیگر دنیا کے ترقی پذیر ممالک میں ٹریفک حادثات آئے روز کامعمول ہیں اور دنیا کے دیگر ممالک کے برعکس یہاں اور بالخصوص سرائیکی وسیب میں حادثاتی
دہشت گردی کا تناسب بڑھتا ہی جارہا ہے جس میں حکومتی ادارے اور ٹرانسپورٹ مافیا برابر کےشریک ہیں اور رہی سہی کسر سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث مجبور ہو کرہم عوام پوری کردیتے ہیں
اسوقت ملک پاکستان میں غیرقانونی اور غیررجسٹرڈ ٹرانسپورٹ کے اڈے موجود ہیں جن کو سیاسی لوگوں اور حکومتی عہدیداروں کی پشت پناہی حاصل ہے.جہاں من مانی نیم حکیم خطرہ جان کے مترادف چل چلائو سے کام چلاکر انسانی زندگیوں سے موت کا کھیل جاری ہے
اور کوئی پوچھنے والا نہیں اور یوں بیشتر معاشرہ اناڑی ڈرائیوروں کے رحم و کرم پر ہے.
فضائی سفر،بحری ،ریلوے اوربذریعہ روڈ سفر ، آمدورفت، نقل و حمل کے ذرائع ہمارے ہاں موجود ہیں
مگر ہر ایک عوام کی یہاں تک دسترس ممکن نہیں اور شاید ٹرانسپورٹر مافیا کی سیاسی اور حکومتی سطح پر غیر قانونی پشت پناہی نے محکمہ ریلوے کو ناکام کیا جسمیں اہم کردار محکمہ ریلوے نے بھی ادا کیا
اور محکمہ ریلوے کو قیام پاکستان کے بعد مزید بڑھنا چاہیئے تھا مگر کرپشن مافیا اور اللوں تللوں بے جا اخراجات اقرباء پروری نے ریلوے کا پہیہ ہی جام کردیا حالانکہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ
پورے ملک اور چھوٹے چھوٹے شہروں میں مزید اسکی پٹڑیاں بچھائی جاتیں سنگل پٹڑیوں کو دو رویہ کیاجاتا یا چائنہ ماڈل کی طرز پر اس کی بہتری نت نئی اور دور جدید کی ٹیکنالوجی سے مدد لی جاتی مگر ایسا کچھ نہ ہوسکا اور ہر آنیوالی سیاسی و عسکری حکومتوں
نےزبانی جمع خرچ اور ہندسوں کے گورکھ دھندوں میں قوم کو الجھائے رکھا اور سیاسی نمبر گیم اور سیاسی مفادات کےچکر میں مختلف لوگوں کو جان بوجھ کر ریلوے کی
وزارتوں سے نواز کر ملک و قوم کو بے وقوف بنایا جاتا رہا اور بجائے ریلوے کو مفاد کے ایک خسارے والا محکمہ بنا دیا گیا اور اب بھی تحریک انصاف کی بلند و بانگ دعووے
کرنے والی حکومت اپنے تین سال سے زائد دور اقتدار میں وزیروں کے تبدیلی کےعلاوہ کچھ نہ کرسکی روز بروز بڑھتے ریلوے حادثات اور کرونا وبا کے بہانے
اور ناقص حکمت عملیوں اور ناقص پالیسیوں کے سبب یوں مقروض قوم اور غریب عوام اس سستے ترین ذریعہ نقل و حمل سے بھی محروم ہوگئے .
عام اور سستے ترین اور ہر ایک کی دسترس میں ذرائع نقل وحمل بذریعہ روڈ ہی ہیں
جن میں قومی وصوبائی حکومتوں کے کئی محکمے شامل ہیں جن کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاملات کو بہترطور پرانجام دیں
مگر سب سے پہلے جنگ یہاں پر شروع ہوجاتی ہے کہ آیا یہ چیز وفاق کے ماتحت ہے یا صوبائی حکومتوں کے اکثر ماضی اور حال کےادوار میں بین الصوبائی اور بین الاضلائی رابطہ سڑکیں
موٹر ویز التواء کاشکار رہیں ہے کہ اس کے فنڈز وفاق کی ذمہ داری ہیں یا صوبے کی پھر صوبے اور وفاق میں مختلف سیاسی قوتوں کی حکومتوں نے اپنے ذاتی اور
انفرادی مفادات کو اہمیت دی اور اجتماعی مفاد عامہ کے پراجیکٹس مزید التواء اور تاخیری حربوں کا شکار رہے ہیں.اور ویسے بھی ہم ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور اس طرح کے دیگر قرضے فراہم کرنے والے عالمی
اداروں اور عالمی ممالک کے ہر دور میں گروی رہے ہیں بے شک انگریز اور ہندووں کی ظاہری غلامی سے نجات تو مل گئی مگر ذہنی غلامی تاحال جاری ہے اور نامعلوم کتنی آنیوالی ہماری نسلیں اسطرح غلامی اور مقروض حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں گی؟
بات قاتل خونی سنگل انڈس ہائی وے رمک تا کشمور اور عید سے ایک دن قبل وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار کے شہرڈی جی خان میں ہونے والے ٹرالر اور بس کے درمیان خونی تصادم بارے ہورہی تھی جسمیں 38 افراد جابحق 40 سے زائد زخمی ہوئے
جہاں جائے حادثہ پر گویاں حالت جنگ اور قیامت کا سماں تھا جہاں پرتڑپتے لاشے،کٹے پھٹے جسم زخمی خون میں لت پت آہ وبکا کرتے بے بس و لاچار اور صبح نماز فجر کا وقت جس میں ریسکیو 1122 کی پیشہ ورانہ بلا تفریق اور بلا امتیاز کاروائیاں اور
انتہائی سخت ترین اور جنگی حالات کی ٹریننگ لینے والے 1122 کے اہلکار بھی اس صورتحال میں جہاں بس کی باڈی کوکاٹ کاٹ کر لاشوں وزخمیوں کو نکالتے ، نم آنکھوں اور لرزتے جسموں اور کانپتے ہاتھوں اپنے فرائض کی انجام دہی میں مصروف زخمیوں اور
میتوں کو ٹراما سنٹر ڈی جی خان منتقل کر رہے تھے. وزیر اعظم پاکستان عمران خان،وزیراعلی پنجاب عثمان بزدار،وفاقی وزیر زرتاج گل و دیگر نے
اس واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ محکموں سے فوری رپورٹس طلب کیں اور سب کا ایک ہی بیانیہ تھا کہ اس سانحہ/حادثہ/واقعہ کے ذمہ داروں کا تعین کر کے سخت سے سخت سزا دی جائے گی. …………؟
لیکن سوال یہ ہے کہ ٹرانسپورٹرز کو بس اڈہ چلانے کی اجازت کون دیتا ہے اور اسکے پیچھے کتنے سیاسی اور سرکاری لوگ ملوث اور پشت پناہ ہوتے ہیں ؟
ان سب کے کتنے اور کیا کیا مفاد جڑے ہوتے ہیں اور اس سارے پراسس میں کس کس کو منتھلی اور مٹھی گرم اور فائلوں کے پیٹ بھرنے کیساتھ ساتھ بابائے قوم کی تصویروں
والے کاغذوں کیساتھ کتنے مفادات اور مراعات کے وعدے ،دعوے معجل اور غیر معجل یا عندالطلب طے کیئے جاتے ہیں یہ سب اس کرپٹ اور کرپشن زدہ بدبو دارنظام کا حصہ ہیں؟ اور اس کےلیئے محکمانہ طور پر
اسکی کیا کیا ایس او پیز ہیں کیا ان سب پر عمل ہوا؟ پھر بات آتی ہے گاڑی کی کیا روڈ پر چلنے والی گاڑی کے لیئے بین الاقوامی یا قومی معیار کے جو ایس او پیز ہیں کیا یہ ہمارے روڈوں پر دندناتی اور حادثاتی دہشت گردی کا موجب یہ
گاڑیاں اس قابل ہیں کہ بغیر دیکھے بھالے جس کا موٹر وہیکل ایگزامینر چند ٹکوں کے لالچ میں فٹنس سرٹیفیکیٹ جاری کردیتا ہے اور عام سے روڈ پر ناقابل گاڑی موٹرویز پر دوڑ رہی ہوتی ہے؟
اور بعض اوقات کیا اکثر اوقات وہ فٹنس سرٹیفیکیٹ دونمبر غیر قانونی ، جعلسازی طریقے سے حاصل اندر معیاد کی بجائے زائد المعیاد ہوتے ہیں ؟
حالانکہ حکومت پنجاب نے پنجاب بھر بشمول ڈی جی خان VICS وہیکل انسپیکشن اینڈ سرٹیفیکیشن سسٹم پر کروڑوں ،اربوں روپے خرچ کر کے سنٹر بنائے ہیں
مگر ناقص حکمت اور ناقص پلاننگ اور متعلقہ غیر ملکی کمپنی سے معاملات طے نہ ہوسکنے پر وہیکل انسپیکشن اینڈ سرٹیفیکیشن سسٹم سنٹرز غیر فعال ہیں اورایک محتاط اندازے کمیطابق سال بھر سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود بھی اکثر VICS
سنٹر بند ہیں جس سے پنجاب حکومت کو ماہانہ ہزاروں ،لاکھوں روپے کا مالی نقصان ہورہا ہے اور سابقہ ماضی کے روایتی کاغذی سسٹم سے لاکھوں قیمتی انسانی جانیں اور زندگیاں دائو پرلگی ہوئی ہیں
کیا یہ گاڑی اسی مالک کی ہوتی ہے جس کا وہ مالک ظاہر کر رہا ہوتا ہے یا کئی کئی جگہوں سے بکتی بکاتی دوسرے سے تیسرے اور چوتھے سے ساتویں مالک تک آرہی ہوتی ہے صرف ٹیکس بچانے کے لئے……….؟
کیا اس گاڑی کا روٹ پرمٹ اندر معیاد ہوتا ہے،کیا اسکی انشورنس بھی ہوئی ہوئی ہوتی ہے. کیا ڈرائیور اور باقی عملہ محکمہ ٹرانسپورٹ اور متعلقہ ڈسٹرکٹ سیکریٹری ریجنل ٹرانسپورٹ اتھارٹی کے طے شدہ قواعدو اصول وضوابط کے مطابق ہوتے ہیں
یا صرف خانہ پری ہوتی ہے.؟ کیا باقاعدہ نظام ہوتا ہے؟ کیا ڈرائیور کے پاس اسی گاڑی کیمطابق تصدیق شدہ ہیوی لائسنس ہوتا ہے یا ایک اناڑی 30 سے50 اور 70 یا 72 سیٹر گاڑی اپنی ان سواریوں کو موت کے منہ میں لیجانے کا لائسنس یافتہ ہوتا ہے.
بڑی بڑی چلنے والی ملک بھر میں ٹرانسپورٹ کا تو شاید اسطرح سے کچھ معیارہوگا مگر یہاں چلنے والی اکثر جھولے لعل کمپنیاں ان سب سے ناواقف اور نابلد معلوم ہوتی ہیں…………؟
کیونکہ اکثر وبیشتر ہماری ٹریفک پولیس،موٹر وے پولیس، پنجاب پٹرولنگ پولیس،ٹریفک وارڈنزجوکہ سیاسی اثرو رسوخ کے تابع ہوتے ہیں یا غربت و مہنگائی کے ہاتھوں مجبور
اپنے فرائض سے ایمانداری کی بجائے بابائے قوم کی تصویر لگے کاغذوں کو اہمیت دے کر اپنے اور اپنے اہل و عیال کے پیٹ کا جہنم بھرنے اور غیر ضروری خواہشات کی
تکمیل اور ایکدوسرے کی دیکھا دیکھی لائف سٹائل کو برقرار رکھنے اور اپنے افسران بالاکو خوش رکھنے کے لیئے شیطان کے پیروکار بن جاتے ہیں جو کہ
انکی مدت ملازمت کی تکمیل اور من پسند ڈیوٹی کے لیئے امر ضروری تصور کرلیا جاتا ہے. لیکن اسکے برعکس ڈیوٹی کیمطابق نہ تو انکی کوئی باقاعدہ ٹریننگ کیجاتی ہے اور نہ ہیں انہیں سہولیات و مراعات فراہم کیجاتی ہیں…………جو کہ تلخ حقائق ہیں
کیا یہ بدقسمت بس جس شہر سےروانہ ہوئی وہاں کے کمشنر،ڈپٹی کمشنر،اسسٹنٹ کمشنر،سیکریٹری آر ٹی اے،موٹروہیکل ایگزامینر،ڈی ایس پی و متعلقہ انچارج ٹریفک پولیس ،ٹریفک وارڈن،پنجاب پٹرولنگ پولیس ،بس اڈہ انچارج،بس مالک نے اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کیں،کیا
باقاعدہ ٹکٹنگ سسٹم کے تحت ٹکٹ جاری ہوئے ،مسافروں کی وڈیوں بنائی گئی،ڈرائیور کا میڈیکل فٹنس سرٹیفیکٹ تھا کیا کرونا ایس او پیز پر عمل درآمد کیا گیا………؟
کچھ بھی نہیں ہوا……..؟ اور نہ کچھ ہونا ہے ………..؟ پہلے تو بہت مشکل ہے لیکن اگرپھر بھی کسی کو واقعہ کا ذمہ دار ٹھہرا کربلی کا بکرابنا کر بلی چڑھا بھی دیا گیا تو کیا ضمانت ہے کہ پھر اس طرح کے واقعات نہیں ہونگے.؟
کیونکہ ہمارا یہ بدبوداراور تعفن زدہ سسٹم اور جزاء و سزاء کا تصور بدقسمتی سےشاید کچھ اس طرح ہے کہ پھانسی کا پھندہ جس کے گلے میں فٹ آجائے اسے ہی پھانسی دے دو
اور انتہائی معذرت کیساتھ ہمارے نظام قانون وانصاف کامعیار مکڑی کے جالے کیطرح ہے کہ جو جالے میں پھنس جائے اسکی خیر نہیں اور جو جالا توڑ کر نکل جائے وہ آزاد ہے………؟
1980 سے کشمور تا رمک قاتل خونی سنگل روڈ انڈس ہائی وے
آج تک جس کے مختلف ادوار میں اربوں روپے کے بجٹ تعمیر و توسیع ومرمت کے نام پرخرچ ہوئے مختص کیئےگئے اسکے دو رویہ ون وے کے پی سی ون ،پی سی ٹو تیار ہوئے ٹینڈر ہوئے مگر کیا ہوا
پھر تو میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ 1980 سے لیکر آج تک جتنی بھی اس روڈ پر حادثاتی دہشت گردی کی صورت میں اموات ہوئی ہیں ان سب کے قاتل اسوقت کے وزیر اعظم،وزراء اعلی پنجاب
وزراء مواصلات،چیئرمینز این ایچ اے،سیکریٹریز کمیونیکشن اینڈ ورکس متعلقہ سدا بہار اراکین سینیٹ،ممبران قومی و صوبائی و متعلقہ حکام ہیں جن کی غفلت و لاپرواہی بےتوجہی،
بے رخی،طوطا چشمی سرائیکی وسیب کے عام عوام مزدوروں ،محنت کشوں اور غریب و بے بس مجبور و لاچار سینکڑوں ہزاروں قیمتی انسانوں جانوں کو موت کے منہ میں دھکیلتی رہی ہے.
