گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں کملی دا ڈھولا ایک پرانا سرائیکی رومانوی گیت ہے جو میں نے سب سے پہلے ثریا ملتانیکر کی آواز میں سنا تھا۔پھر اس گیت کو مسرت نذیر ۔ناہید اختر ۔حدیقہ کیانی اور درجنوں گلو کاروں نے گایا ۔ خواجہ غلام فرید سرائیکی وسیب کے بہت پائے کے صوفی اور رومانوی شاعر تھے ۔ان کا کلام سیکڑوں دفعہ گایا گیا اور پھر گلوکاروں نے اس گیت میں نیے اضافے بھی کیے ۔شروع میں اس کے بول کچھ یوں تھے۔؎
نیندر نے کئیاں جھوکاں لائیاں وے رات دھمی دھمی جاندی۔۔۔
میں کملی دیا سائیاں وے رات گھڑیاں گھتی جاندی۔۔۔۔
آکھ گیؤ وے مول ناں آئیؤ لکھ لکھ چٹھیاں میں پاندی۔۔۔
جو دوست سرائیکی نہیں جانتے ان کے لیے عرض ہے کملی کا لفظ پگلی اور crazy کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ڈھولا سرائیکی زبان کا لفظ محبوب مرد کے لیے استعمال ہوتا ہے جیسے اردو میں دلبر ۔جانو ۔پشتو میں جانان وغیرہ ۔ہر زبان میں محبوب کے لیے طرح طرح کے استعارے مشھور ہیں جب وہ الفاظ سامنے آتے ہیں تو اہل ذوق فورا” سمجھ جاتے ہیں۔ البتہ مکرر عرض ہے کہ ڈھولا کی مونث نہیں ہے ایسا نہ ہو کہ آپ ڈھولا کی مونث ڈھولی استعمال کرنا شروع کر دیں۔ اس رومانوی گیت سے یاد آیا کہ انسان کے دل ۔دماغ اور محبت کی دنیا بالکل علیحدہ ہے ۔ شمس تبریزی ؒ نے کہا ہے کہ دماغ کی کیمسٹری محبت اور دل کی کیمسٹری سے بالکل جدا ہے۔ دماغ ہر کام میں محتاط ۔ ہوشیار ۔مشکوک ہوتا ہے اور آہستہ آہستہ سوچ کے قدم بڑھاتا ہے۔ دماغ کو ہر وقت اپنے بچاو اور سلامتی کی فکر لاحق رہتی ہے۔ لیکن محبت میں دل ان سوچوں سے آذاد ہر صورت حال میں کودنے کو تیار ہو جاتا ہے۔ دماغ ہوشیاری کے ساتھ اپنے آپ کو گرنے سے بچا لیتا ہے جبکہ محبت بھرا دل کسی چیز کی پرواہ کیے بغیر گڑھوں میں گر کر اپنے آپ کو زخمی کر بیٹھتا ہے۔ شمس تبریزی کہتے ہیں اگرچہ محبت بھرا دل ان گڑھوں میں زخمی تو ہو جاتا ہے مگر اصل خزانے ان گڑھوں میں پائے جاتے ہیں اور مل جاتے ہیں۔ اس شکستہ دل کے اندر کئی خزانے پوشیدہ ہوتے ہیں۔جیسا کہ علامہ اقبال نے کہا ہے ؎
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ….
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں….
نگری نگری گھومنے اور دانشوروں کو ملنے یا پڑھنے سے مجھ پر بھی یہ بات واضع ہوئی کہ دماغ کی کیمسٹری محبت کی کیمسٹری سے بہت مختلف ہوتی ہے۔
انسان کا دماغ بہت محتاط اور شبہات سے پُر ہوتا ہے اور دھیرے دھیرے قدم آگے بڑھاتا ہے۔ محبت کا جذبہ یا دل کا معاملہ بے سوچے جمپ لگا دیتا ہے جیسے علامہ اقبال نے کہا ؎ بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق ۔ عقل ہے محو تماشِہ لب بام ابھی ۔.. اب دل کے معاملے بھی عجب ہیں۔ ملتان میں ایک بہت غریب عورت تنور پر روٹیاں لگا کے گزارا کرتی تھی۔میں دیکھتا جب اس کے پاس کوئی غریب مانگنے والا آتا جلدی سے لوہے کی لمبی سلاخ سے تنور کے اندر سے تازہ روٹی نکال کے اس کو دے دیتی جبکہ وہ خود بہت غریب جھونپڑی میں رہتی تھی مگر اس کا دل بہت بڑا تھا۔ میں جب اس کو دیکھتا اس کی عظمت سے میرا سر جھک جاتا۔ ماضی میں میرا مشاھدہ رہا کہ ہمارے سیاستدانوں کو جب کوئی درخواست دیتا تو وہ پین کی مختلف سیاہی اور کوڈ استعمال کر کے ہر ایک درخواست پر آرڈر کر دیتے مگر وہ کام نہیں ہوتا ۔اس لیے کہ افسروں کو پتہ تھا کس کا کام کرنا ہے۔ کس کا نہیں کرنا۔ مگر سب سیاستدان ایک جیسے بھی نہیں تھے کچھ بڑے دل و دماغ کے مالک تھے۔
سندھ کے ماضی کے ایک چیف منسٹر تھے جام صادق علی۔ ایک دن اندرون سندھ پروٹوکول کے ساتھ گاڑی میں جا رہے تھے کہ سڑک پر کھڑے ایک غریب سندھی نے ہاتھ کھڑا کیا تو قافلہ روک دیا۔ گاڑی میں بیٹھے رہے پوچھا کیا مسئلہ ہے۔ ہاری کہنے لگا بیٹا میٹرک پاس ہے کوئ نوکری نہیں ۔ جام صادق نے پوچھا درخواست ہے اس نے کہا میں ان پڑھ میرے پاس درخواست کہاں؟ ڈرائیور سے پوچھا کوئی کاغذ ہے وہ بھی نہیں تھا۔ سگریٹ پی رہے تھے ۔سگریٹ کی ڈبی سے تمام سگریٹ نکال کے الگ رکھے اور اس پر آرڈر کر دیے۔ سندھی ہاری وہ گتے کا ٹکڑا لے کر متعلقہ دفتر گیا اور بیٹے کے آرڈر ہوگیے۔ پہلے ہمارے حکمرانوں کی باتوں پر عمل ہوتا تھا چاہےسگریٹ کی ڈبی کے گتے کے ٹکڑے پر ہوں۔مگر اب دنیا بدل گئی ہم دیکھتے ہیں لوڈشیڈنگ سے متعلق روزانہ جتنے وعدے کیے جاتے ہیں وفا نہیں ہوتے۔ ادھر ڈیرہ اسماعیل خان میں جب رات کو بجلی نہ ہو تو نیند تو ویسے نہیں آتی بندہ سوچوں میں گم ہو جاتا ہے۔ میرے دماغ پر خواجہ غلام فرید کا یہ گیت گھومتا رہتا ہے ؎
نیندر نے کئیاں جھوکاں لائیاں وے رات دھمی دھمی جاندی۔۔۔
میں کملی دیا سائیاں وے رات گھڑیاں گھتی جاندی۔۔۔۔
آکھ گیؤ وے مول ناں آئیؤ لکھ لکھ چٹھیاں میں پاندی۔۔
رات دھمی دھمی جاندی ۔۔۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر