ذوالفقار علی لُنڈ،ذلفی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.
لفظ دوست اور یار اپنی معنویت کے لحاظ سے بہت سی جہتوں کا حامل ہے۔ یہ خاندانی اور فطری رشتوں سے بہت مُختلف نوعیت کے احساسات سے مُزین ہے۔دوست یا یار کا ذکر آتے ہی کسی قسم کی تھکن، بوجھ، جبر یا گُھٹن کا احساس نہیں ہوتا بلکہ چاہت، جذباتیت، لگاو، دلکشی، مہر و محبت اور سکون کے کھلے رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو سے معطر رشتے کی باد نسیم دل و دماغ کو معطر کر دیتی ہے۔
یہ رشتہ اتنا اہم اس لئے ہے کہ اسے ہم اپنی پسند سے چُنتے ہیں۔ خون ، خاندان، ذات، برادری، قبیلہ، قوم اور مذہب کی ودیعتی بندشوں سے آزاد یہ رشتہ صرف اور صرف ہماری اپنی تخلیق اور پسند کا نتیجہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے ہم اسے دل سے قبولتے ہیں ۔
اس لئے اکثر دیکھنے میں آتا ہے روایتی رشتوں کو نبھاتے نبھاتے ہم خود ریزہ ریزہ ہوتے رہتے ہیں ، بٹتے رہتے ہیں اور ایک نا ختم ہونے والی اُلجھن کو سہتے جاتے ہیں جسے عام طور پر لفظ ‘ قُربانی ‘ کے وسیع تناظر میں سمجھ کر اپنے آپ کو تسلی دیتے ہیں
اس لئے یار زیادہ خوبصورت اور پائیدار رشتہ ہے۔ میرا ایک یار اکثر کہا کرتا ہے کہ اگر خون کے رشتے اچھے ہوتے تو حضرت یوسف کو کنوئیں میں نہ پھینکا جاتا۔
ہمارا ایسا ہی یار آج کے دن ہم سے الگ ہو گیا تھا۔ اُسے کس نے مارا کیوں مارا یہ سوال ریاست کے اداروں کے متعلق ہے مگر جو بطور یار ہم نے کھویا ہے وہ احساس ہماری ذات اور ہمارے جذبات کی ملکیت ہے۔ جس کو نہ تو کوئی چھین سکتا ہے اور نہ ہی اُسے کسی انصاف، تمغے یا تعریف کی ضرورت ہے۔
بطور انسان وہ بہت سی غیر ضروری سماجی آلائشوں سے پاک تھا۔ وہ کسی ذات، مذہب یا قوم سے تعصب ہر گز نہیں رکھتا تھا ۔ وہ غیر ضروری انداز میں ٹھونسی گئی روایتی حُب الوطنی اور نیکیوں کی پکڑ سے پرے رہتا تھا، طبقاتی نا انصافیوں پر اُس کا دل کُڑھتا تھا، صنفی امتیاز کی بُنیاد پر حقوق و وسائل کی موجودہ تقسیم کے خلاف وہ عملی طور پر لڑتا رہتا تھا، وہ خود مارکسسٹ رہا مگر روایتی بائیں بازو سے مایوس تھا، اُسے اپنے ‘ وسوں ‘ سے عشق تھا۔ وہ سگریٹ کے لمبے لمبے کش لیتا تھا اور رات کو دیر تک مُختلف دوستوں کے ہاں گپیں اور کرنٹ افئیرز پر گفتگو کرتا تھا، خود ایک این جی او میں کام کرتا تھا مگر اُس کام میں بھی اپنی سوچ اور فلسفہ فٹ کر دیتا تھا جس کی وجہ سے ڈونر ز کے ساتھ اُس کے جھگڑے بھی ہو جاتے تھے، وہ تھیٹر لکھتا بھی تھا، ڈاریکٹ بھی کرتا تھا اور کبھی کبھار پرفارم بھی کرلیتا تھا۔ سٹریٹ تھیٹر کی وہ مقامی لوگوں کو ٹرینینگ بھی دیا کرتا تھا۔ اُس کے پاس پورے مُلک سے پُرانا لیفٹ کا سیاسی کیڈر، نئی نسل کے نوجوان، جماعت اسلامی کا پڑھا لکھا ‘ نیک نام ‘ طبقہ سب آتے تھے۔ سب اُس کے سیاسی و تاریخی علم سے سیر ہو کر جاتے تھے۔ بطور پاپ وہ اپنے بیٹوں کے عشق کے قصے بھی سُن لیتا تھا، اُن کے پرائیویٹ افئیرز سے بھی اُسے کوئی دھچکا نہیں لگتا تھا بلکہ وہ اُن سے عشق و مُحبت کی جذباتی و سماجی جہتیں ڈسکس کرتا تھا۔
