نومبر 15, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

میں اپنی نیند میں سو گئی ماں||عفت حسن رضوی

گھریلو تشدد کا شکار بعض خواتین کو خود بھی اپنا گھر بنائے رکھنے، اپنا شملہ اونچا رکھنے اور اپنی توقیر بڑھانے کا خبط ہوتا ہے۔

عفت حسن رضوی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جس وقت آپ عید قربان پہ نئے لباس پہنے، اپنے گھر والوں، دوستوں، رشتے داروں کے ساتھ بیٹھے مزیدار پکوان کھا رہے ہوں گے، گھر کے مہمان خانوں، دالانوں اور چھتوں پہ تکے بوٹی کی پارٹی چل رہی ہوگی، دھواں اٹھ رہا ہوگا، محفل میں مردوں، عورتوں اور بچوں کی باتوں قہقہوں کا شور ہوگا۔

عین ممکن ہے اسی وقت آپ سے محض کچھ گز کے فاصلے پہ موجود کسی گھر کے اندر دھواں اٹھ رہا ہو کسی لڑکی کے ارمانوں سے، کوئی شوہر نام کا قصائی اس کی تکہ بوٹی بنانے کے در پے ہو۔

اس مکان کے بچے کبھی طیش میں بے خود باپ کو دیکھ کر شور مچاتے ہوں کبھی خوف سے سہم کے دوسرے کمرے میں دبک جاتے ہوں یا شاید مار کھاتی ماں ہی کہہ دیتی ہوگی کہ ’جاؤ بچوں آپ کے بابا اور میں ابھی بات کر رہے ہیں۔‘

ذہن میں سوال ابھرتا ہے کہ محلے دار، رشتے دار، دوست احباب ایسے میں کر بھی کیا سکتے ہیں۔

آپ کو ایسے معاملے کا علم ہو یا کسی گھر سے روز شام کو تشدد، چیخوں، بچوں کے شور کی آواز آئے، باتوں باتوں میں کہیں سے ذکر چھڑ جائے کہ فلاں کا شوہر تو اسے چار چوٹ کی مار مارتا ہے۔ آپ کا کیا ردعمل ہوگا؟

میں بتاتی ہوں۔ ہم نظر انداز کر دیتے ہیں، ماڈرن لوگ اسے ایک جوڑے کی پرائیویسی کہہ کر دیسی بولی میں اسے آپس کا معاملہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔

ہمیں جھجھک، معاشرتی رجحان آڑے آ جاتا ہے کہ کسی کے گھریلو معاملات کی ٹوہ کیوں لیں، کیوں کسی کے ذاتی مسئلے میں اپنی ٹانگ اڑائیں جبکہ گھریلو تشدد یہ کہہ کر بھی تسلیم کیا جا چکا ہے ’جہاں چار برتن ہوتے ہیں وہ کھٹکتے بھی ہیں۔‘

بالفرض محال ایسے کسی معاملے میں آپ بیچ بچاؤ کرانے کو پڑ بھی جائیں تو لڑکی یا لڑکے کے گھر والوں کا دباؤ کون برداشت کرے جو شکایت کنندہ کو یہ کہہ کر ذلیل کرتے ہیں کہ یہ ہمارے لڑکے یا لڑکی کا گھر تڑوانا چاہتے ہیں۔

میں تو اس بارے میں ایک تلخ تجربے کے ساتھ بات کرسکتی ہوں۔ یہ کوئی دو چار برس پرانی بات ہے، انتہائی جان لیوا نوعیت کے گھریلو تشدد کا شکار ایک سہیلی نے مدد کو پکارا۔

میں فوری پہنچی اسے سسرال کے گھر سے اٹھا کر ہسپتال پہنچایا، لڑکی کے حواس بحال ہوئے تو اس کے کہنے پہ میکے فون کرکے صورت حال بتائی۔

ان کی لڑکی تو بچ گئی مگر لڑکی کے گھر والوں نے مجھے دھمکانا شروع کر دیا کہ میں ان کی بیٹی کا بسا بسایا گھر توڑنا چاہتی ہوں اس لیے وہ مجھے کورٹ تک لے جائیں گے۔ دھمکیوں کا یہ سلسلہ کئی دن چلتا رہا۔

ابھی گذشتہ ہفتے نشر ہونے والے ایک کرائم شو میں بیوی کا قاتل ملزم بتا رہا تھا کہ اس نے 15 گھنٹے صحن میں بیوی کو ڈنڈے سے مارا، کبھی وہ ہوش میں آتی چیختی چلاتی کبھی غنودگی میں چلی جاتی۔

محلے سے کسی ایک نے دروازے پہ دستک نہ دی۔ ملزم نے درمیان میں وقفہ لیا، گود کے بچے کو لے کر دودھ خریدنے بھی نکلا مگر صحن میں پڑی ادھ موئی لڑکی کی مدد کو کوئی نہ آیا۔

جب دو دھاری تلوار معاشرے کے سر پہ لٹک رہی ہو تو خواہ مخواہ لوگوں کو کیا لگے کہ کسی گھر میں کتا مر گیا یا کوئی عورت۔ اسی لیے معاشرہ تو ’آئے ہائے بیچاری‘ کہہ کر خاموش ہو جاتا ہے مگر حکومت کہاں ہے۔

کیا مکان کی چار دیواری کے اندر بھی حکومت کا زور چل سکتا ہے؟ اب کیا حکومت ہر مکان کے باہر پولیس والا کھڑا کرے کہ چیک کرو میاں مار تو نہیں رہا۔

ایسے سوالوں کا جواب ایک سخت قانون ہونا چاہیے تھا۔ بلکہ قانون تو بننے کے قریب تھا پھر شعائر اسلامی، ہماری روایات، مشرقی تمدن، ہمارا خاندانی نظام بیچ میں آگیا اور بل اسلامی نظریاتی کونسل کی ٹیبل پر مزید متاثرین کے انتظار میں ہے۔

قانون کئی موجود ہیں، کئی بن جائیں گے لیکن مار کھانے والی یا مار کھانے کی عادی عورتوں کو تحفظ صرف قانون نہیں کچھ ان کی معاشرتی تربیت بھی دے گی۔

کسی گھر میں لڑکیوں کو یہ تربیت نہیں دی جاتی کہ میاں غصے میں آئے تو تم اور غصہ کرنا، سسرالی رشتے داروں کو جوتے کی نوک پہ رکھنا، ساس باتیں سنائے تو تم اس کی طبعیت ہری کر دینا، میاں کو طیش آجائے تو تم ایک کی چار پکڑانا، اگر کبھی ہاتھ اٹھ جائے تو تم سیدھا پولیس بلا لینا۔

بچی کی پیدائش سے جوانی تک تربیت میں گالم گلوچ، مار پیٹ، بدتمیزی نہیں سکھائی جاتی۔ شادی کرتے ہوئے سب اچھا ہی اچھا سوچتے ہیں، اچھے کی ہی امید رکھتے ہیں۔

لڑکیوں کو رشتہ نبھانے کی تربیت دی جاتی ہے، صبر و رضا کا پیکر۔ میاں کی فرماں بردار، سسرال کی خدمت گزار ہونے کے روایتی فقرے۔

یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن بیچاری مگر زبان پہ اف نہیں، زخمی مگر صابر و شاکر بیوی بننے میں نجانے کون سا رومانس گھول دیا گیا ہے۔

گھریلو تشدد کا شکار بعض خواتین کو خود بھی اپنا گھر بنائے رکھنے، اپنا شملہ اونچا رکھنے، اپنی توقیر بڑھانے کا خبط ہوتا ہے۔

روز کی مار پیٹ بھی ان کے چٹان جیسے حوصلے توڑ نہیں پاتی، نتیجہ یہ کہ ان کی میت پہ گھر والے کہہ رہے ہوتے ہیں ’ہماری بیٹی نے تو کبھی ہمیں بتایا ہی نہیں اس کا شوہر ایسا جانور تھا۔‘

ایک لڑکے اور لڑکی کو نہیں بتایا جاتا کہ مرد عورت کے رشتے میں تشدد ناقابل قبول ہے، نہیں بتایا جاتا کہ معمولی نوک جھونک سے بڑھ کر بات جب لاتوں گھونسوں اور تھپڑوں تک آجائے تو چپ نہیں رہتے۔

نہیں بتایا جاتا کہ معصوم بچے اپنے باپ کا پنچنگ بیگ نہیں ہوتے انہیں مار پیٹ کر ماں کو بلیک میل کرنا بھی جرم ہے۔

نہیں بتایا جاتا کہ ایک حیوان کے ساتھ زندگی بسر کرنے سے بہتر ہے کہ جو تعلیم تمھیں ملی اسے بروئے کار لاؤ۔

زندگی کی تنہا جدوجہد نیلے جسم، سوجی آنکھوں اور چھوٹے بچوں کو روتا چھوڑ کر کفن میں لپٹنے سے کہیں بہتر ہے۔

ایک نومولود لڑکی کی موت پہ زہرہ نگاہ نے لکھا

مری آنکھیں روشن ہو جاتی تو

تیزاب کا سرمہ لگ جاتا

سٹے وٹے میں بٹ جاتی

بے کاری میں کام آ جاتی

ہر خواب ادھورا رہ جاتا

مرا قد جو تھوڑا سا بڑھتا

مرے باپ کا قد چھوٹا پڑتا

مری چنری سر سے ڈھلک جاتی

مرے بھائی کی پگڑی گر جاتی

تری لوری سننے سے پہلے

اپنی نیند میں سو گئی ماں

یہ بھی پڑھیے:

دے دھرنا۔۔۔عفت حسن رضوی

کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی

ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی

ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی

خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی

فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی

عفت حسن رضوی کی مزید تحریریں پڑھیے

About The Author