ظہور دھریجہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی بھی جماعت کا منشور اہمیت کا حامل ہوتا ہے ، الیکشن سے پہلے منشور کے ذریعے پہلے عوام الناس کو پارٹی کا روڈ میپ منشور کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے اور اسی منشور پر ووٹ طلب کئے جاتے ہیں ، مینڈیٹ ملنے پرکامیاب جماعت حکومت بناتی ہے ، اقتدار میں آنے کے بعد لازم ہوتا ہے کہ منشور پر عمل درآمد کے لیے اقدامات کئے جائیں ۔مجھے چار سال پہلے شائع ہونے والی تحریک انصاف کے منشور کی کاپی ملی ہے ، اس کے تذکرے سے پہلے یہ بھی کہوں گا کہ جب الیٹک ایبل جاگیرداروں پر مشتمل صوبہ محاذ تحریک انصاف میں ضم ہوا تو 100دنوں میں صوبہ بنانے کا تحریری معاہدہ ہوا مگر بارہ سو دن گذرنے کے باوجود صوبہ یا صوبہ کمیشن تو کیا معمولی سی صوبہ کمیٹی بھی نہیں بن سکی ۔
ن لیگ اور پیپلز پارٹی گذشتہ تین سالوں سے کہہ رہے ہیں کہ اسمبلی میں صوبے کا بل لائیں ہم حمایت کریں گے مگر حکومت کیوں لیت و لعل سے کام لے رہی ہے ؟ اس کی سمجھ نہیں آئی ۔ تحریک انصاف کے منشور میں خیبرپختونخواہ میں ایک کروڑ ملازمتیں اور پچاس لاکھ گھر دینے کا وعدہ کیا گیا ہے ، منشور میں ڈیمز بنانے کی گئی ہے مگر کالا باغ ڈیم کا ذکر نہیں جو کہ عمران خان کے اپنے ہوم ڈسٹرکٹ میانوالی میں بننا ہے۔ ۔
یہ اور بہت سی دوسری باتوں پر بحث ہو سکتی ہے لیکن میں منشور میں شامل صرف ایک نکتہ صوبہ جنوبی پنجاب کی بات کروں گا۔ منشور میں کہا گیا ہے کہ ہم انتظامی بنیادوں پر تین ڈویژنز ( ملتان ،بہاولپور ، ڈی جی خان) پر مشتمل جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کیلئے قومی اتفاق رائے پیدا کریں گے اور صوبے کی تخلیق کیلئے صوبائی اسمبلی اور پھر پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے قانون سازی کرائیں گے۔ منشور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جنوبی پنجاب کے 35 ملین لوگوں کے وسائل کا بڑا حصہ وسطی پنجاب پر خرچ کیا گیا ۔
یہی وجہ ہے کہ ان تین ڈویژنوں کا شمار ملک کے غریب ترین علاقوں میں ہوتا ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ تحریک انصاف نے انتظامی صوبے کی بات کی ہے ‘ لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ انتظامی صوبہ کیا ہوتا ہے؟آئین میں نئے صوبے بنانے کا طریقہ کار درج ہے اور نیا صوبہ ویسا ہی صوبہ ہوگا جیسا کہ دوسرے صوبے ۔مزید یہ کہ تحریک انصاف نے جنوبی پنجاب کے نام سے تین ڈویژنوں پر مشتمل صوبے کی بات کی ہے ۔
حالانکہ یہ کام پارلیمانی کمیشن کا ہے کہ وہ اسٹیک ہولڈرز ، ایکسپرٹس اور پارلیمانی نمائندوں سے تجاویز حاصل کرنے کے بعد یہ طے کرے کہ نیا صوبہ کن حدود پر مشتمل ہوگا اور اس کا نام کیا ہوگا۔ تحریک انصاف نے جس عجلت سے جنوبی پنجاب صوبے کا نام اور حدود کا مسئلہ طے کرنے کی کوشش کی ہے لگتا ہے کہ اس میں اس کی اپنی کوئی سوچ نہیں ۔ جس طرح اسے ڈکٹیٹ کرایا جا رہا ہے ، اسی طرح وہ بولتی جا رہی ہے ۔ وسیب کے لوگ پوچھ سکتے ہیں کہ وسیب کی تہذیبی شناخت اور جغرافیائی حدود کو ملیامیٹ کرنے کا تحریک انصاف کو کس نے مینڈیٹ دیا ؟
ایک طرف آئین میں ترمیم کر کے سمت پر رکھے گئے شمال مغربی سرحدی صوبے کو خیبرپختونخواہ کا نام دیا جاتا ہے اور دوسری طرف مجوزہ نئے صوبے کیلئے ایسا نام تجویز ہوتا ہے جسے وسیب کے لوگ غلط سمجھتے ہوں ، یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ تحریک انصاف کے منشور میں کہا گیا ہے کہ ہم صوبے کیلئے اتفاق رائے پیدا کرنے کیلئے محنت کریں گے ۔
جس کا مقصدیہ ہے کہ نہ اتفاق رائے پیدا ہو اور نہ صوبہ بنے ۔ منشور میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ صوبائی اسمبلی صوبے کیلئے آئین سازی کرے گی حالانکہ صوبائی اسمبلی آئین ساز ادارہ نہیں ہے ۔ جہاں تک ایوان بالا سینیٹ کی بات ہے تو سینیٹ پہلے ہی دو تہائی اکثریت کے ساتھ سرائیکی صوبے کا بل یعنی آئین پاس کر چکی ہے ۔ ایک لحاظ سے سرائیکی صوبے کو ایک طرح کا جزوی طور پر آئینی تحفظ حاصل ہو چکا ہے۔
جس طرح ڈھیلے ڈھالے انداز میں تحریک انصاف صوبے کی بات کر رہی ہے ‘ اسی طرح پیپلز پارٹی نے بھی سابقہ اور موجودہ الیکشن میں صوبے کا پرچم اٹھایا تھا اور ن لیگ کی طرف سے بھی صوبے کے نام پر اپنی سیاسی ضرورتوں کی غرض سے پتے کھیلے گئے۔ اسی طرح تحریک انصاف کو چلانے والے بھی نواز شریف مخالف صوبے کا پتہ کھیل رہے ہیں ، جب نواز شریف کا کھیل ختم ہوگا تو صوبے کا کھیل بھی ختم ۔ یہ عوامل صرف وسیب کے لوگوں کے ساتھ دھو کے کے مترادف ہے ۔
تحریک انصاف کے صرف اسی ایک نقطے کو لے لیاجائے تو اس میں اتنے زیادہ تضادات ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ منشور بنانے والے کتنے بے سمجھ ہیں ، منشور میں کہا گیا ہے کہ تین ڈویژنوں کے وسائل وسطی پنجاب پر خرچ کئے گئے جس کے باعث جنوبی پنجاب پسماندہ رہ گیا۔ حالانکہ صرف تین ڈویژن نہیں بلکہ سرائیکی وسیب کے دوسرے اضلاع میانوالی ، بھکر، خوشاب ، سرگودھا، چنیوٹ ، جھنگ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، اوکاڑہ ، ساہیوال ، پاکپتن کے وسائل بھی ان علا قوں پر خرچ نہیں خرچ کئے گئے ۔
اور اگر بات کو آگے بڑھایا جائے تو خیبرپختونخواہ جہاں کل اور آج پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہے، وہاں بھی تحریک انصاف نے سرائیکی وسیب کے اضلاع ٹانک و ڈی آئی خان سے انصاف نہیں کیا ۔ حکومت کو معلوم ہونا چاہئے ٹانک و ڈی آئی خان میں سرائیکی صوبے کی تحریک پنجاب کے اضلاع کی نسبت زیادہ شدت کے ساتھ چل رہی ہے ، وہ وہاں کی بات کیوں نہیں کرتے؟ کسی بھی معاملے میں امتیازی سلوک نہیں ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف کا وسیب کی حدود اور شناخت کو ملیامیٹ کر کے جنوبی پنجاب صوبے کی بات کرنا امتیازی سلوک کے زمرے میں آتا ہے۔
وزیر اعظم کوشاید ابھی اس بات کا بھی علم نہیں کہ قوموں کی اپنے وطن ، اپنے خطے اور اس کے آثار کے ساتھ کتنی محبت ہوتی ہے۔ ہمیں حیرانی ہے کہ مخدوم شاہ محمود قریشی ، جہانگیر ترین ، مخدوم خسرو بختیار، اسحاق خاکوانی ، نصرا للہ دریشک ، رانا قاسم نون ، ملک عامر ڈوگر، اور مخدوم احمد عالم انور جیسے تحریک انصاف کے سیاستدا ن اس طرح کا منشور بننے پر خاموش رہے ۔
یہ بھی پڑھیں:
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر