گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماضی میں ڈیرہ کے ارد گرد گھنے جنگلات تھے اور طرح طرح کے جنگلی جانور اور پرندے ہمارے ارد گرد آباد تھے۔جانوروں میں شیر چیتے بھیڑیا ہرن دھرڈنگے خارپوش گیدڑ جنگلی بلے سور لومڑیاں وغیرہ رہتے تھے۔کچھ جنگل کٹنے سے ہجرت کر گیے کچھ ہم نے بندوق سے ماڑ ڈالے۔ پرندوں کی کئ اقسام تھی جو چلی گئیں۔ایک دفعہ میری پرندوں سے متعلق پوسٹ پر موسی زئ شریف کے ہمارے دوست پیر نمیر نے لکھا تھا ۔۔
”حضرت انسان۔ نے وہ بربادی کی ہے ان معصوم پرندوں کی اب دیکھنے سے نہیں دکھتے ۔جیسے سبز بڑے طوطے اب بہت نایاب ہو گے ہیں پہلے ہمارے گاؤں کے باغات میں کثرت سے پائے جاتے تھے اور اس کے علاؤہ بلبل کی دو اقسام تھی ایک روحیلی بلبل اور ایک شاری بلبل ۔۔۔شاری بلبل جو بہت خوبصورت ہوتی تھی بلکل نایاب ہے اور روحیلی بلبل تھوڑی تعداد میں اب بھی موجود ہے اس کے علاوہ ٹوبہ چنچاں نیلا گیرا( فاختہ) ممال ۔خمرا وغیرہ یہ پرندے ہمارے گاؤں کے باغوں میں پاے جاتے تھے اب کچھ پرندے بلکل ختم ہوگئے ہیں ہمیں چاھیے کہ اپنی آنے والی نسلوں کیلے ان پرندوں کو بچائیں اور انکا تحفظ کریں تاکہ یہ مکمل ناپید ہونے سے بچ جائیں ایک پرندہ لالی اب بھی بڑی تعداد میں موجود ہے اور وہ ہمارا گھریلو پرندہ ہے اور انسان سے بہت مانوس ہے۔۔“
ہمارے سامنے سبز رنگ کا ایک چڑیا نما پرندہ دریا سندھ کے کنارے زمین کے پشتے میں سوراغ کر کے آشیانہ بناتا اور انڈے بچے دیتا۔دریاے سندھ پر جھنڈ کے جھنڈ یہ سبز پرندے اڑتے پھرتے اور ہم ان کی اڑان اور سبز کلر کو انجائے کرتے۔
اب کئی سال ہو گئے یہ کریلا۔کرلو۔کارندہ۔یا شین طوطا پرندہ نظر نہیں آیا۔ شاید دور کہیں بسیرا کرتا ہو۔ بڑی گِرجیں۔سفید چیل۔ہریل طوطا ۔ٹوبا۔دریائ پرندے بھی روٹھ گیے۔ عمر الراعی نےپچھلی دفعہ کمنٹس میں دو شعر بھیجے تھے۔
؎۔ باغ تیرے وچ ھریل طوطا چھم چھم اتھرو رووئے
باغاں والو پتھر نہ مارو مت پردیسی ھووئے۔۔۔۔۔۔
دوسرا شعر ہے؎
باغاں دے وچ ھریل طوطا
اڑدا ڈالی ڈالی
ماواں باج محمد بخشا کون
کرے رکھوالی
بارش اور ماشکی ۔۔
ڈیرہ میں گذشتہ دنوں رات کو تین بجے تیز آندھی آئ پھر بادل چھا گیے۔
اس کے بعد ہلکی چھڑکاو جیسی بارش ہوئ ۔ابھی صبح چھ بجے بھی ہلکی چھڑکاٶ کی طرح بارش ہوئ۔ اس بارش پر مجھے پرانے ماشکی یاد آ گیے جو ہمارے گھروں میں پانی بھرتے اور گلی میں چھڑکاٶ کرتے تھے۔
ہو سکتا ہے ہماری نئی نسل نے ماشکی کا لفظ بھی نہ سنا ہو!
ماشکی دراصل اس شخص کو کہتے جو کنویں یا کھوئی سے پانی کی مشک بھر بھر کر گھروں میں پہنچاتا اور ماہانہ معاوضہ حاصل کرتا۔اس وقت ہمارے گھروں میں بڑے بڑے مٹی کے بنے گھڑے جسے ہم مَٹ کہتے رکھے ہوتے ۔ماشکی دروازے پر کہتا ۔ بیبی پردہ کرو ماشکی آیا ہے۔۔عورتیں کمرے کے اندر چلی جاتیں اور یہ صحن میں رکھے مٹکے میں مشک انڈیل کے چلا جاتا۔
اب کئی سال ہو گئے نہ مشک دیکھی نہ ماشکی ۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر