دسمبر 19, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

چاہِ مرگ||ملک رزاق شاہد

جب یہ سمجھ آ جائے کہ مرتے تو سبھی ہیں پر جیتے سبھی کیوں نہیں تو پھر حادثوں کی گتھیاں بھی سلجھ جائیں بھوکوں مرنے کا راز بھی مل جائے اور ضیاالحقی ابلیست، لُٹیروں کی جوعی الارضی بھی سمجھ آ جائے.

رزاق شاہد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چاہِ مرگ
او ہو …. حادثہ ہو گیا،
بس ٹکرا گئی،
انسان مر گئے،
گھر اجڑ گئے
تعزیتی بیان آنے لگے، زر تلافی کے اعلان ہونے لگے.
قاتل سکے بانٹنے نکل پڑے، کسی کے حصے میں دمڑی، کسی کو دھیلا تو کسی کو کسیرا ملا….
پھر خبروں کے طوفان نے اگلے دن خون دھو ڈالا، مردہ نہلا دیا اور پھر آگے بڑھ گیا.
نوحہ خوانوں کی بَن آئی،
ہائے پردیس گئے مزدور،
ہائے ٹوٹے رستے،
کم ظرف آقا…….
فریادیں… آہیں…… آنسو… گالیاں.
ماؤں نے سینے پیٹ لئے، بہنوں نے آنسوؤں کے دریا بہا دیئے، سہاگنوں نے چوڑیاں توڑ دیں، بچوں کے سینے حسرتوں کے قبرستان بنے.
یہ نوحہ خوانی پہلی ہے نہ آخری… یہ فریاد اولین ہے نہ آخرین….
سمپورن سنگھ گلزار نے آج کا سب سے بڑا سوال پوچھا تھا
سب پہ آتی ہے سب کی باری ہے،
موت انصاف کی علامت ہے،
زندگی، سب پہ کیوں نہیں آتی.
جب یہ سمجھ آ جائے کہ مرتے تو سبھی ہیں پر جیتے سبھی کیوں نہیں تو پھر حادثوں کی گتھیاں بھی سلجھ جائیں بھوکوں مرنے کا راز بھی مل جائے اور ضیاالحقی ابلیست، لُٹیروں کی جوعی الارضی بھی سمجھ آ جائے.
اسی طرح کے حادثوں میں یکسانیت ہوتی ہے جیسا کہ
1. ساری رات کا تھکا ڈرائیور سو گیا، بس سامنے سے آنے والی گاڑی سے ٹکرا گئی.
2. عید تھی، غریب تھے، گھر کی کشش تھی، مجبوری اور لاچاری تھی،
انہی مواقع پر بکرے منڈیوں کی طرف اور مزودر گھروں کی جانب ایک طرح کی سواریوں ایک جیسے طریقے سے پہیے لگے لوہے کے بند ڈبوں میں بھر کر روانہ کر دیئے جاتے ہیں فرق ٹانگوں کا ہوتا ہے چار ٹانگوں والے کے بچے پیچھے بلبلاتے رہ جاتے ہیں جبکہ دو ٹانگوں والوں کے گھروں میں بیٹھے راہ تکتے ہیں… دونوں قربان ہوتے ہیں اور دونوں کو قربان کرنے والا سرخرو ہوتا ہے.
3. جونہی حادثہ ہوتا ہے لاشے گرتے ہیں، زخمی تڑپتے ہیں … عید راہ گیروں کی ہوتی ہے …
لاش کی طرح مضروب بھی خالی جیب گھر لَوٹتا ہے….
لیکن ہم عقیدہ میت کی جیبیں تو خالی نہیں کرتا،
نہ ہی زخمی کی بالیاں نوچتا ہے. لہزا انہی مواقع پر مشرق اور شمال سے
بد عقیدہ گدھ اترتے ہیں اور سب کو نوچ کر ہوا ہو جاتے ہیں.
4. بسوں کو دوڑانے کا مقابلہ ہوتا ہے کہ کون جلدی پہنچتا اور کس وقت واپس آتا ہے جو دوڑا رہا ہے جو اس میں مر رہا ہے سب مزدور ہیں کمزور ہیں اور جو اسی دوڑ سے کما رہا ہے وہ محفوظ قلعوں میں اُڑتی دھول اور گرتی لاشوں پہ مسکرا رہا ہے.
اس کی چالاکی نے تجھے اُس کہانی کا فریادی بنا دیا ہے کہ جو بادشاہ سے ہاتھ جوڑ کر جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھانے کی التجا کر رہا ہے…. اسی طرح آج تُو اس سے رو رو کر کہہ رہا ہے کہ سرکار سڑک کچھ ٹھیک بنوا دے تاکہ میرے جگر گوشوں کے لاشے کم گریں میں بیک وقت درجنوں میتوں کے جنازے نہیں اٹھا سکتا…
اس نے عیاری سے تجھے اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے کہ تجھے تیری بھوک یاد نہیں پرائے دیس کے کھیتوں میں گُھلتی جوانیوں کی آہیں بھول گئی ہیں، ہسپتال میں سسکتی ماؤں کا غم یاد نہیں….
تیری ضرورت یُدھ میں مرنے کی، سڑک پر پتھر کُوٹنے کی، اُس کی بنی دوائی کھانے کی ہے اور تُو اُس کی ڈولیوں کا کہار، اس کے جلسوں کا غبار اور اس کے محلات کا معمار ہے اور بس…
یہ تفریق برقرار رکھنے کے لئے اُسے پورے کرہ ارض کو آگ لگانا پڑی تو لگا دے گا… چونکہ اسے معلوم ہو چکا ہے تُو تھک چکا ہے تُو ہار چکا ہے اس لئے وہ تجھے جہالت اور بھوک کی دلدل میں ڈالتا جائے گا….
اس نے روزمرہ کے استعمال کی چیزوں کو خریدنے کے لئے تجھے حرص کے سمندر میں پھینک دیا ہے تیری بھوک کو بڑھانے کے لئے وہ تجھے قرضوں میں جھکڑتا ہے….. اور تُو طوائف کی طرح اپنا جسم اس کے آگے پیش کر کے موت وادیوں میں پہنچا دیا جاتا ہے اور پھر وہ تیری آنے والی نسلوں پر یہی جال پھینک دیتا ہے…
کاٹ سکتا ہے انہی جالوں کو کاٹ،
توڑ سکتا ہے انہی زنجیروں کو توڑ ….. ورنہ تیری بسیں اسی طرح ٹکراتی رہیں گی تیرے بچے اسی طرح روتے رہیں گے.

یہ بھی پڑھیے:

مولانا بھاشانی کی سیاست۔۔۔ رزاق شاہد

گلاب چاچا تُو اکیلا کبھی نہیں آیا،ملک رزاق شاہد

پیارے بلاول!! تم نے تاریخ تو پڑھی ہو گی۔۔۔ رزاق شاہد

ملک رزاق شاہد کی مزید تحریریں پڑھیے

 

About The Author