ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عیدقرباں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں منائی جاتی ہے ۔یہ تجدید عہد کا دن ہے کہ ہماری جاں سمیت سب کچھ اللہ کے لیے ہے ۔اگر ہم تاریخ پر غور کریں تو قبل از اسلام عرب کے لوگ سال میں خوشی کے جو دو تہوار مناتے تھے ، ان میں سے ایک کا نام ’’ عکاظ ‘‘ اور دوسرے کا نام ’’ محنہ ‘‘ تھا ۔
یہ تہوار ایک میلے کی شکل میں ہوتے تھے اور عرب ثقافت میں ان کا بھرپور اظہار ہوتا تھا ۔ سرکار دو عالم ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپﷺ نے پوچھا خوشی کے ان دنوں میں آپ کیا کرتے ہیں تو عرض کیا گیا ہم کھیلتے ہیں، کودتے ہیں ‘نئے کپڑے پہنتے ہیں اور کھانے پینے کا اہتمام کرتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ان دونوں دنوں کے بدلے دو عیدین دی جاتی ہیں۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ سرکار مدینہؐ نے اہل مدینہ کی ثقافتی تفریح کا نہ صرف خیال رکھابلکہ اس سے کہیں بہتر اسلامی ثقافتی تہوار عطا فرمائے اور اس بات کا خصوصی اہتمام فرمایا کہ یتیم مسکین اور غریب بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہوں ۔ علماء کہتے ہیں کہ عید پر پانچ چیزوں کا اہتمام ضروری ہے :۔ 1۔ نہا دھو کر صاف ستھرا لباس پہننا 2 ۔ گھر میں اچھا طعام پکانا 3 ۔ خوشبو لگانا 4 ۔
معانقہ کرنا اور مسکراہٹیں بکھیرنا 5 ۔بزرگوں اور غمزدہ لوگوں کے پاس خود چل کر جانا عید پر ہر مرتبہ خبر لازمی شائع ہوتی ہے کہ صدر ،وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ، گورنر کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے بڑے رہنما کہاں عید منائیں گے اس مرتبہ خبر یہ نہیں کہ کہاں عید منائیں گے دراصل خبر یہ ہے کہ کس حال میں عید منائیں گے؟
حکمران اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی چپقلش اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ عام آدمی بھی اس سے پریشان ہے، کشمیر میں بھارت تاریخ کے جس بد ترین ظلم و بربریت کا مظاہرہ کر رہا ہے اس سے مسلمانوں کی خوشی غم میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہے، موجودہ حکومت تبدیلی کے نام پر بر سر اقتدار آئی ، اگر کوئی تبدیلی آئی ہے تو عام آدمی کیلئے مشکلات کے اضافہ کی صورت میں ۔ مہنگائی نے غریبوں کا جینا دو بھر کر دیا ہے،
ایک کروڑ ملازمتیں دینے کی بات کی گئی مگر جو بر سر روزگار تھے بیروزگار ہو گئے ، 50 لاکھ گھر دینے کا وعدہ ہوامگر تجاوزات کے نام پر غریبوں کی جھونپڑیاں تک گرا دی گئیں۔ وسیب سے سو دن میں صوبے کا وعدہ ہوا مگر ہر سو دن کے بعد صوبے کی منزل قریب ہونے کی بجائے دور ہوتی دکھائی دیتی ہے،ان حالات میں لوگ کس طرح عید کریں گے؟ گزشتہ روز ایک دوست کے ساتھ ملتان کے نواحی علاقے مظفر آباد جانے کا اتفاق ہوا ، میرا دوست ایک غریب کے گھر گیا، اُسے کہا کہ گھر میں کام کرنے والا بچہ کام چھوڑ گیا ہے اپنے فلاں بچے کو میرے ساتھ بھیجو کہ وہ پہلے بھی کام کرتا رہا ہے،
غریب آدمی خوشی سے اپنے بچے کو لے آیا اور میرے دوست کو ’’پارت‘‘ دیتے ہوئے کہا کہ یہ میرا نہیں آپ کا بچہ ہے آپ نے اس کا خیال کرنا ہے اور اسے عید پر کپڑوں کا جوڑا بھی لیکر دینا ہے، یہ بات سن کر میرے دوست کی اوپر والی سانس اوپر اور نیچے والی نیچے رہ گئی اور کچھ توقف کے بعد جواب دیا کہ میں یہ وعدہ نہیں کر تا البتہ میں اس کا خیال رکھوں گا، اس سے پہلے جب میں دوست کی گاڑی میں اس کے ساتھ سفر کر رہا تھا تو وہ مجھ سے مشورہ کر رہا تھا کہ میں عید پر اونٹ کی قربانی کروں یا تین چار بکرے لے لوںتو میں نے اُسے کہا کہ قربانی کیلئے ایک بکرا لو اور باقی تین بکروں کی رقم غریبوں میں تقسیم کر دوکہ ان کی بھی عید ہو جائے۔
جب ہم بچے کو لیکر واپس روانہ ہوئے تو میں نے اُسے کہا کہ تم سرمایہ داروں کو غریبوں کی فکر نہیں ، اپنے ڈیپ فریزر بھرنا چاہتے ہو جو کہ اسلام کی رو کے منافی ہے۔ قربانی کے تاریخی پس منظر پر غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ قربانی ہزارہا سالوں سے مختلف شکلوں اور مختلف مذاہب و قبائل میں چلی آرہی ہے۔ ہمیں اپنے مذہب اسلام میں قربانی کی تاریخ سے علم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد میں قربانی کی عید منائی جاتی ہے، اسے بڑی عید کا نام بھی دیا جاتا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے جانور کی قربانی کا حکم ہوا تو اس یاد میں ہر سال عید پر کروڑوں جانور ذبح ہوتے ہیں۔ ہندومذہب کی کتاب رامائن میں گھوڑوں کی قربانی کا ذکر ہے۔ البتہ بدھ مت اور جین مت میں کسی ذی روح کو مارنا گناہ اور پاپ ہے، کٹر مذہبی لوگ منہ پر کپڑا رکھتے ہیں کہ کہیں منہ میں مچھر نہ چلا جائے مگر عورت کو بے دردی سے ’’ستی‘‘ کر دیا جاتا ہے۔
یہودی ’’عید فصیح‘‘ کے نام سے سات روز تک تہوار مناتے ہیں اور جانوروں کی قربانی کرتے ہیں۔ سکھ مذہب کے لوگ ’’ہولا‘‘ کے نام سے قربانی کرتے ہیں، بھیڑیں ذبح کی جاتی ہیں قدیم یونان میں جنگ سے قبل کنواری لڑکی کی قربانی کا رواج تھا۔ قدیم ایران میں (قبل از اسلام) دیوتا کیلئے سانڈ کی قربانیوں کا ذکر ملتا ہے۔ میسکو کے لوگ زمانہ قدیم میں جنگی قیدی قربان کرتے تھے، قبل از اسلام عرب میں ’’فرع‘‘ پہلے پیدا ہوے والے بچے کو قربان کرنے کا رواج تھا۔ ہندوستان میں ٹھگ کی قربانی دینے ، کالی یا چنڈی دیوی کے سامنے مردوں کی قربانی دینے کے واقعات قدیم کتابوں میں موجود ہیں۔
کنعان میں بچوں کو قربان کرکے مرتبانوں میں سجانے کے قدیم تذکرے موجود ہیں۔ ہندوستان کے جنوبی قبائل ’’گونڈ اور ماریا‘‘ دھرتی کی زرخیزی کیلئے خوبصورت لڑکی قربان کرتے تھے۔ روم میں مفتوح سپہ سالار کی قربانی کا رواج تھا۔ ڈیانا دیوی کے معبد میں گھوڑا بھی قربان کیا جاتا۔ ’’قرطاجنہ‘‘ میں بچے کو آگ کے شعلوں میں پھینک کر ’’دیوتا مولک‘‘ پر قربان کیا جاتا۔ وحشی قبائل میں ایک ایک خوبرو نوجوان کی قربانی کیلئے منتخب کیا جاتا، اس کی سال بھر خوب خاطر مدارت کی جاتی پھر اس کا بنائو سنگھار ہوتا دولہے کی طرح سجایا جاتا شب باشی کیلئے حسینائیں پیش کی جاتیں پھر دوسرے دن اسے ذبح کر دیا جاتا۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر