ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان کے صدر سے ملاقات کے دوران اُن کو ٹھیک جواب دیا اور آئی ایس آئی کے ڈی جی نے بھی درست کہا کہ دہشت گردی کے تمام تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے جتنے بھی عذاب آئے ہیں براستہ افغانستان آئے ہیں ۔پاکستان کو افغانستان کی طرف سے کبھی بھی اچھائی کا بدلہ اچھائی کی صورت میں نہیں ملا ۔
وقتی طور پر کچھ گروہ اپنے مقاصد کے لیے پاکستان کی ہمدردیاں حاصل کرتے ہیں اور جب وہ طاقت میں آتے ہیں تو پاکستان کے سب سے بڑے دشمن وہی ثابت ہوتے ہیں ۔افغان امن کے لیے نیا بلاک ، ایران ، پاکستان، ازبکستان، ترقی اور تاجکستان اچھا عمل ہے ۔ ہم دعا گو بھی ہیں کہ ان ملکوں کی کوششیں بارآور ثابت ہوں اور افغانستان میں امن قائم ہو۔ طالبان ہوں یا افغان حکومت کسی نے پاکستان سے اچھائی نہیں کی۔ وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ افغان امن خطے کی ترقی و خوشحالی کے لیے ضروری ہے اس سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ پاکستان میں امن ہو اور پاکستان میں امن ہی پاکستان کی سلامتی کا ضامن ہے ۔آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہو رہے ہیں ۔
آج کے اخبارات میںدہشت گردوں کے حملے میں پاک فوج کے کیپٹن اور سپاہی کے شہید ہونے کی خبر شائع ہوئی ہے ۔دہشت گردی کی یہ واردات بلوچستان کے علاقے پسنی میں ہوئی ہے ۔ایک خبر یہ ہے کہ کرم ایجنسی میں دہشت گردوں نے کچھ عرصہ قبل ٹاور پر کام کرنے والے 16مزدوروں کو اغواء کیا تھا سکیورٹی فورسز نے دس مزدور پہلے 13جولائی کے آپریشن میں بازیاب کرائے ۔
اس موقع پر بھی تین دہشت گرد مارے گئے جبکہ پاک فوج کے کیپٹن عبدالباسط اور سپاہی بلال شہید ہوئے۔سکیورٹی فورسز نے حالیہ آپریشن کے دوران 5 مزدور بازیاب کرا لیے اور ایک مزدور کا جسد خاکی مل گیا۔دہشت گردی کی واردات وزیرستان میں ہو یا بلوچستان میں اس کے تانے بانے افغانستان سے ملتے ہیں ۔ خاجی صورتحال کے علاوہ ملکی کی داخلی صورت حال بھی اتنی بہتر نہیں ہے ، ابھی جون میں بجٹ پیش ہوا ہے ، بجٹ کو ایک مہینہ نہیں گزرا کہ حکومت نے پٹرول اور ایل پی جی کی قیمتوں میں دوسری بار اضافہ کردیا ہے ۔ پٹرول کی قیمت 5.40 روپے لیٹر اور ایل پی جی 5روپے کلو مہنگی کی گئی ہے ۔ پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کا مطلب اشیائے ضرورت کی تمام چیزوں میں اضافہ ہے ۔
وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں دیگر ممالک سے کم ہیں ، فواد چوہدری کو دیگر ممالک سے موازانہ کرنے سے پہلے یہ بھی بتانا چاہیے کہ دیگر ممالک میں عام آدمی کی آمدنی کا کیا تناسب ہے اور وہاں اُن کا معیار زندگی کتنا بلند ہے ۔ فواد چوہدری عام آدمی کی تنخواہ ترقی یافتہ ممالک کے برابر نہ سہی اُس سے نصف بھی کرا دیں اور پھر پٹرول کی قیمتیں دُوگنی بھی ہو جائیں تو تب بھی فرق نہیں پڑے گا ۔ یہاں تو حالت یہ ہے کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی بے روزگار ہے اور جو برسر روزگار ہیں اُن میں عام آدمی کی بیان نہیں کی جا سکتی ۔
