عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوف اپنے آپ میں بڑا استاد ہے۔ بندہ سبق نہ سیکھے تو بھری جماعت میں مرغا بنا دیتا ہے۔ خوف کمزوری کی علامت ہے لیکن بذات خود یہ خوف کی طاقت ہے جو انسان کو مجبور کر دیتی ہے۔
خوف سراسر منفی جذبہ ہے۔ یہ انسان کا حوصلہ توڑتا ہے مگر یہ خوف ہی ہے جو اچانک امڈ آئے تو مارے خوف کہ بندہ وہ کچھ کر گزرتا ہے جسے عام حالات میں وہ سوچ بھی نہ سکے۔
خوف انسانی رویوں کی ایسی عجیب قسم ہے جو انسان کو مظلوم بنا سکتی ہے اور ظالم بھی۔ ہتھیار، جنگیں، قبضے، قتل عام یہ سارے خوف ہی کا تو کھیل ہیں۔ اس لیے انسان ہی کیا، انسانوں کا مجموعہ یعنی ریاستیں بھی خوف کی مینجمنٹ کو دفاعی پالیسی کہتی ہیں۔
فصیلیں اٹھائی جاتی ہیں، سرحدیں بنائی جاتی ہیں۔ چوکیوں پر اسلحہ لیے کھڑے نوجوان لڑکے قوم کے اجتماعی خوف سے نبرد آزما رہتے ہیں۔ یہ عین فطرت ہے کہ اپنی حفاظت کو ہاتھ خود اٹھتے ہیں۔
خوف کے آگے بند باندھنے کے جتن انفرادی بھی ہوتے ہیں۔ جیب میں پڑا اسلحہ، گھر کے دروازے پہ بندھا خونخوار کتا، خاردار تاریں یا کولڈ ڈرنک کی بوتل توڑ کر گھر کی دیواروں پہ لگایا گیا کانچ کا ٹکڑا۔ سب خوف کا فطری ردعمل ہیں۔
انسانی فطرت کا ایک مظہر معجزوں پہ یقین بھی ہے۔ یوں صدقہ رد بلا، دعاؤں کے ورد، گرہ پڑی سیاہ ڈوریاں اور موم میں لپٹے زعفرانی تعویذ۔ یہ سب بھی خوف کے سامنے استعمال ہونے والی ڈھال ہیں۔
لیکن اگر یہی خوف کسی دوسرے، مخالف، سامنے والے سے نہیں اپنے آپ سے آتا ہو تو؟
ڈھیروں دلاسے، ہزار واسطے، لاکھ یقین دہانیاں اوران گنت دفاعی پالیسیاں اپنی جگہ، لیکن اگر خوف کا گڑھ خود اپنے اندر ہو تو کیا کیجیے؟
پاکستان کے دفاعی مبصرین، سفارتی امور کے تجزیہ نگار، افغان امور کے ماہرین، پشتو، فارسی، دری، زبان جاننے والے دانشور، زندگی میں ایک بار بھی افغانستان جانے والے صحافی، افغان جہاد سے کسی بھی طرح کا معمولی سا تعلق واسطہ رکھنے والے حضرات۔
مان لیتے ہیں کہ یہ سب کے سب افغانستان کا چلتا پھرتا انسائیکلوپیڈیا ہیں۔ مگر طالبان کی واپسی سے جڑے ان دیکھے خوف کا جواب کسی کے پاس نہیں۔ اور خوف بھی وہ جس کی جڑیں ہماری زمینوں میں بھی ہیں۔
طالبان افغانستان کے شمال سے لے کر جنوب تک سارے علاقے فتح کرنے کا دعویٰ کریں یا ملک کا 85 فیصد اپنے کنٹرول میں آنے کا۔ کابل پہ چڑھائی جلد ہو بدیر۔ خوف ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔
ہمدردی، امیدیں اور دعائیں ہمسائے ملک کے بے قصور عوام کے لیے جو پہلے ہی کئی دہائیوں کی جنگ سے تباہ حال ہیں۔ جن کی نسلیں بھی نقل مکانی کرتے کرتے بوڑھی ہوگئیں، جن کے جوان بھاری گولہ بارود کے شور میں اپنی جوانیاں بھی جی نہ پائے۔
بیچ میں پاکستانی فوج کی بنائی دھاتی باڑ ہے، جس کے مغربی جانب شورش اور آفت کی ایک بار پھر آمد ہے اور اِس پار ہے ماضی کی غلطیوں کا بوجھ، انتظار، حکمت عملی، سیاست، سفارت کاری، اپنے اور پرائے لوگوں کی ریشہ دوانیاں، ان دیکھے وسوسے، اندیشے اور خوف۔
خوف پھر سے آگ و خون کی ہولی کا، گھر سے نکلنے والے معصوم شہریوں، پولیس اور آرمڈ فورسز کے جوانوں کی زندگیوں کا، کراچی سے پشاور تک بڑے شہروں میں پیسوں کے لیے ہونے والی بینک ڈکیتیوں، اغوا برائے تاوان اور بھتے کی وارداتوں کا۔
خوف کیسے نہ پنپنے پائے۔ جب کراچی کی مرکزی سڑکوں پہ ایک فرقے کو کافر کہنے کی ریلی نکلے، جب ناموس کے نام پہ پنجاب میں پولیس والوں کے سر پھاڑے جائیں، جب کالعدم جماعتیں بزنس ایز یوژول میں مصروف نظر آئیں، وفاقی دارالحکومت میں ایک مسجد اور مدرسہ متازعہ مطالبات لے کر آئے روز سامنے آجائے۔
توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگا کر مجمعے کے ہاتھوں غیرمسلم ہی کیا کسی مسلمان کو بھی موت کے گھاٹ اتار دینے، یا کسی مخصوص علاقے یا ادارے میں داخل ہونے کے لیے برقعہ اور نقاب لازمی قرار پانے کی مثالیں موجود ہیں۔ خوف بےبنیاد تو نہیں۔
خوف تو ہوگا جب کہ آن ریکارڈ پولیس گاہے بگاہے بتاتی رہتی ہے کہ کالعدم جماعتوں کے سلیپر سیلز موجود ہیں، بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی طرح کے خطرات موجود ہیں۔ جب کہ نامور جامعات کے ہونہار طلبہ درپردہ کالعدم تحریکوں میں ملوث پائے جانے کے واقعات بھی ہمارے ہی درمیان واقع ہوئے۔
ڈنڈے کے زور پہ شریعت کے نفاذ کے شوقین بھی ہمارے ہی اندر موجود ہیں اور اقلیتوں کو ڈرا دھمکا کر، ان کی لڑکیوں کو زبردستی اٹھا کر مسلمان بنانے والے جنونی بھی ہمیں میں سے چند ایک ہیں۔ پھر پڑوس میں طالبان کی واپسی سے خوف کیسے نہ آئے۔ کابل کا تندور دہک رہا ہے۔
شاید خوف دبانے کو کچھ حلقوں کی جانب سے طالبان کی مثبت برانڈنگ بھی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر طالبان کا اک نیا تصور ابھر رہا ہے کہ وہ انگریزی لکھ پڑھ سکتے ہیں، مذاکرات کر سکتے ہیں، کئی ممالک ان کے ساتھ سیاسی طور پر مصروف ہیں۔
گڈ طالبان بیڈ طالبان۔ افغان طالبان پاکستانی طالبان۔ جنونی طالبان یا سیاسی طالبان۔ اس نام کے لیتے ہی پشاور آرمی پبلک سکول کے مرکزی ہال میں بہتی خون کی ندی، ریزہ ریزہ بکھرے بچے اور اساتذہ کے سوختہ جسم آنکھوں کے سامنے لہرا جاتے ہیں۔ برسوں کا خوف ایک لمحے میں ریڑھ کی ہڈی تک اترتا محسوس ہوتا ہے۔
مبصر چاہے کتنی ہی دلیلیں لے آئیں، عالمی مذاکراتی ٹیمیں چاہے کتنی بار طالبان سے ہونے والے امن معاہدوں کی گردان کریں، وزیر خارجہ شاہ محمود کہیں کہ وہ معاملہ فہم ہوگئے ہیں یا وزیر داخلہ شیخ رشید کو لگے کہ سدھر گئے مگر طالبان نام سے جڑے خوف، دہشت اور بربریت کے تصور کو اتنی آسانی سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔
کئی دہائیوں کا خرابہ ہے کئی دہائیوں میں ٹھیک ہوگا۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر