نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میرا بلوچ سردار اور 32 لاشیں||محفوظ بلوچ

میرا بلوچ سردار اور 32 لاشیں میرے بلوچ سردار، آپ ڈمی سہی مگر وزیر اعلیٰ تو لگے ہوئے ہیں، اگر شہباز شریف لاہور میں 150 ارب کی میٹرو ٹرین اگر پرویز خٹک پشاور میں 130 ارب کا میٹرو بس منصوبہ بنا سکتا ہے، تو میرے بلوچ سردار آپ چالیس ارب کا ایک رمک روجھان روڈ کیوں نہیں بنوا سکتے؟

محفوظ بلوچ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 میرے بلوچ سردار، آپ ڈمی سہی مگر وزیر اعلیٰ تو لگے ہوئے ہیں، اگر شہباز شریف لاہور میں 150 ارب کی میٹرو ٹرین اگر پرویز خٹک پشاور میں 130 ارب کا میٹرو بس منصوبہ بنا سکتا ہے، تو میرے بلوچ سردار آپ چالیس ارب کا ایک رمک روجھان روڈ کیوں نہیں بنوا سکتے؟
تسلیم کہ آپ بےبس ہیں، بجا کہ آپ کی کوئی نہیں سنتا، بجا کہ اہم بات کرتے وقت آپ کو اب بھی کمرے سے باہر نکال دیا جاتا ہے، تسلیم کہ چیف سیکرٹری آپ کو ایسے ٹریٹ کرتا ہے جیسے کوئی نیا امیرزادہ اپنے جرمن شیفرڈ کے رکھوالے کو کرتا ہے، مگر اس سب کے باوجود میرے بلوچ سردار آپ ایک حلقے کے نمائندے ہیں، ایک شہر کے بیٹے ہیں، آپ اتنے ہی بےبس لاچار اور کمزور ہیں تو وزارت اعلیٰ کا طوق گلے میں کیوں لٹکا رکھا ہے، اگر آپ اپنے شہر کو اپنے ضلع کو اپنے وسیب کو ایک منصوبہ نہیں دے سکتے کہ جس سے وسیبیوں کا قتل عام رک سکے تو اتار پھینکیں، یہ اعلیٰ وزارت کی چوڑیاں، توڑ ڈالیں گلے میں پڑا ہوا یہ ریت کے اقتدار کا کچا رسہ اتار پھینکیں، میرے بلوچ سردار، اقتدار سدا کسی کا رہنا ہوتا تو ہمیشہ نواز شریف کا رہتا، اقتدار سدا خدا کے سوا کسی کا نہیں رہتا کچھ ایسا کر جائیں کہ لوگ آپ کو یاد رکھیں، ورنہ میرے بلوچ سردار مر تو نو تمن دار بھی گئے، لوگ حقارت سے نام لیتے ہیں، ڈرتے ہیں اسی لئے زبان پر نہیں لاتے مگر دل میں گالی بھی دے لیتے ہیں، میرے بلوچ سردار، میری خواہش ہے کہ لوگ آپ کا نام احترام سے لیں ، میں چاہتا ہوں لوگ آپ کے بھائیوں کی کرپشن کو بھول جائیں، میرے بلوچ سردار میں یہ بھی چاہتا ہوں کہ لوگ آپ کو دل ہی دل میں گالیاں بھی نہ نکالیں، سو میرے بلوچ سردار آپ اتنا ضرور کر جائیں کہ آج کے بعد کوئی وسیب کا مزدور عید پر گھر لوٹنے کا قصد تو کرے تو گھر میں بیٹھی بوڑھی ماں کیلئے لائی نئی جوتی بوڑھی کو پہناتے ہوئے ماں کے قدم چھو سکے، (آپ کے تو ویسے بھی رعایا ہیں آپ کے تو نسلوں سے پیروں میں پڑے ہیں)، بیٹی کیلئے لائی گڑیا کیسے چلے گی بیٹی کو وہ طریقہ سمجھاتے ہوئے، بیٹی کے ماتھے کا بوسہ لے سکے، اور ازل سے بیوگی کا تاثر چہرے پر سجائے تھکاوٹ کی ماری بیوی کو چوڑیاں دیتے ہوئے اتنا نظر بھر کر دیکھ سکے کہ اس کی بیوگی کا تاثر اور تھکاوٹ لمحے بھر کو ہی سہی ماؤف کر سکے، چھوٹے بھائی کو ڈانٹ سکے کہ کملیا کھیلنے کی بجائے پڑھا کر ورنہ تو بھی کسی بلوچ سردار کے کتے نہلائے گا یا پھر مزدوری کرنے کسی بڑے شہر جائے گا اور واپسی پر تونسہ روڈ سے آتی کسی چھت پر بیٹھ کر سفر کرتے ہوئے مارا جائے گا۔ میرے بلوچ سردار اتنی مہلت تو بنتی ہے نہ میرے چیف، آخر کو یہ مزدور بھی بیوی بچوں اور ماؤں والے ہوتے ہیں، یہ درختوں پر نہیں اگتے، یہ عدد یا حروف نہیں ہوتے ، میرے بلوچ سردار یہ بھی انسان ہوتے ہیں، کبھی جنت کے لولی پوپ تو کبھی سہانے مستقبل کی آس میں زندگی گزارنے کی بجائے کاٹ جاتے ہیں، میرے بلوچ سردار تسلیم کہ یہ غریب مزدور سستے لوگ ہوتے ہیں، مگر میرے بلوچ سردار ان کو سستی موت سے چھٹکارا ملنا چاہئے، آخر تمہاری رعایا ہیں۔ میرے بلوچ سردار تمہاری سوئی غیرت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی ہے، کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ میرے بلوچ سردار کی غیرت سوئی ہے مری نہیں، میرے بلوچ سردار اپنے رعایا کو سستی موت سے بچاتے اور مہنگا روڈ بناتے اگر موت پڑتی ہے تو یہی سوچ کر ہی روڈ بنوا دو کہ تمہارے بھائیوں کی نئی مرسڈیز، رولز رائس اور بی ایم ڈبلیو کا خرچہ نکل آئے گا، کوئی چھوٹی موٹی فیکٹری بھی بن جائے گی، خوشامدی ٹٹوؤں کی امید بھی بر آئیں گیں ان کا بھی خرچہ پانی بن جائے گا اور مہنگائی کے اس دور میں خان بھی کسی جلسے میں کہہ سکے گا کہ میں نے سستے لوگوں کی موت مہنگی کر دی ہے، تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے تونسہ روڈ میرے بلوچ سردار تم پر قرض رہا اور یاد رکھنا یہ 32 لاشیں تمہارا پیچھا کبھی نہیں چھوڑیں گے، میرے بلوچ سردار تف ہو تم پر پلیز مجھے یہ کہنے کا موقع نہ دینا

About The Author