عمران خان نے اقتدار سے پہلے جتنے بھی اعلانات کئے سب کچھ اس کے برعکس ہو رہاہے ۔ان کی زیادہ تقریریں غربت ، بیروزگاری اور مہنگائی کے حوالے سے تھیں ، عجب بات ہے کہ گذشتہ 71سال میں گھی کی قیمت 170تک پہنچی اور عمران خان کے 3 برسوں میں گھی کی قیمت 320روپے تک چلی گئی ۔اور ایک کروڑ ملازمتیں دینے کا وعدہ ہوا ملازمتیں تو کیا ملنا تھیں ایک کروڑ سے زائد لوگ بیروزگار ہو گئے ۔
اپوزیشن کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں احتجاج ہو گا ۔عجب بات ہے کہ عالمی منڈی میں تیل سستا ہو رہا ہے اور ہمارے ہاں تیل کو مہنگا کردیا گیا ، عام آدمی کو مشکلات کی طرف دھکیلا جا رہاہے ۔ حکومت اپنا فیصلہ واپس لے اور عالمی مالیاتی اداروں کی ہدایات پر چلنے کی بجائے اپنی معاشی پالیسیاں پاکستان کے غریب عوام کی مالی و معاشی سکت کو سامنے رکھ کر ترتیب دے ۔
وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے لاہور میں ایشیاء کا سب سے بڑا میاواکی جنگل لگانے کا اعلان کیا ہے ۔ اس سے پہلے لاہور میں نیا شہر آباد کرنے کے منصوبے پر بھی کام ہورہاہے ۔ لاہور کی ترقی سے کسی کو اعتراض نہیں مگر لاہور سے پہلے پسماندہ علاقوں کی ترقی ضروری ہے ۔لاہور بارڈر سٹی ہے شہریت کے عالمی اصول کے مطابق کسی بھی بارڈر سٹی پر بھاری انویسٹمنٹ نہیں ہونی چاہیے ، خصوصاً اُن حالات میں جب ہمسایہ ملک کے ساتھ کشیدگی ہو ۔ مزید یہ کہ ہمارے مذہب میں شہروں کو پھیلائو سے روکنے کی بات کی گئی ہے ، ویسے بھی ہر ذی شعور یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ شہروں کے بڑھنے کا مطلب مسائل کے بڑھنے کے سوا کچھ نہیں ۔
عمران خان نے کہاتھاکہ پسماندہ علاقوں کو ترقی دیں گے مگر یہ ستم بھی دیکھئے کہ سی پیک منصوبے میں وسیب میں کوئی صنعتی بستی قائم نہیں کی گئی جبکہ سی پیک منصوبے سے فیصل آباد میں بہت بڑا انڈسٹریل زون دیا گیا ہے ۔ فیصل آباد کی صنعتی ترقی سے بھی کسی کو اختلاف نہیں مگر فیصل آباد میں اتنی انڈسٹری قائم ہو چکی ہے کہ زمینیں کم پڑ گئی ہیں ۔ وسیب میں وافر زمینیں ہیں جن پر مختلف حیلوں اور بہانوں سے لینڈ مافیا قابض ہو رہا ہے۔
حاضر سروس ملازمین کی خدمات اور ریٹائرڈ ملازمین کو بھی رقبے وسیب میں دئیے جاتے ہیں جو اس خطے کے قدیم لوگ ہیں ان کے لئے کوئی سکیم نہیں ۔ ہر سال دریا کو ڈھاہ لگتا ہے سینکڑوں آبادیاں اور بستیاں تباہ ہو کر مٹ جاتے ہیں ، لاکھوں متاثرین بے یارو مددگار ہو جاتے ہیں ، اُن اصلی اور حقیقی متاثرین کو کوئی ایک مرلہ بھی دینے کے لیے تیار نہیں۔کیا ہی بہتر ہو کہ سی پیک منصوبے کے تحت وسیب کی زمینیں زرعی انڈسٹری کے مقاصد کے تحت استعمال کی جائیں اور پاکستان بھی چین کی طرح ترقی کرے جس طرح کہ وسیب میں خام مال اور افرادی قوت وافر مقدار میں موجود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وسیب کو اُس کا حق اور انصاف ملے گا ؟ اگر تحریک انصاف کے دور میں بھی انصاف نہیں ہوتا تو اس سے بڑی بدقسمتی کوئی نہیں ہو سکتی ۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر