عفت حسن رضوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ سچا تجربہ بیان کرنے کا اس سے بہتر وقت شاید کبھی نہیں ہوگا۔ اسے کرتے وقت شاید یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ صرف ایک تجربہ بن جائے گا یا کبھی اسے لکھنا بھی پڑے گا۔
میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکشن میں پڑھتی تھی۔ یونیورسٹی شہر کا ایک کونہ ہے تو رہائش کھارادر شہر کا پہلا سرا تھی۔ یونیورسٹی کے پہلے سمیسٹر میں ہی اندازہ ہوگیا تھا کہ شہر کی طرح کراچی یونیورسٹی بھی فنڈز کی شدید کمی کا شکار ہے۔
دن میں اولڈ سٹی کے لیے دو ہی بسیں چلتی تھیں۔ وہ چھوٹ گئیں تو سمجھو گئے۔ اس لیے یونیورسٹی آنے جانے کو پبلک بسوں کے دھکے تو کھانے پڑیں گے۔
یونیورسٹی گیٹ تک آنے کے لیے میلوں لمبی واک، کراچی کی دھوپ، اولڈ سٹی کی ٹریفک آلودگی اور ہمارا سانولا رنگ۔ سوچنا شروع کیا کہ برقع پہنا جائے، پھر رفتہ رفتہ برقع پہننے والیوں سے انٹرویوز کیے تو پتہ چلا جو کپڑے استری کرنے کا جھنجھٹ ہے اس سے بچت ہوتی ہے، بلکہ برقعے کے اندر پھٹے پرانے کپڑے بھی پہن رکھے ہوں تو سب چھپ جاتا ہے۔
جھٹ کھارادر کی مارکیٹ سے ایک سستا سا چھانٹ کے سیاہ برقع اور سکارف خریدا جس میں نقاب بِلٹ ان تھا۔ بلٹ ان یعنی سر پہ سکارف پہنیں تو ساتھ میں سلا ہوا نقاب اپنے آپ چہرے پہ فکس ہوجاتا ہے۔ نظر صرف میرا نظر کا چشمہ ہی آتا تھا۔
گھر والوں نے اسے میری مرضی سمجھ کر قبول کیا کیونکہ خاندان میں برقع چادر عبایا اور دوپٹے سب رائج ہیں۔ سہیلیاں اگرچہ سب سر پہ دوپٹے لیتی تھیں لیکن میرے برقع پہننے پہ سب نے ہی برقعے میں لگنے والی گرمی سے ڈرایا، ایک نے کہا شخصیت بگڑ جائے گی، تم کہیں سے صحافی نہیں لگو گی۔
لیکن میں نے برقعے کی وکالت میں کئی دنیاوی اور آخروی دلائل دیئے۔ ایک دلیل یہ بھی دی کہ چہرے پہ نقاب آنے سے مفت کا سن سکرین اور فحش نظروں سے نجات مل جاتی ہے۔
برقع پہنا تو اندازہ ہوا اسے پہننے والوں کے بھی اپنے معیار اور درجے ہیں۔ برقع صرف سیاہ کپڑا نہیں، اس کی سلائی، کپڑے کی نفاست اور اس کا خلیجی ممالک جیسے دبئی وغیرہ سے امپورٹڈ ہونا اسے دیگر برقعوں سے ممتاز بناتا ہے۔ برقعے کی ساخت سے بھی پہننے والی کے سوشل سٹیٹس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
بعض لڑکیوں نے برقعوں میں ایسی جدت گھولی ہے کہ اس کا مقصد فوت ہو جائے۔ برقعے کا کپڑا اتنا مہین بھی ہوتا ہےکہ اندر سے سارا لباس عیاں ہو، بعض اسے اپنے جسم کے حساب سے فٹ کروا لیتی ہیں اور بعض برقعوں پہ ستاروں سے ایسی مینہ کاری کی گئی ہوتی ہے کہ ان اقسام کے برقعے اپنی سمجھ نہیں آئے۔
خیر میں نے برقع کی تمام تر باریکیوں میں جائے بغیر ایک عام سیاہ برقع پہننا شروع کردیا۔
برقع زمانہ طالب علمی میں بناؤ سنگھار کے غیر ضروری شغف کو ختم کرتا ہے، تیاری پہ زیادہ وقت نہیں لگتا اور آپ کی شناخت چھپی ہوئی ہوتی ہے اس لیے عجیب سی آزادی محسوس ہوتی ہے۔