مگر اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی سہی موجودہ دور حکومت کے وزیر اعلی پنجاب تونسہ تخت لہور کے مسند نشین سردار عثمان بزدار کا یہ قابل تعریف اورمستحسن اقدام ہے کہ
پسماندہ ترین ضلع راجن پور میں اس بدقسمت بس حادثہ کا شکار لقمہ اجل بننے والوں کےلواحقین میں دو تین دن کے اندر ہی 4،4 لاکھ روپے کی امدادی رقوم کے چیک اور درجہ چہارم کی ملازمت کا عندیہ دیا ہے
جو کہ ماضی کے ادوار سے بے شک کچھ مختلف ضرور ہے مگر قیمتی جانوں کے ضیاع کا نعم البدل بالکل نہیں…………
ہاں البتہ یہ 2سے 2.5 سو کلومیٹر کا گڑھوں اور جگہ جگہ کٹس اور پنکچر لگا تنگ قاتل خونی سنگل انڈس ہائی وے روڈ دو رویہ ون وے کردیا جائےتو یہاں پر ہر روز ہونیوالی حادثاتی دہشت گردی پر قابو پایا جاسکتا ہے
جس میں کئی قیمتی جانیں اور کئی کئی خاندانوں کے واحد کفیل بے موت لقمہ اجل بن کر موت کی آغوش میں چلے جاتے اور کئی زندگی بھر کے لیئے اپاہج و مفلوج ہوکر سہاروں کے منتظر اور مددومعاونت اور مخیر حضرات کی مالی معاونت کی راہیں تکنے
پر مجبور ہوجاتے ہیں اگر حفظ ماتقدم کےطور پر متعلقہ اداروں کوفعال کر کے سی سی ٹی وی کیمرے،پنجاب پٹرولنگ پولیس کی مزید نفری
ٹریفک پولیس کے وارڈنز کو ڈیوٹی کا پابند کر کے اور حقیقی معنوں اور ایمانداری سے فرائض کی انجام دہی میں بھر پورطریقے سے ملک و قوم کی سلامتی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں
جو کہ موجودہ حکومت و متعلقہ اداروں افسروں و اہلکاروں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے
جامپور دا نکھریا پکھریا ناں۔جام پور دی سنجانڑ۔
صحافی اور منفرد لکھاری۔دانشور۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔افتاب نواز خاں مستوئی دے ناں۔اوندے 3 سوالیں دے جواب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہک صحافی دانشور دا احاطہ کرنڑ سانگے لکھاری دی سوچ اور اکسفورڈ تلی تعلیم دا ھونونڑ بہوں ضروری اے۔جیندے وچ میں اصلو کورا نکور اں۔۔
افتاب نواز خاں مستوئی صحافی وی ھ۔ دانشور اور مہان لکھاری وی ھ ۔ہیں افتاب نواز خاں مستوئی نیں 19 جون چھنڑ چھنڑ الے ڈیہنہ کوں فیس بک تیں ہک پوسٹ لائی اے۔
اشو لعل تیں قوم پرستیں دی بوچھاڑ کیوں۔خواجہ کلیم الدین کوریجہ واسطے نرم گوشہ کیوں۔میاں نور الہی ایڈوکیٹ کوں خراج اے تحسین پیش کرنڑ وچ کنجوسی کت دی۔
جبکہ اوں اپڑیں تنظیمی عہدے وچ کلئیر لوظ سرائیکستان لکھیئے۔اکھیئے اور اکھوائے۔
میں افتاب نواز خاں مستوئی دی ایں پوسٹ دے جواب ڈیونڑ دی جیرھی جسارت کریندا پیاں۔
جیندے وچ لوظیں دا اتے تلے ھونونڑ۔سطریں دی بے ترتیبی۔نانویں دی اتے تلے بے ترتیبی کوں صدق دل نال معاف فرمیسو۔کیونکہ میں کوئی باضابطہ لکھاری کینی۔
تعلیمی فقدان دا مسئلہ وی ھ۔جیویں جیرھی گال دماغ وچ یا مونہوں وچ اندی اے۔بے ریا تھی لکھ ڈینداں۔
جیندی وجہ نال لوظیں دا تسلسل برقرار نہیں رہندا۔ایہے جیہاں تھیاں ھویاں ڈھیر غلطیاں میں اپڑیں زمے لینداں۔قبول کریندا۔تساں وی معاف فرمیسو۔
بلکہ میڈی اصلاح فرمیسو۔شکریہ۔
اتھائیں میں جامپور دا تھوڑا جیہاں تعارف کرانونڑ ضروری سمجھداں۔جامپور انتہائی اہل اے علم اور عالم فاضل لوکیں دا شھر اے۔
سردار احمد خاں پتافی جامپور دا بہوں وڈا سنجاپو اور تاریخی ناں اے۔
سردار عبدالرحیم خاں پتافی۔سردار غزالی رحیم خاں پتافی۔سردار لڈا خاں پتافی۔سردار عزیز خاں پتافی۔ڈاکٹر حسنین خاں پتافی۔
حکیم محمد خاں پتافی۔سردار ظفراللہ خاں پتافی ایڈوکیٹ۔سردار حمیداللہ خاں پتافی۔ساڈا یار بلکہ یاریں دا یار جیرھا سارا ڈیہنہ سمدے اور ساری رات جاگدے۔
نہ اپ سمھدے نہ بے کوں سمھنڑ ڈیندے سردار اسد عزیر خاں پتافی۔خان اے اعظم خان پتافی اے سارے ناں ایں پتافی قبیلے دی سونہوں سنجانڑ ان۔
سردار غزالی رحیم خاں پتافی ہک دور وچ ایم پی اے وی بنڑیا ھا۔سردار صاحب نال میڈیاں ڈو ملاقاتاں وی ہن۔انتہائی شریف النفس ادمی اے۔
ایں فیملی دے چیف سردار احمد خاں پتافی جامپور دے لوکیں کوں تعلیم ڈیوانڑ اسلامی مدرسے کھلواونڑ وچ ہمیشہ پیش پیش ھوندے ہن ۔
تعلیم دے سارے اخراجات وی سردار صاحب دے زمے ھوندے ہن۔سردار احمد خاں پتافی واقعی جامپور دی بہوں وڈی جانڑ سنجانڑ ہن۔
مدرسہ اسلامیہ جامپور جیر ھا سردار صاحب دی سرپرستی وچ چلدا ھا۔اور پورے جامپور دی مثالی درسگاہ ھئی اور ہنڑ وی یقینن ھوسی پئی۔جیندے خرچ اخراجات دی پوری کفالت سردار صاحب اپڑیں جیب کنوں کریندے ہن۔
