دسمبر 26, 2024

ڈیلی سویل۔۔ زمیں زاد کی خبر

Daily Swail-Native News Narrative

“م” سے ملالہ اور “ع” سے عقل ||فضیل اشرف قیصرانی

عجیب مُنافقت ہے۔ملالہ یوسفزئ سے جلن،بغض اور حسد سمجھ آتا ہے کہ نھنی سی بچی نوبل پرائز لے چکی اور ہم اتنی اتنی گنگ دام زندگیاں پا کر بھی اپنی گلی سے باہر شناختی کارڈ دکھا کر پہچانے جانتے ہیں۔۔

فضیل اشرف قیصرانی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عجیب مُنافقت ہے۔ملالہ یوسفزئ سے جلن،بغض اور حسد سمجھ آتا ہے کہ نھنی سی بچی نوبل پرائز لے چکی اور ہم اتنی اتنی گنگ دام زندگیاں پا کر بھی اپنی گلی سے باہر شناختی کارڈ دکھا کر پہچانے جانتے ہیں۔۔
بنتی ہے پریشانی کہ ہم نے سعودیہ سے امریکہ ہر سامراج کے گیت گاۓ مگر ہمارے بجاۓآج باہر وہ بیٹھی ہے۔ہوتا ہے غم کہ ہمارے سب سے سیانے بندے سے دس مرلے کا پلاٹ نہ لیا گیا اور ملالہ سے دنیا کے ہر نیوز چینل نےانٹرویو لے لیا۔آتا ہے غصہ کہ ہم نے مزاحمت کے نام پر اگر کچھ زیادہ کیا تو اپنی گھر کی خواتین کو سالوں میں ایک بار مری کی سیر کرا آۓ اور وہ ہے کہ آٹھویں کی طالبہ ہوتے ہوۓ وحشی درندوں سے ٹکرا گئ۔
تو اب چونکہ ہمارے بس میں تو کچھ ہے نہیں مگر پہلے دن سےپاکستان کا نصاب تو ہے ہی ہمارے ہاتھ تو وہاں کیوں چھپنے دیں اسکی تصویر؟کیوں بنائیں اسے اپنی بچیوں کا ہیرو؟کیوں ہو وہ ہمارے نصاب میں جبکہ ہمارے نصاب میں تو “ب “سے بندوق اور “ف “سے فوجی ہی آۓ گا۔
اگر کچھ ہمارے نصاب میں نہیں آۓ گا تو وہ “ع “سے عقل ہو گی اور “م “ سے ملالہ کہ یہ ہجوم عقل مند ہو گیا یا ملالہ بن گیاتو حق مانگے گا،سوال کرے گا اور جواب طلبی کرے گا جبکہ ہمیں سوال سرے سے پسند ہی نہیں۔
اور بات اگر ملالہ سے مسلے کی ہوتی تو چھوڑ دیں ملالہ اور ملالہ کی تصویر کو اور سوات کی ملالہ کی بجاۓ میوند کی ملالہ کا قصہ نصاب میں شامل کر لیں،فاطمہ جناح کی جہد کو دے دیں جگہ یا پھر بینظیر بھٹو اور عاصمہ جہانگیر کا کر لیں ذکر۔
مگر سرکار دنیا کے سب سے پاکباز معاشرہ و ملک!
مسلہ ملالہ میں نہیں مسلہ آپ میں ہے اور آپکی بیمار و فالج زدہ سوچ جس قدر آپکو مفلوج کر چکی ہے آپکا واحد علاج یقیناً تیزاب سے غسل ہے۔اورں پر تیزاب گردی کے بجاۓ خود کی عقل کا ماتم کریں۔
سوات اور میوند کی ملالہ زندہ آباد
عقل و شعور زندہ آباد
سوال زندہ آباد
May be an image of 1 person
نوٹ:میوند کی ملالہ کی شہادت 1880 میں برطانوی سامراج سے لڑتے ہوے ہوئ۔میوند کی ملالہ کاخیالی عکس پوسٹ کے ساتھ دیا جا رہا ہے۔

About The Author