ابتدائی دنوں میں لگا زندگی میں بہار سی آگئی، برقعے اور نقاب کے اس پار میں یہ سمجھنے لگی کہ میں نے سلیمانی ٹوپی پہن لی ہے، اب مجھے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔
یہ میری بھول تھی۔
ابتدا بس سٹاپ سے ہوئی، بولٹن مارکیٹ کے بس سٹاپ پہ بینک ملازم، وکیل اور ہول سیل مارکیٹ میں آئے عام افراد اکثریت میں ہوتے۔ یہ سب پہلے بھی ہوتے تھے مگر کبھی پرواہ نہیں کی تھی۔ مگر برقع کے ساتھ محسوس کیا کہ کندھے سے ٹکرا کر نکل جانا گویا معمول ہے۔
کچھ عرصے میں لگا کہ بپلک بس میں پہلے جو نظریں گھورتی تھیں، اب بھی مسلسل تعاقب میں ہیں۔ خواتین کے خانے کی سیٹ پہ بیٹھ کر پیچھے بیٹھے حضرات کی دست درازی سے بھی کوئی حفاظت نہیں۔
یہ بھی عقد کھلا کہ رنگین دوپٹہ سر پہ ہو سینہ ڈھکا ہو، یا سر سے پاؤں تک جسم سیاہ کپڑے میں چھپا، جس نے راہ چلتے پیچھا کرنا ہوتا ہے وہ کرتا ہے۔ وہ یہ بھی نہیں دیکھتا کہ برقعے کے اندر اس کی ماں کی عمر کی عورت ہے یا اس کی بیٹی جتنی لڑکی۔
برقع تھا تو برقعے والیوں کے نئے گروپس میں شمولیت ملی جس میں اسلامی جمیعت طالبات کا ایک ٹھکانہ آرٹس فیکلٹی کے ڈین کے ساتھ والا گرلز ویٹنگ روم بھی تھا جو عملاً نماز کا ہال بنا دیا گیا تھا۔ نماز ظہر کے بعد گھر جانے کی تیاری اور بات چیت کے دور چلتے۔
لگ بھگ ہر دوسری تیسری لڑکی سڑکوں، محلوں، گلیوں، پرہجوم مارکیٹوں، راستوں، بس سٹاپوں اور بسوں میں ایسی چھیڑا چھاڑی کی شکایت کرتی تھی، وہ بتاتی تھیں کہ کیسے بائیک روک کر ساتھ بیٹھنے کی گھٹیا آفر ہوتی ہیں۔ یاد رہے یہ سب لڑکیاں ماشااللہ سے باحجاب ہوا کرتی تھیں۔
یقیناً باپردہ ہونے کے لیے برقع پہننا، چادر لینا، یا دوپٹہ اوڑھنا ایک عورت کا ذاتی انتخاب ہے، یہ احسن فعل ہے، لیکن اس کے پردے کا انتخاب اس بات کی ضمانت نہیں کہ جنسی جرائم پیشہ افراد اپنے آپ ہی راہ راست پہ آجائیں گے۔
سارے بیہودہ مزاج آوارہ مرد سیاہ برقع دیکھتے ہی کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور معافی کے لیے اللہ کے آگے سر بسجود ہوجائیں گے۔ یا برقعے والی دیکھتے ہی راستہ بدل لیں گے اور کسی بےحیا کی تلاش میں گلیوں مارے مارے پھریں گے۔
عورت ٹافی ہے نہ ہی مرد ننگی ٹافی پہ بھنبھناتی مکھی۔ یہ دونوں اشرف المخلوقات ہیں۔ ان کا نفس، شہوت، دل، مزاج، آنکھیں، زبان، ہاتھ، جسم، جنسی رجحان، حلال حرام اور اچھے برے میں تمیز ان کے کنٹرول میں ہے۔ کسی روبوٹ یا سیاہ برقعے کی سلوٹ میں نہیں۔
یہ بھی پڑھیے:
کامریڈ خدا حافظ۔۔۔عفت حسن رضوی
ابا جان کی نصیحت لے ڈوبی۔۔۔عفت حسن رضوی
ہزارہ: میں اسی قبیلے کا آدمی ہوں۔۔۔عفت حسن رضوی
خاں صاحب! آپ کو گمراہ کیا جارہا ہے۔۔۔عفت حسن رضوی
فحاشی (وہ مضمون جسے کئی بار لکھا اور مٹایا گیا)۔۔۔عفت حسن رضوی
اے وی پڑھو
اشولال: دل سے نکل کر دلوں میں بسنے کا ملکہ رکھنے والی شاعری کے خالق
ملتان کا بازارِ حسن: ایک بھولا بسرا منظر نامہ||سجاد جہانیہ
اسلم انصاری :ہک ہمہ دان عالم تے شاعر||رانا محبوب اختر