ایں درسگاہ نیں پاک و ہند دے وڈے جید علما پیدا کیتن۔میڈی برادری دے ہک جید عالم اے دین مولانا مرحوم مولوی خدابخش خاں ملکانڑیں وی ہیں درسگاہ دے سند یافتہ ہن۔
جیرھی گال میں پورے سرائیکی وسیب کوں ڈسنڑ چاہنداں او اے ھ۔ریشمی رومال تحریک دے سربراہ جید سرائیکی رہنما مولانا عبیداللہ سندھی وی ہیں مدرسے اسلامیہ جامپور وچ زیر اے تعلیم ریہن۔
مولانا عبیدا سندھی دے تعلیمی غیر تعلیمی ٹوٹل اخراجات بزات اے خود سردار صاحب ادا کریندے ہن۔ایں مدرسے دی تعلیم کنوں پورا جامپور فیضیاب تھیندا ھا۔
میں جڈاں پہلی واری جامپور ایا ہم۔اوں ویلھے دیرے کنوں جامپور دا
کرایہ 14 انے ھا۔جامپور ان تھیونڑ نال سیم سیلاب دے جھیلیں نما دبیں جی ائیں کوں اکھیا ھا۔ہر جامپور انونڑ والے مسافر کوں اے دبے جامپور دے جغرافیئے دی نشان دہی کریندے ہن۔
جامپور کوں پریں کنوں ڈیکھنڑ نال پتہ لگ ویندا ھا بہوں گنجان اباد شھر اے۔اوں ویلھے دیرہ جامپور ہک چھوٹا سنگل روڈ ھوندا ھا۔جیرھا کشمور سندھ تک ایویں ویندا ھا پیا۔
وسیب واسی وقتن فوقتن ایں سنگل روڈ کوں اپڑیں بساط دے مطابق اپڑیں جانیں دی قربانی ڈیندے رہ ویندے ہن۔ کوئی رتو رت تھیندا ھا۔ کوئی اپڑیاں باہیں جنگھاں بھنوانڑ دا خراج پیش کریندا ھا۔سڑک وی خش رہندی ھئی اونکوں اوندا خراج مل ویندا ھا۔
۔بھنے ترٹے اپاہج وساخیں تیں ٹرنڑ والے لوک ول وی سنگل قاتل روڈ تیں ڈوہ نہ ڈیندے ہن۔اہدے ہن اللہ دی مرضی ایویں ھوسی۔
جامپور شھر وچ جی ٹی ایس دا ہک کھلا ڈلا سٹینڈ ھا۔جتھاں داجل ۔نوشھرہ۔ٹبی لنڈان۔لعل گڑھ ۔ ہڑند ۔وستی میاں۔ٹھل دیاں بساں سویلےبتھیچ تیں تلے اتے بھریاں ھویاں جامپور اندیاں ہن۔شام کوں واپس وطناں تیں ول ویندیاں ہن۔
جنہیں دے ڈرئیور کنڈیکٹر بادشاہ اور ما پیو دا درجہ رکھدے ہن۔اڈے تیں ہک اواز گونجدی ھئی۔
ٹکٹیں الے ٹکٹ گھنو۔او گرجدار اواز فدا حسین خاں چانڈیہ دی ھوندی ھئی۔نظم و ظبط ھا۔نظام ھا۔جامپور دی رسائی دریا دے بیٹ کنیں گھن پہاڑ تک ھوندی ھئی۔ہیں پورے وسیع علاقے دے درمیان جامپور ہک گھنٹہ گھر ۔سنگم ٹاور دا درجہ رکھدے۔
جام پور دی سبزی منڈی انڈیا تک مشہور ھئی۔منڈی دے حوالے نال دلال فیض خاں پٹھان۔کوڑا خاں جتوئی اے ڈو جگ مشہور ناں ہن۔منڈی وچ فیض خاں پٹھان دی مرضی دے بغیر برگ وی نہ چل سگدا ھا۔
فیض خاں پٹھان دامنڈی دے حوالے پورے جامپور تیں ھولڈ ھوندا ھا۔
جتھاں ہنڑ جامپور دیاں عدالتاں بنڑیاں کھڑین۔اتھ ہک امبیں دا بہوں وڈا باغ ھوندا ھا۔
عدالت ھوندی ھئی۔
اتھائیں باہرو وکیلیں دے ڈو چار چھپر ھوندے ھن۔جتھاں دوست محمد خاں چانڈیہ ایڈوکیٹ۔افتاب نواز خاں مستوئی دے بابا سئیں ۔سردار محمد نواز خاں مستوئی ایڈوکیٹ ۔میاں محمد رمضان ایڈوکیٹ ڈاکٹر نزیر احمد شہید دے بھائی۔
ملک خادم حسین جھرڑایڈوکیٹ۔حاجی محمد سمیع خاں احمدانی۔میاں ریاض حسین برڑہ جیر ھا بعد وچ ھائی کورٹ دا جج بنڑیا۔میاں صادق حسین برڑہ ایڈوکیٹ۔
امیر بخش مستوئی ایڈوکیٹ۔سرفراز نواز خاں مستوئی۔ظفراللہ خاں پتافی ایڈوکیٹ۔ظفر خاں لنڈ ایڈوکیٹ۔
بطور صدر بار سردار محمد نواز خاں مستوئی نیں جامپور بار کونسل دی بنیاد رکھی اور بار کونسل دی عمارت بڑوائی۔
آج کنوں کم از کم 40 سال پہلے دی گال اے۔شئیت اے 81.80 دا دورانیہ تھی سگدے۔جڈاں میں سندھو سئیں دی کاوڑ اور چھتے کٹاو دی وجہ نال میڈی وستی میڈا گھر دریا برد تھیا۔
میں بے گھر تھیم۔ بے روزگاری زور دی تھی گئی۔ روزی روٹی دا مسئلہ در پیش ھا ۔ اللہ تعالی مسب الاسباب اے۔
کہیں نا کہیں سانگے سبب نال پرائیویٹ ٹرانسپورٹ وچ نوکری دا سنجوک تھی پیا۔ چیکر دی نوکری ملنڑ نال بت اور ساہ دا رشتہ برقرار رہ گیا۔
کجھ جیہاڑیں دے بعد پرائیوٹ ٹرانسپورٹ جام پور دے بس سٹینڈ وچ میں ہک کمرے کوں دفتر بنڑایا۔
جتھاں اوں ویلھے اوں پورے علاقے دی ساری سنگت واٹ میڈے کولھو کٹھی تھیندی ھئی۔
جنرل بس سٹینڈ دے سامھڑیں ربنواز خان غافل ملکانڑیں سئیں دی اخباریں۔
رسالیں دی ہک ایجنسی ھوندی ھئی۔مرحوم ربنواز غافل ملکانڑیں جامپور دا بہوں وڈے ناں الا صحافی ھوندا ھا۔میں وت اکثر اوقات ھوں غافل صاحب دی دوکان تیں رسالے وغیرہ
وی پڑھدا ھم۔اخبار وی پڑھدا ہم۔اے اوں ویلھے دی گال اے۔جڈاں جامپور وچ صرف پیپلز پارٹی ھوندی ھئی تیں پیپلز پارٹی کوں زور ھوندا ھا۔اوں ویلھے پیپلز پارٹی دے جیالیں وچ سید تصدق شاہ۔فداحسین خاں چانڈیہ۔
نزیر گوری۔عبدالحفیظ بھاشانی۔جہانگیر وٹو۔عبدالمجیدذوق۔فیض علی فیض عرف اے عام علی فیض فقیر۔استاد منیر بھٹہ۔حافظ ممتاز بھٹی۔اے سارے دے سارے میڈے دوست ھوندے ہن۔تقریبن ڈھیر ٹائم ڈھیر سنگتی کٹھے ھوندے ھاسے۔ول اے سارے پیپلز پارٹی دے جیالے ھوندے ہن۔میں وی ہنائیں الی کار جیالا ھوندا ہم۔
پیپلز پارٹی دے جیالیں دی وجہ نال جامپور ہک تاریخی جام پور ھوندا ھا۔جامپور او واحد شھر ھا۔جیرھا پورا پیپلز پارٹی دا شھر ھا۔جامپور وچ پیپلز پارٹی کوں اوھو سوبھ اجاں تک انویں دا انویں ملدا کھڑے۔
جیویں جامپور دے لوک جیویں پیپلز پارٹی کوں پہلے مہر محبت ڈیندے ہن۔اج وی انویں دا انویں ڈیندے کھڑن۔پیپلز پارٹی نیں وی انویں ایں وقت تک جامپور نال اوں اپڑیں رشتے
کوں مکمل برقرار رکھیئے۔ ڈوجھی واری محترمہ شازیہ عابد ارائیں ایڈوکیٹ کوں مخصوص سیٹ تیں ایم پی اے بنڑا کیں جامپور دا قرضہ لوھا چھوڑیئے۔سن مکھ تھیونڑ دی پوری کوشش کیتی اے۔جامپور ہنڑ وی پیپلز پارٹی دا گروی اے۔
بے وفائی دا گلہ نئیں کریندا۔اسمبلی وچ شازیہ عابد ارائیں ایڈوکیٹ سرائیکی صوبے دا. اور اپڑیں شھر جامپور دے محرومیں دا بہتر طریقے نال مقدمہ. لڑدی کھڑی اے۔اللہ شازیہ عابد کوں اپڑیں نیک مقاصد وچ کامیاب کرے۔
ہیں محترمہ دے ہتھو جامپور دے ضلع بنڑنڑ دا خواب پورا تھیوے۔اے پورے جامپور دی شان اے۔پورے جامپور دی بیٹی اے۔اللہ تعالی جامپور کوں حملہ اوریں کنوں بچاوے۔
جامپور دے ضلع بنڑانونڑ وچ افتاب نواز خاں مستوئی اور حاجی عاشق حیسین ڈراجہ تیں انہیں دی پوری ٹیم دے کردار کوں وی نہیں بھلایا جا سگیندا۔
اے ڈو بندے وی تایخی کردار ادا کریندا ودن۔اجتماعی حقوق دی جدوجہد کرنڑ الیں کوں میں سرخ سلام پیش کرینداں۔
بے وی یقینن ڈھیر ناں ھوسن جیر ھے جامپور کوں ضلع بنڑوانونڑ وچ پیش پیش ھوسن۔ضرور کجھ حملہ اوریں دے رکھیل ضلع بنڑنڑ دی امید حملہ اوریں نال رکھی کھڑے ھوسن۔
کیونکہ رکھیل قسم دے لوک جدو جہد کنوں عاری ھوندن۔نکمے ھوندن۔کیونکہ عوامی طاقت۔عوامی جدو جہد کنوں او رکھیل لوک واقف نئیں۔تہوں نسل در نسل غلامی کوں ترجیح ڈیندن۔
حملہ انوریں نال رل کیں جامپور وچ دراندازی کرویندن۔ایہے نہیں لوک اپڑیں وسوں دے وی دشمن ھوندن۔نسل دے وی دشمن ھوندن۔
جامپور ضلع ضرور بنڑسی ۔شازیہ عابد۔افتاب نواز خاں مستوئی۔حاجی عاشق حسین ڈراجہ۔عبدالروف خاں لنڈ ایڈوکیٹ۔سلیم انسب۔ملک احسان عمران ارائیں یا ایہے جہیں سر پھریں لوکیں۔
برائے راست جامپور دی عوام دے کاوشیں نال بنڑسی۔کہیں دی جدو جہد کوں اللہ سئیں رائیگاں نہیں کریندا۔
گال پئی تھیندی ھئی آفتاب نواز خاں مستوئی سئیں دی۔افتاب نواز خاں مستوئی نال میڈی پہلی ملاقات اتھائیں ربنواز خاں غافل ملکانڑیں دی اخباری الی دوکان تیں تھئی۔
افتاب نواز خاں مستوئی نال میڈا تعارف ربنواز خاں غافل ملکانڑیں نیں کرایا اور بہوں اچھے انداز وچ کرایا۔کٹھے چاہ پیتی۔اور اے وی نال ڈسیا شئیت جانڑدے ھووو اور
یقینن جانڑدے ھوسو اے افتاب نواز خاں سردار محمد نواز خاں مستوئی ایڈوکیٹ دا پتر اے۔افتاب میکوں بہوں سمجھدار سیانڑاں لگا اور بہوں چنگاں لگا۔اے میل ملاقات دا سلسلہ سک سوائی دے مصداق روزبروز ودھدا رہ گیا۔
ایہو میل ملاقات دا سلسلہ دوستی وچ تبدیل تھیندا گیا۔ہک بے دے خیالات نظریات کنوں وی واقف تھیندے گیوسے۔افتاب نواز خاں مستوئی کوں۔ میڈیا طرفوں جیرھا بہوں وڈا کریڈٹ ویندے۔
او اے ھ۔
سرائیکی زبان دے بہوں وڈے سکالر سئیں اسلم رسولپوری نال ایں جوان نیں میڈی ملاقات کرائی۔
ایں کنوں پہلے میں اسلم رسولپوری سئیں کوں صرف کتابیں وچ پڑھدا ہم اور ناں سنڑدا ھم۔ول سرائیکیں دا موہری جنڑاں سمجھدا ہم۔اسلم رسولپوری دی گفتار۔کردار کنوں میں بہوں متاثر تھیم۔
اسلم رسولپوری اوں ویلھے سرائیکی پارٹی وچ بیرسٹر تاج لنگاہ سئیں دے کٹھے کم کریندا ھا۔تاج لنگاہ سئیں دے ہمعصر ھا۔پارٹی وچ بیرسٹر تاج لنگاہ دے نال سرائیکی پارٹی دا سینئیر نائب صدر ھا۔
اوں وقت اسلم رسولپوری سئیں شعبہ اے تعلیم نال منسلک ہن۔ایل ایل بی کرنڑ دے بعد جامپور وچ پریکٹس شروع کیتی۔ول میل ملاقات داسلسلہ سئیں ھونریں دے
چیمبر وچ اکثر جاری رہندا ھا۔رسولپوری سئیں کنوں سکھنڑ کوں بہوں کجھ ملدا رہ ویندا ھا۔
ہک دفعہ ایں تھا
جو بیرسٹر تاج لنگاہ راجن پور دے دورے تیں ویندے پئے ہن۔رسولپوری صاحب نیں میکوں اکھیا۔بیرسٹر صاحب راجن پور ویندے پئین۔میں چاہنداں جو جامپور ٹریفک چوک تیں
بیرسٹر صاحب کوں چار دوست کٹھے تھی کیں ملوں ھا۔میں چاہنداں تساں وی میڈے نال بیرسٹر صاحب کوں مل گھنو ھا۔
اچھا پیکج ھا۔میں آکھیا ملدے پئے ہیں سئیں۔اوں وقت میں پیپلز پارٹی وچ ہم۔حمید اصغر شاہین وی پیپلز پارٹی وچ ھا۔لغاری سرداریں دے زیر اے عتاب ھا۔
اوں وقت بیرسٹر تاج لنگاہ سرائیکی دے ھولی سولی ہن۔
سو بیرسٹر صاحب دے جامپور کنوں گزرنڑ دے ٹائم میڈے سمیت ھاشم چمن۔امتیاز فریدی۔استاد احمد خاں لشاری تیں اسلم رسولپوری سرائیکی پارٹی دے جھنڈے چا جامپور دے
ٹریفک چوک تیں بیرسٹر صاحب دا استقبال کیتا۔بیرسٹر صاحب تھوڑی دیر کیتے رکیئے۔صرف میڈا تعارف کرایا گیا۔
سوائے میڈے باقی سبھ لوکیں کوں بیرسٹر صاحب ناں دے نال جانڑدے سنجانڑدے ہن۔
وت ول اوں ہنڑ ول ھوں آفتاب نواز خاں مستوئی دی طرف جیندے ناں تیں
پوسٹ لکھیندی پئی اے۔ اس پوس نال وسدا اے افتاب نواز خاں مستوئی جیرھا تقریبن سن1989 وچ ہفت روزہ نیلاب اخبار کڈھدا ھا۔
جیرھا غالبن سرزمین اے جامپور دا خوش قسمتی نال پہلا اخبار ھا۔اور بہوں کامیاب اخبار ھا اور ھ۔جامپور دے لوک ہفت روزہ نیلاب کوں اپڑاں اخبار سمجھ کیں محبت نال پڑھدے ہن اور پڑھدن۔
ایہو آفتاب نواز خاں مستوئی سن1990 وچ ہک بیا سرائیکی رسالا پینگھ وی کڈھدا ھا۔ ملک غلام رسول ڈڈا۔
اسماعیل احمدانی ۔اسلم رسولپوری۔کریم نواز خاں کورائی۔اسد عزیز پتافی۔ریاض اختر ھونریں پینگھ رسالے دے باھاں بیلی ھوندے ہن۔
سرائیکی دے مضمون وی چھپدے ہن۔سرائیکی شاعری وی ھوندی ھئی۔سرائیکی دا بہوں معیاری رسالا ھوندا ھا۔
آفتاب نواز خاں مستوئی دا ہک اپڑاں قد کاٹھ اے۔خاندانی پس اے منظر اے۔جامپور دے سیاسی۔سماجی۔
ادبی کم وچ ڈھیر حصہ آفتاب نواز خان مستوئی تیں اوندی ٹیم دا ھوندے۔اے ٹیم ادبی۔سماجی کمیں کاریں وچ سر اے فہرست ھوندی اے۔
جامپور کوں ضلع بنڑانونڑ وچ حاجی عاشق حسین ڈراجہ تیں آفتاب نوار خاں مستوئی تین افتاب نواز خاں مستوئی دی ٹیم دا کافی حد تک اگوھاں کم اے۔کردار اے۔
مولانا عبیداللہ سندھی پارک دی ساری سپروین وی آفتاب نواز خاں مستوئی دے ہتھ وچ اے۔ھولی صولی ایں پارک دے مکمل کار
مختیار افتاب نواز خاں مستوئی ھوندے۔پارک دے معیار دا بہوں خیال رکھدے۔
1کنال 7 مرلے زمین افتاب نواز خاں مستوئی نیں ربنواز غافل خاں ملکانڑیں دے نال رل کیں پریس کلب واسطے مل گھدی۔
جتھاں ہنڑ ایہو پریس کلب بنڑیا کھڑے۔نویں نسل۔نویں صحافیں کوں ایں گال دا علم ھونونڑاں چاہیدا اے۔اے سر سھرا کیندے سر اے۔
جامپور دی سرزمین وڈی زرخیز اے۔اتھاں شعور دی وڈی رڑھ رادھی پئی اے۔ایں رڑھ رھانونڑ وچ وحید ندوی۔
کیفی جامپوری۔مسیع اللہ خاں جامپوری۔علی محمد فخر۔ملک غلام رسول ڈڈا۔ڈاکٹر اسلم عزیز درانی۔ڈاکٹر گل محمد انصاری۔اسلم رسول پوری۔سردار عبدالروف خاں
لنڈ ایڈوکیٹ۔سلیم انسب۔عنایت اللہ مشرقی مرکزی صدر ایس ڈی پی۔حاجی مرزا نور محمد خاں مغل بنی اسد۔حاجی مرزا عبیداللہ خاں مغل بنی اسد۔مرزا نعمت اللہ خاں مغل بنی
اسد۔مرزاحبیب اللہ خاں مغل بنی اسد۔مرزا حفیظ اللہ خاں مغل بنی اسد۔مرزا محمد عزیز خاں مغل بنی اسد ۔مرزا علی اصغر مغل بنی اسد۔مرزا عبدالکریم خاں مغل بنی اسد عرف اے
عام مرزا گگن خاں۔مرزا ابوبکر خاں مغل بنی اسد۔سید فیض محمد شاہ مودودی۔سید کلیم شاہ مودودی ایم پی اے۔سیدمخدوم ندیم شاہ۔سردار غلام غوث خاں علیانی لغاری۔
ڈاکٹر واحد بخش کلاچی۔ملک اعجاز احمد جکھڑ ایڈوکیٹ۔غلام رسول شوق فریدی۔عبدالرحمن عبد چانڈیہ۔شیخ وزیر گوھانوی ۔
بابو محمد یوسف قریشی ۔خورشید احمد مبشر۔شیخ نزیر احمد گوھاں۔غلام آتش قریشی۔ظفر اللہ خاں پتافی ایڈوکیٹ۔ظفر خاں لنڈ ایڈوکیٹ۔سعید صابر۔پروفیسر رفیق حیدری۔ملک غلام محمد کھوکھر۔
شبیر حسن اختر۔ملک اسحاق علیم۔حبیب اللہ طارق۔اسماعیل خاں احمدانی۔طارق اسماعیل خاں احمدانی۔جمشید کمتر۔کیفی رسولپوری۔امتیازفریدی۔ملک محمد اقبال ارائیں۔حافظ ملک محمد شفیع ارائیں۔حاجی عابد ارائیں۔ملک احسان عمران ارائیں۔محترمہ شازیہ عابد ارائیں ایڈوکیٹ ایم پی اے صاحبہ۔ملک غلام سرور ارائیں۔ملک عابد ارائیں ایڈوکیٹ۔ملک سبطین سرور ارائیں ۔ملک احمد علی ارائیں صحافی۔ملک راشد ظہور ارائیں۔ربنواز خاں غافل ملکانڑیں۔واحد بخش خاں رند۔عبدالرحمن خاں ھوت۔
کلیم لشاری۔سید تصدق حسین شاہ۔فدا حسین خاں چانڈیہ۔زوار گانموں خاں چانڈیہ۔دوست محمد خاں چانڈیہ ایڈوکیٹ۔محمد نواز خاں مستوئی ایڈوکیٹ۔سردار امیر بخش خاں مستوئی ایڈوکیٹ۔
حاجی محمد سمیع خاں احمدانی ایڈوکیٹ۔اکمل خاں درانی۔میاں محمد رمضان ایڈوکیٹ۔ملک خادم حسین جھرڑ ایڈوکیٹ۔محمدیار خاں جتوئی ایڈوکیٹ
۔سرفراز نواز خاں مستوئی ایڈوکیٹ۔میاں ریاض حسین برڑہ جج ھائی کورٹ۔میاں صادق حسین برڑہ ایڈوکیٹ۔میاں محمد اسلم شیشن جج۔شمیم حیدر خاں حیدری کونسلر۔
ملک سعیدببر شوروم۔جان محمد خاں ھوت بلوچ۔شاھد جان ھوت بلوچ۔ڈاکٹر عبداللہ خاں ھوت بلوچ۔میاں نور الہی ایڈو کیٹ۔سردار اختر خاں گورچانی چیرمین۔سردار وقاص خاں گورچانی ایڈو کیٹ۔جام ارشاد گڈن ایڈوکیٹ ۔
ریاض لشاری پریس فوٹو گرافر۔ملک خالد محمود بھٹہ ۔شاھد بھٹہ اڈہ منیجر ۔ملک سیف اللہ جکھڑ صدر پریس کلب۔راشد ریحان۔محمد حسین فریدی کچھیلا۔عبدالحفیظ بھاشانی۔جہانگیر وٹو نزیر گوری۔عبدالمجید ذوق۔
مرشد خلیل فریدی۔ارشاد قریشی دبئی۔رانا محمد اکرم حمید الا۔ملک سیف اللہ جکھڑ صدر پریس کلب۔اقبال ببر صحافی۔میاں خالد محمود سانگی۔سلیم رازش۔فاروق فارس۔حافظ ساجد رحیم چانڈیہ۔
حسین خاں چانڈیہ۔ساجد اقبال۔صحافی عبدالباری پروفیسر شفیق رانا۔پروفیسر ممتاز تارک۔اشکر فاروقی۔خلیل جان سپل۔پروفیسر نسیم خاں چانڈیہ۔ملک مرید حسین اوجلہ۔ملک عبدالرحمن تھیم۔ اصغرعلی مظلوم لشاری۔محمد اقبال خاں لشاری۔
عالم خاں لشاری جمیل احسن بھٹی۔نزیر احمد قریشی۔حاجی عاشق حسین ڈراجہ۔ملک محمد اقبال بھٹہ کونسلر۔فضل احمد خاں پتافی۔عبدالمجید ذوق۔مستری منیر بھٹہ۔فیض علی فیض۔عبدالحفیظ بھاشانی۔جہانگیروٹو۔نزیر گوری۔
حافظ ممتاز بھٹی۔محمد شفیع زبیری۔استاد احمد لشاری۔ایں شعوری رڑھ رھانونڑ وچ بے وی کافی نامور ناں ھوسن ۔
جنہیں دا شئیت میکوں پتہ نہ ھووے۔یا میڈے بھلیکے دی وجہ نال ایں سونڑہیں قطار وچو اگر نکھڑدے پئے ھونون میکوں کوئی وی ٹیلیفون دی مس کال ڈے تیں
ڈس سگدے۔میں اوں محسن دا تھورائیت ھوساں۔
جامپور بہوں وڈے جغرافیعے الا شھر اے۔میں اے جیڈے وڈے شحھر دا مکمل احاطہ تیں پیش نہ کر سگیآں ھوساں۔ول وی اپڑیں رسائی دے مطابق ہک چھوٹی نہیں کوشش کیتی اے۔جے یار فرید قبول کرے چا۔
ہنڑ اخری گال۔۔۔۔۔
جیرھ وجہ نال اے پوسٹ لکھی گئی اے۔
سردار افتاب نواز خاں مستوئی نیں 19 جون کوں پوسٹ لائی اے۔او اے۔
سوال۔اشو لعل تیں قوم پرستیں دی بوچھاڑ کیوں۔
2۔خواجہ کلیم الدین کوریجہ واسطے نرم گوشہ کیوں۔
3۔میاں نور الہی ایڈو کیٹ کوں خراج اے تحسین پیش کرنڑ وچ کوتاہی کت دی۔
اے ترا ئے سوال اپڑیں جاہ تین انتہائی اھم سوال ان اور ٹھیک سوال ان
پہلے سوال دامیڈا جواب اے ھ۔کہ اشو لعل سرائیکیں دی نگاہ وچ سرائیکی قوم دا ہک مہان جدید شاعر اے۔لکھاری اے۔کہانی کار اے۔
قوم دے ڈکھ درد کوں شاعری لب و لہجے وچ بیان کریندے۔سرائیکی قوم اشو لعل کوں قومی شاعر سمجھدی اے۔قوم کوں ایں گال نال کوئی سرو کار نہ ھئی جو اشو پیپلز پارٹی نال جڑیا ھویا شاعر ھئی۔
ایں گال دا کڈاہیں وی قوم پرستیں کوئی اعتراض نہ کیتا ھا۔ایں رد اے عمل دا اوں ویلھے اعتراز تھئے۔جڈاں اشو لعل نیں صدر کلچر ونگ جنوبی پنجاب دا عہدہ قبول کیتے۔پچہیں قوم پرستیں اے واویلہ شروع کیتے۔شور پاتے۔
اشو لعل تمام سرائیکی قوم دا قومی شاعر اے۔اوندا اے حق نہ بنڑدا ھا۔جو او کلچر ونگ جنوبی پنجابی تنظیم دا صدر بنڑنڑ کنوں انکار کر ڈیوے ھا۔اکھے ھا میں پیپلز وچ بیشک کھڑاں۔لیکن اے جنوبی پنجاب الی کالونڑ میڈے مونہوں تیں نہ مارو۔
اشو لعل نیں اے جنوبی پنجاب الا عہدہ گھن کیں اپکوں قوم پرستی دے درمیان متنازعہ بنڑائے۔جینداساکوں ڈاڈھا ارمان تھئے۔ظاہر اے ایں واردات دے خلاف کجھ قوم پرستیں سوشل
میڈیا تیں شور پاتے۔احتجاج کیتے۔اشولعل ہک وڈہ عہدہ مل چکا ھا۔اشولعل قوم پرستیں نال بجائے ڈیپیڈ کرنڑ دے جزبات وچ اکیں ہک صحافی دے سوال تیں کوڑیچ کیں
اکھیس۔قوم پرست چخے تھیون۔جیرھا انتہائی ہک غیر پارلیمانی اور اخلاق توں گریا ھویا لوظ اے۔اشو دا ہر کوئی احترام کریندے۔اشو کوں اے گندے جملے استعمال نہ کرنڑیں چاہیدے ہن۔ایندے وچ اشو دا گراف گریئے۔
ول میں اے وی نہیں اہدا کجھ قوم پرستیں اوندے جواب وچ۔اوندے رد اے عمل وچ اشو۔ٹشو دا لوظ ٹھیک نہیں الایا۔ایں گفتگو اے لب و لہجہ میں سمجھداں۔
اشو نہ قوم پرست اے۔نہ پولیٹیکل ورکر اے۔نہ پختہ سیاستدان اے۔بحرحال او جوکجھ اے۔ہک بہوں وڈی پارٹی دے ہک جنوبی پنجاب کلچر ونگ دا زمے وار عہدیدار اے۔اپڑیں رویئے کوں عوامی بنڑاوے۔
پارٹی الیکشن لنڑڑے پارٹی ووٹ گھننڑن۔کہیں کوں چخے کرنڑ نال پارٹی کڈاہیں وی اپڑاں ٹارگٹ پورا نہ کر سگسی۔جیالے ان تیں پورے جہان وچ ات مچائی ودن۔
مندیں دے کورس کیتی ودن۔اپڑیں پٹکی ہنیں کئیناں بے کوں بدھنڑ نہیں ڈیندے۔چلو اے انہیں دا اپڑاں مسئلہ اے۔او جانڑن انہیں دا کم جانڑے۔اساں چونکہ ہیں پارٹی نال محبت کریندے ہیں۔
تہوں نشاندہی کریندے رہ ویندے ہیں۔
میں اپڑیں پوسٹ وچ اشو لعل کوں اپیل کیتی ھئی ہیں لوظ چخے کوں واپس گھن۔معزرت کرنڑ وچ کوئی حرج نئیں۔
سارے معاملات ٹھیک تھی ویسن۔لیکن یار لوکیں معزرت کوں توہین سمجھے۔
اشو لعل نیں معزرت۔معافی مناسب نہیں سمجھی۔اونکوں پتہ ھا۔قوم پرست تقسیم ان۔میں جتھاں وی پروگرام کریساں اے ضرور اوسن او ایں خاطر اونکوں پتہ ھا۔
الے میں جلسہ کرنڑ ویندا پیاں۔سردار عاشق بزدار دی قوم پرستی تیں گرفت بہوں مظبوط اے۔
سارے مہرے الے جنوبی پنجاب الی سٹیج تیں ائے بیٹھے ھوسن۔
عاشق خاں دا احترام اپڑیں جاہ۔کجھ قوم پرستی عاشق خاں کوں اور جنوبی پنجاب الی سٹیج کوں ضرور موہت ڈتے۔
لیکن ڈھیر قوم پرست ہن جنہیں جنوبی پنجاب دی سٹیج تیں اونڑ کنوں اجتناب کیتے۔اے ہک جواب دا ہک باب ھا۔
ڈوجھا جواب جناب میڈا اے ھ۔جناب نیں اے فرمائے کہ خواجہ کلیم الدین کوریجہ واسطے نرم گوشہ کیوں۔میڈا بھائی خواجہ کلیم الدین کوریجہ پیپلز پارٹی دا اے۔کوئی سرائیکی تیں نئیں اساں عہدے تین اعتراز کروں۔
او تین ایویں پیپلز پارٹی وچ ھ۔جیویں وقتن فوقتن لغاری۔مزاری۔دریشک۔کھوسے ۔کھر ٹوانے۔چیمے۔
گوندل اندے ویندے رہ ویندن۔فصلی بٹیرے ان۔کہیں ویلھے کتھاں۔کہیں ویلھے کتھاں۔مفاد پرست لوک ان۔اپڑیں مفاد واسطے سیاست کریندن۔ساڈا کیا خواجہ کلیم الدین کوریجہ نال۔
او وی تین جنوبی پنجاب الا اے۔اساں اوں تین اپڑاں مغز کیوں کھپاووں۔پیپلز جانڑے۔خواجہ کلیم الدین کوریجہ ساڈا کیا۔
اشو لعل نال ایں گالھوں لڑھ مچے۔او سرائیکی دا مہان شاعر آے۔اوسارا ڈیہنہ ساڈے وسوں دی گال کریندے۔لوظ جنوبی پنجاب تین اوندے نال ساڈا گلہ الانبھا بنڑدا ھا۔خواجہ کلیم الدین کوریجہ اج اتھاں اے۔
ھوسگدے کل ن لیگ نال ھووے ھ کہیں دی گارنٹی۔اگر ہیندی جاہ تیں خواجہ غلام فرید جنوبی پنجاب دی کتھائیں گال کرے۔
اونہیں دے نال ساڈا جھیڑا ٹھندے۔خواجہ کلیم الدین دے کوریجہ دے بارے کوئی نرم گوشہ کئینی۔
جیلھے ساڈا او ھ نہ ول نرم گوشہ کت دا۔اے گال اتھائیں مکی۔
تریجھی گال اے۔میاں نور الہی ایڈوکیٹ کوں خراج اے تحسین پیش کرنڑ وچ کوتاہی کت دی۔
میاں نور الہی ایڈوکیٹ ہیں مٹی دا پتر اے۔
اوں اپڑیں عہدے دے نوٹیفیکیشن لوظ جنوبی پنجاب کوں مٹوا کیں اپڑیں نوٹیفیکیشن تیں لوظ وسیب لکھوا کیں اوں پوری پیپلز پارٹی کوں اپڑیں پورے وسیب کوں ڈسائے میں کوئی جنوبی پنجاب دی نماندگی نہیں کریندا۔
میں دھرتی دا پتر اں۔میں دھرتی دی گال کریساں اکھ کیں میاں نور الہی ایڈوکیٹ امر تھی چکے۔غریب دا بال اے۔سیانڑاں سوڈھا باشعور وکیل اے۔نوجوان اے۔وقت دے دھارے کوں سمجھنڑ زہین انسان ثابت تھئے۔
تاریخ انہیں دے ایں خوبصورت اور جرات مندانہ فیصلے کوں اپڑیں مکھ پنیں تیں محفوظ رکھسی۔
اللہ ایں نوجوان دا حامی او ناصر ھووے۔میڈی جماعت پاکستان عوامی سرائیکی پارٹی مرشد دے فیصلے دا ادر کریندی اے۔ایں توں پہلے مبارکبادی دی
پوسٹ وچ مرشد کوں مباکباد وی ڈتی اے۔مرشد دے فیصلے کوں ایپریشیڈ وی کر چکاں۔شکریہ
اخری گزارش۔۔۔۔۔۔۔۔۔پہلی گال پوسٹ وچ نانویں دی ترتیب کوئی دوست ایں گالھوں محسوس نہ کریسی۔انسان چھوٹے وڈے کئینی ھوندے۔انسان صرف انسان ھوندن۔ول وی کجھ ترتیب دی گال ھوندی اے پئی۔اوندی معزرت۔معاف فرمیسو۔
ڈوجھی گال اگر سہون کوئی ٹیکنیکل غلطی کجھ کتھائیں اتفاقن ناگہانی کمی کوتاہی تھی گئی ھووے او وی میکوں معاف فرمیسو۔
تریجھی گال۔افتاب نواز خاں مستوئی نیں پوسٹ وچ جیر ھے ترائے سوال کہتے ہن میکوں صرف ہنائیں دا جواب ڈیونڑاں چاہیدا ھا۔
جیندے جواب وچ کہیں کوں چنگی لگے تیں بھانویں نہ لگے میں پوری تاریخ اے جامپور لکھ ماری اے۔جیندا میکوں کوئی حق نہ بنڑدا ھا۔ایندے پڑھنڑ دی تکلیف دی معزرت۔
اگر جناب دے وقت گنجائش تھی سگے پوسٹ کوں پورا پڑھسو اور ضرور پڑھسو۔جیویں مناسب سمجھو۔جیرھا کجھ محسوس کرو کمنٹس ضرور کریسو۔
اے ساری پوسٹ محترم افتاب نواز خاں مستوئی یاریں دا یار دیاں سونڑھیاں لکھتاں۔بامقصد خوبصورت پوسٹاں۔
سونڑہیں سونڑہیں کمنٹسیں دے جواب وچ خدرو پوسٹ ۔سویلے عید اے۔عید دا گفٹ اے۔افتاب نواز خاں مستوئی دے نانویں۔
جے یارفرید قبول کرے چا۔
دل کرے اگر جے مناسب سمجھو تاں۔احسان ھوسی جناب دا پوسٹ کوں شیئر ضرور کر چھوڑیسو۔جیوو پئے۔شکریہ۔
سرائیکستان زندہ باد۔جنوبی پنجاب مردہ باد۔جنوبی پنجاب سیکٹریٹ نا منظور۔نامنظور۔
توھاڈا اپڑاں۔
محمد اکبر خاں زات ملکانڑیں۔قوم سرائیکی۔
چیرمین پاکستان عوامی سرائیکی پارٹی۔
سرائیکستان ھاوس دیرہ غازیخاں۔
اے وی پڑھو
موہری سرائیکی تحریک دی کہاݨی…||ڈاکٹر احسن واگھا
محبوب تابش دے پرنے تے موہن بھگت دا گاون
جیسل کلاسرا ضلع لیہ ، سرائیکی لوک سانجھ دے کٹھ اچ مشتاق گاڈی دی گالھ مہاڑ