بطور یار بھی وہ کمال کا کردار تھا۔ اُس کی اصل یاری عموماً روایتی کسانوں، کلاسیکل قسم کے شکاریوں ،دریا پر بسنے والے کیہلوں ، سرائیکی کے غیر روایتی شاعروں اور بےچین قسم کے نوجوانوں سے ہوتی تھی۔ وہ بچوں سے بھی خوب گُھل مل جاتا تھا۔ اُسے یاری کے نہ صرف مفہوم کا پتا تھا بلکہ وہ عملی طور پر اسے نبھانے میں آخری حد تک جاتا تھا۔
اُسے مقامی جاگیرداروں، تھانے کچہری کے اہلکاروں اور قبضہ مافیا سے کوئی ہمدردی نہیں تھی۔ جب بھی ضرورت پڑتی وہ سب سے پہلے ان کے خلاف سراپا احتجاج ہوتا اور اُن کے خلاف لوگوں کو اکٹھا کر کے احتجاج اور جلوس نکلواتا۔وہ شاید پہلا شخص تھا جس نے طالبان کے عروج کے دنوں میں کوٹ ادو شہر میں اُن کے دھمکی بھرے خط کے خلاف بڑی تعداد میں مرد اور عورتوں کا مُشترکہ جلوس نکالا تھا۔
اُس نے یہاں کی مقامی پولیس اور تھانوں کی غُنڈہ گردی کے خلاف بھی کئی بار لوگوں کو مُنظم کر کے عام لوگوں کے خوف کو کم کیا تھا۔
وہ عشق بھی کرتا تھا اور جیسا اُس نے عشق کی منزلوں سے آشنائی پائی تھی وہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ اپنی زندگی میں اُس نے پیچھے ہٹنا یا بھاگ جانا سیکھا ہی نہیں تھا۔ نہ وہ عشق سے بھاگا، نہ طاقتور ریاست کے اداروں کے ڈر سے اپنا مشن روکا، نہ ہی کسی دھمکی یا لاچ کے زیر اثر اپنی جدو جہد ترک کی۔
وہ شخص لوگوں کو جوڑتا تھا، وہ سماج کی اجتماعی ترقی پر یقین رکھتا تھا، اُس کی خوشیاں اور غم عام لوگوں سے جُڑے ہوئے تھے مگر اُن کا اظہار وہ اسطرح نہیں کرتا تھا جیسے عام لوگ کرتے ہیں۔ وہ اگر کسی کی قُل خوانی پر جاتا تو وہاں بھی سگریٹ سُلگا لیتا تھا اور غم کی کیفیت کو اپنے اوپر طاری کرنے کی کوشش کرنے کی بالکل کوشش نہیں کرتا تھا۔
اُس پر الزام تھا کہ وہ نوجوانوں کو بہکاتا ہے، عورتوں کو حقوق کی آگاہی کے ذریعے گھر کی چار دیواری سے باہر لے آتا ہے، بڑی بڑی کمپنیوں کے نام نہاد ترقیاتی منصوبوں میں سے مقامی لوگوں کا حصہ مانگتا تھا، اُسے روایتی سوشلست نیشنلسٹ ہونے کا الزام لگاتے تھے جبکہ روایتی نیشنلسٹ اُس پر سوشلسٹ ہونے کی تہمت دھرتے تھے۔ اُس پر ایک اور الزام بھی تھا کہ وہ بلوچستان میں بلوچوں کی جدو جہد کو سپورٹ کرتا تھا مگر جس کی وجہ سے اُسے مارا گیا وہ الزام تو اُس پر تھا ہی نہیں۔ آہ ظفر لُنڈ تیری کمی سرائیکی وسیب اور یہاں کے کمزور طبقات میں کافی دیر تک محسوس کی جاتی رہے گی۔
تو جن کا یار تھا وہ تیرے مرنے پر روتے نہیں ہیں نہ ہی اُنہون نے تیری آخری رسموں میں جانا ضروری سمجھا بلکہ وہ تُجھے یاد کر کے آج بھی اپنے اندر کُچھ ایسا محسوس کرتے ہیں جو اُنہیں نا انصافیوں کے خلاف لڑنے کی ہمت دیتا ہے اور دہشت گردوں کے خوف سے نمٹنے کی صلاحیت بڑھاتا ہے۔ کامریڈ سُرخ سلام۔
اے وی پڑھو
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر
سرائیکی وسیب کے شہر لیہ میں نایاب آوازوں کا ذخیرہ