گلزاراحمد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرے بچپن کے زمانے میں گاوں ایک خاندان کی شکل میں تھا۔ عورتیں صبح کے کام کاج سے فارغ ہو کر ایک گھر جمع ہوتیں اور گپ شپ چلتی مرد گرمیوں کی دوپہر کو اپنی چارپائی اور سرھانہ اٹھا کر گاوں کے ایک بڑے درخت کے نیچے محفل جماتے اور سو کر آرام کرتے۔ لڑکیاں بھی اپنی ماوں کے ساتھ بیٹھتی جہاں انہیں سینے پرونے کا ہنر سکھایا جاتا۔ قران کا سبق لینے کے لیے لڑکیاں کسی ایک خاتون سے جا کر پڑھتیں ۔ہم دس بارہ سال کے لڑکے قنچے چدے ۔لٹوڑیاں۔پٹھو گرم۔ وغیرہ کا کھیل کھیلتے اور جب تھک جاتے تو سو جاتے۔ بجلی تھی نہیں گھر کی چھت پر جھالر والا پنکھا ٹنگا ہوتا تھا۔ہم خوب ٹھنڈی ہوا کے نیچے گہری نیند کرتے۔ماں سارا دن اپنی پاوں کی انگلی میں رسی پھنسا کر جھالر والا پنکھا ہلاتی رہتی۔ ماں کی قدر کا کوئی شخص زندگی میں اندازہ کر ہی نہیں سکتا۔ گرمیوں کے دنوں میں میرے سفید کُرتے بند گلے والے بنتے تو گلے کے ارد گرد خوبصورت ہار کی کڑاہی گاوں کی لڑکیاں مفت میں کر دیتیں۔ اس زمانے میں سویٹر بھی سلائیوں سے بننے پڑتے تھے جن کے بننے پر ایک ایک مہینہ لگ جاتا۔ ماں بازار سے پشم کا دھاگہ خرید کے کسی لڑکی کو دے دیتی وہ سلائی کر کے ماں کو پہنچا دیتی اس کا بھی معاوضہ نہیں تھا۔ کبھی بستر کی بڑی چادر ۔تکیے میز پوش۔رومال پر پھول کاڑھ کے لڑکیاں ماں کو دے جاتیں۔ غریب سے غریب لوگ بھی معاوضہ لینا غیرت کے خلاف سمجھتے تھے۔ شادیوں پر ہم ہر گھر سے ایک ایک چارپائی اکٹھی کرتے۔دیگیں پکانے ہر گھر سے ایک بندہ آتا۔دریس سب گاوں جمع ہو کے دیکھتا۔ مجھے بکری اور بھیڑ کے بچے بہت پیارے لگتے ہیں اور ان کے پالنے کا مجھے بڑا شوق تھا۔ گاوں میں کسی کی بکری یا بھیڑ کا بچہ ہونے والا ہوتا تو میں ایڈوانس بکنگ کرا آتا اور اکثر جب وہ لیلے کچھ چلنے پھرنے کے قابل ہوتے تو گاوں والی ماسیاں میرے گھر چھوڑ جاتیں اور میں انہیں بستر میں لے کے بیٹھا ہوتا۔لیلے میرے پیچھے پیچھے چلتے اور رات کو میری چارپائی کے ساتھ بیٹھے رہتے۔میں نے ایک ٹرانسسٹر ریڈیو خریدا تو گاوں کی لڑکیوں نے اس کا خوبصورت کپڑے کا کور کاڑھ کے دے دیا۔ جب میں لاھور پڑھ رہا تھا تو میری ماں ہمیشہ مجھ سے لاھور سے خوبصورت پیالوں کے سیٹ۔پلیٹیں۔رنگ برنگے ٹرے یا پتنوس ۔چوڑیوں کے سیٹ۔جرمنی کے لالٹین۔ پھولدار کپڑوں کے تھان۔الارم والی گھڑیاں۔ خوبصورت چپل۔بچوں کے کھلونے منگواتی کیونکہ یہ لاھور میں بہت سستے ملتے تھے اور گاوں والوں کی ضرورت کے مطابق تقسیم کرتی۔ گاوں کی ماسیاں اور بچیاں اس بات سے بہت خوش ہوتیں تھیں کہ وہ جو چیزیں استعمال کر رہی ہیں وہ لاھور سے آئی ہیں۔ میں لاھور سے گھر آتا تو میری مہمانداری بڑی ہوتی۔ کسی گھر سے دیسی انڈے کسی سے مرغی۔ دیسی گھی کہیں سے دودھ سب فری میں ملتا۔ کچھ جگہ سے تِل بھی آ جاتے تھے کیونکہ انہوں نے فصل اٹھائی ہوتی۔ عید کے قریب بستی کی چارپائی بننے والا چاچا ایک مضبوط رسا بناتا اس کو رنگ دیتا اور پینگ کے لیے پیش کرتا۔میرے گھر کے اونچے کیکر پر عید کو پینگ ضرور باندھی جاتی جسے سب لوگ جھوٹتے۔ رنگین چنگیریں۔مصلے بھی ہمیں تحفے میں ملتے۔ کچھ لوگ کھیس اور گرم چادریں دے جاتے۔ میرے دوست بلبل۔اور کبوتر اس طرح سدھا لیتے کہ وہ ہمارے کندھوں پر بیٹھتے۔ ساون کے مہینے میں ہم بڑے جامن کے درخت پر چڑھ کر تازہ جامن اتار کر کھاتے۔کھجور کے درخت پر چڑھنے کے لیے ایک رسا کمر میں باندہ کر کھجور اتاری جاتی۔ہمارا رسہ بنانے والا چاچا ایک پانچ فٹ کا ایک ایسا رسا بناتا جو سانپ کی طرح کا تھا اس کو ہم ایک ہاتھ سے پکڑ کر تیزی سے اپنے ارد گرد گھماتے اور پھر الٹی طرف کچی زمین پر مارتے جس سے بندوق کے فائیر کی آواز پیدا ہوتی اور ہماری تیار گندم کی فصل وغیرہ سے پرندے بھاگ جاتے۔ اس کا نام بھول گیا شاید چھات یا شاٹ کہتے تھے۔گاوں والوں کے گھوڑوں پر ہم خوب سواری کرتے اور ریت پر بھگاتے۔پھر یوں ہوا کہ گاوں میں باہر کے لوگ آباد ہونا شروع ہوے اجنبیت بڑھنے لگی۔لوگوں نے کچے مکانات کی جگہ سیمنٹ سریا اینٹوں سے مکان بنانا شروع کیے تو دل بھی پتھر کے ہونے لگے۔ پیار محبت یگانگت اتحاد اتفاق سب کہیں کھو گیا اب ہمارا گاوں بھی ترقی کر گیا اور ہم اس طرح رہتے ہیں جیسے اجنبی۔بے گانے۔کراچی اسلام آباد والے۔
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر